پاکستان 14 اگست 1947 ء کو معرض وجود میں آیا، اس دن رمضان المبارک کی 27 تاریخ تھی اور اس کے تیسرے دن عیدالفطر تھی یعنی 18 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے بعد پہلی عیدالفطر منائی گئی۔ گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نماز عید بندر روڈ پر واقع عیدگاہ میدان میں ادا کی یہ جگہ آج بھی عید گاہ ہی کہلاتی ہے لیکن سڑک کا نام اب ایم اے جناح روڈ ہے، قیام پاکستان کے وقت اس مقام پر ایک بہت بڑا میدان تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ مختصر ہوتا چلا گیا اور قبضہ مافیا نے یہاں مختلف عمارتیں اور دکانیں بنا دیں، قائد اعظم جب نماز عید ادا کرنے کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے سفید شیروانی، سفید شلوار اور اپنی مخصوص جناح کیپ پہنی ہوئی تھی۔
قائد اعظم نے نمازِ عید ’’عیدگاہ میدان‘‘ بندر روڈ پر ادا کی
اس مخصوص لباس میں قائد اعظم انتہائی باوقار اور دلکش نظر آرہے تھے، اس زمانے میں سیاسی رہنما ہر جگہ جاتے تھے اور لوگوں میں گھل مل جاتے تھے، نہ کوئی بہت زیادہ پروٹوکول ہوتا اور نہ ہی کسی دہشت گردی کا خطرہ درپیش ہوتا، پہلی نماز عید الفطر کراچی کے عیدگاہ میدان میں معروف عالم دین مولانا ظہور الحسن درس کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ مولانا ظہور الحسن درس 9 فروری 1905 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1940 سے 1947 ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قائد اعظم آپ کو ’’سندھ کا بہادر یار جنگ‘‘ کہا کرتے تھے، مولانا ظہور الحسن درس نے 14 نومبر 1972 ء کو کراچی میں وفات پائی اور قبرستان مخدوم صاحب نزد دھوبی گھاٹ میں آسودہ خاک ہوئے، آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور ایک عالم دین کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔
پہلی نماز عیدالفطر کے موقع پر مسلمانوں میں انتہائی جوش و خروش تھا اور وہ ایک آزاد مملکت حاصل کرنے پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار تھے کہ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کا صلہ پاکستان کی صورت میں انہیں مل چکا ہے کیونکہ یہ پاکستان بننے کے بعد پہلی عید تھی اور بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے ہزاروں خاندان بے یارو مددگار تھے ، ہزاروں خاندانوں کے افراد کو شہید کردیا گیا تھا، بہت سے لوگ اپنوں سے بچھڑ چکے تھے جو مسلمان پاکستان پہنچے ان کے رہنے کے لئے نہ گھر تھے نہ ہی پہننے کے لئے عمدہ لباس لیکن اس کے باوجود وہ خوش تھے، سرشار تھے کہ آج وہ اپنے آزاد ملک میں پہلی عیدالفطر ادا کر رہے ہیں، نماز کی ادائیگی اور دعا کے بعد قائد اعظم وہاں موجود لوگوں سے ملے اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم وطن حاصل کرنے پر کو مبارکباد دی۔
قائد اعظم نے اس موقع پر ایک پیغام جا میں کہا، ’’بلاشبہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے لیکن یہ تو صرف منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ ہمارے کاندھوں پر جتنی ذمہ داریاں آن پڑی ہیں ان سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے ہمارا عزم بھی اتنا ہی عظیم ہونا چاہئے۔ ہم اپنے ان بھائیوں کو جواب ہندوستان میں اقلیت میں ہیں نہ کبھی نظر انداز کریں گے اور نہ ہی کبھی فراموش ۔ مجھے تسلیم ہے کہ اس برصغیر کے مسلم اقلیت صوبوں کے مسلمانوں کے بدولت ہی ہمارے عظیم نصب العین پاکستان کا حصول ممکن ہوا ہے۔‘‘
عیدالفطر کے بعد پہلی عیدالاضحی 25 اکتوبر 1947 ء کو منائی گئی ، قائد اعظم اور دیگر عمائدین کے لئے نماز عیدالاضحی عید کا اہتمام عید گاہ گرائونڈ بندرروڈ پر ہی کیا گیا، اس نماز کی امامت کا فریضہ بھی ممتاز عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دیا، قائد اعظم کو نماز کے مقام اور وقت سے آگاہ کیا گیا، نماز کی ادائیگی کے لئے عیدگاہ گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، بچے، بوڑھے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجو تھی، سب ہی لوگوں کو یہ انتظار تھا کہ وہ اپنے محبوب قائد قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ نماز ادا کریں لیکن اس وقت لوگ بہت حیران ہوئے کہ جب نماز کے لئے مقرر کردہ وقت آگیا اور قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچے۔
منتظمین نے مولانا ظہورالحسن درس کو اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ قائد اعظم عید گاہ کے لئے گھر سے نکل چکے ہیں اور راستے میں ہیں اور کچھ ہی دیر میں عید گاہ پہنچ جائیں گے، حکام نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لئے موخر کردیں لیکن مولانا ظہور الحسن درس اس بات کے لئے تیار نہیں تھے انہوں نے کہا کہ میں قائد اعظم کے لئے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نماز پڑھانے کے لئے یہاں موجود ہوں، انہوں نے وقت مقررہ پر صفوں کو درست کرکے تکبیر کرا دی، ابھی نماز کی پہلی ہی رکعت شروع ہوئی تھی کہ قائد اعظم عید گاہ پہنچ گئے، انہوں نے آکر دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے قائد اعظم سے درخواست کی گئی کہ وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں لیکن قائد اعظم نے منتظمین کی اس درخواست کو مسترد کردیا اور فرمایا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا قائد اعظم نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پچھلی صف میں ہی نماز ادا کی جو لوگ قائد اعظم کے برابر میں نماز پڑھ رہے تھے ان کے علم میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ان کے برابر میں مسلمانوں کے عظیم رہنما اور گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نماز ادا کر رہے ہیں، یہ بات جب وہاں موجود لوگوں کے علم میں آئی تو پوری عید گاہ ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ ، ’’قائد اعظم زندہ باد ‘‘کے نعروں سے گونج اٹھی، قائد اعظم وہاں موجودلوگوں سے عید ملے اور اس کے بعد مولانا ظہور الحسن درس کے پاس تشریف لائے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ، ہمارے علماء کرام کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہئے۔
1948 ء میں عید الفطر 7 ؍اگست کو آئی لیکن قائد اعظم بیماری کے سبب نماز عید الفطر کے لئے تشریف نہیں لے جاسکے، انہوں نے عید کی مناسبت سے قوم کے نام اپنا پیغام جاری کیا جو ان کی سیکڑوں تقاریر کا اختتام ثابت ہوا جو انہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران تیار کی تھیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا ’’صرف مشترکہ کوششیں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں… ’’گزشتہ عیدالفطر جو قیام پاکستان کے فوراً بعد آئی تھی، مشرقی پنجاب کے المناک واقعات کے باعث ہمارے لئے اپنے ساتھ لانے والی خوشیاں کھو چکی تھی۔
گزشتہ سال کے خونی واقعات اور ان کے نتائج…لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، ان واقعات نے عدیم المثال قسم کی مصیبت کھڑی کردی۔ بارہ ماہ کا مختصر عرصہ تمام مہاجرین کو جو پاکستان میں آچکے تھے منافع بخش روزگار مہیا کرنے کے لئے کافی نہیں تھا۔ ان کی دوبارہ بحالی کے لئے خاطر خواہ کام کیا جاچکا ہے مگر ان کی کافی تعداد کو بحال کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ ہم اس وقت تک خوشی نہیں منا سکتے، جب تک ان میں سے ہر ایک دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوجاتا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اگلی عید تک یہ مشکل اور پیچیدہ مسائل حل کرلئے جائیں گے اور تمام مہاجرین کو پاکستانی معیشت میں مفید شہریوں کی حیثیت سے جذب کرلیا جائے گا۔
اپنا پیغام جاری رکھتے ہوئے قائد نے لکھا ’’برادر مسلمان ممالک کے لئے میرا پیغام عید دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہے۔ ہم سب ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ طاقت کی سیاست کا ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیل جا رہا ہے، اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ صرف ایک متحدہ محاذ کے قیام کے ذریعے ہی ہماری آواز دنیا کے ایوانوں میں سنی جاسکتی ہے، چنانچہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اسے خواہ کوئی زبان دیں مگر میرے مشورے کی روح یہ ہے کہ: ’’ہر مسلمان کو دیانت داری ، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہئے۔‘‘
یہ ان کے آخری ریکارڈ شدہ الفاظ ثابت ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تحریر کردہ کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں لکھتی ہیں کہ:
اگست کے آخری دنوں میں قائد اعظم اچانک ہر چیز سے بے نیاز نظر آنے لگے اور ایک روز انہوں نے انہماک سے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ’’فاطمی ! مجھے اب مزید … زندہ رہنے… سے کوئی دلچسپی نہیں … میں جتنی جلدی چلا جائوں … اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
یہ بد شگونی کے الفاظ تھے میں لرز اٹھی ، جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھولیا ہو، مگر میں نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا ’’آپ جلدی اچھے ہوجائیں گے ، ڈاکٹر پرامید ہیں۔‘‘وہ مسکرائے … ایک بے جان سی مسکراہٹ ’’نہیں میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا، مجھے کراچی لے چلئے، میں وہیں پیدا ہوا تھا ، وہی دفن ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘ ان کی آنکھیں بند ہوگئیں، میں ان کے بستر کے پاس کھڑی رہی۔ ان کی بے ہوشی میں ان کے خیالات کی بڑبڑاہٹ سن سکتی تھی۔ وہ نیند میں سرگوشی کر رہے تھے۔ ’’کشمیر … انہیں … فیصلہ کرنے کا … حق دیجئے…آئین … میں اسے جلدی … مکمل کروں گا … مہاجرین … انہیں ہر ممکن …امداد دیجئے۔ ‘‘ اور پھر 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوگئیں وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔