محمد خالد مسعود
(سابق چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل)
مدینۂ منورہ میں آج سن۲ ھ کی یکم شوال ہے ۔ صبح سے ہی بہت چہل پہل ہے۔ آج تاریخ اسلام کی پہلی عید ہے۔ ہر گھر میں تیاریاں ہو رہی ہیں۔ نبی اکرم ﷺکو شہر میں تشریف لائے دوسرا سال ہے۔ شہر کے مضافات میں جہاں جہاں نبی اکرم ﷺ نے قیام کیا تھا، ان ساری بستیوں میں پچھلے سال ہی مسجدیں تعمیر ہو چکی تھیں۔ یہ بستیاں دار کہلاتی ہیں ،کیونکہ ان میں ایک ہی خاندان کے افراد رہتے ہیں ۔ دار ایک بہت بڑے احاطے کی طرح تعمیر ہوتا ہے جس میں کئی گھر ہوتے ہیں۔ پچھلے سال ۸ ربیع الاول میں مکہ سے ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ پہلے بنی عوف کے ہاں ٹھہرے تھے۔
پہلی مسجد ، مسجد قبا یہیں تعمیر ہوئی تھی۔اس کے بعد آپ بنی سالم بنی عوف کے ہاں رکے۔ یہاں پہلا جمعہ پڑھا۔ جس مسجد میں نماز پڑھی گئی، وہ مسجد جمعہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ آگے چل کر سواد بنی غنم بن کعب میں قیام کے دوران یہاں بھی مسجد تعمیر ہوئی۔ ابھی تک نماز میں شمال کی طرف بیت المقدس کی جانب رخ کیا جاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺکی بہت خواہش تھی کہ رخ کعبہ کی طرف ہو جو اللہ کا وہ گھر ہے، جسے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے اسماعیل ؑنے تعمیر کیا تھا ۔ ان دونوں پر اللہ کا سلام ہو۔ اسی مسجد میں نماز کے دوران قبلے کی تبدیلی کا حکم ہوا تو یہ مسجد القبلتین یا دو قبلوں اور دو محرابوں والی مسجد کہلا تی ہے۔
بنی غنم سے رخصت ہو کر آپ مدینہ تشریف لائے جواس وقت یثرب کہلاتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺکے آنے کے بعد اس کا نام مدینہ یعنی نبی کا شہر پڑ گیا۔ایک نسبت سے مدینہ نبی رحمتﷺ کا ننھیال بھی تھا۔ نبی کریمﷺ کے پڑدادا حضرت ہاشم کی بیوی سلمیٰ بنت عامر مدینہ میں بنو خزرج کے خاندان بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس نسبت سے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب بنی مالک بن النجار کے نواسے کہلاتے تھے۔ رواج کے مطابق دادا کا ننھیال بھی پوتے کا ننھیال بھی شمار ہوتا تھا۔ بنو نجار مدینہ کا ممتاز قبیلہ تھا ۔ یہاں مرکزی مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا۔
جو زمین چنی گئی، وہ دو یتیموں کی ملکیت تھی۔ بنو نجار نے پیش کش کی،لیکن نبی اکرمﷺ نے زمین خرید کر مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کہلاتی ہے۔ اس کی تعمیر میں رسول اللہ ﷺنے خود پتھر ڈھوئے۔ جتنا عرصہ یہ مسجد تعمیر ہوئی آپ بنو نجار کے سردار حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے ہاں مہمان رہے۔ یہ تمام مسجدیں آباد ہیں، لیکن رسول اللہﷺ نے اعلان فرما دیا ہے کہ یہ پہلی عید ہے، اس لئے عید کی نماز شہر مدینہ کے مشرقی دروازے کے باہر کھلے میدان میں ہوگی۔ آج سب لوگ اسی عید گا ہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ سب اللہ اکبر اور لاالہٰ الا اللہ کی تکبیریں زیر لب پڑھتے شہر سے باہر مقررہ میدان کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ ہر طرف خوشی کا سماں ہے۔مسرت کی تقریب ہے۔ کیوں نہ ہو۔ قریش نے مسلمانوں کو تیرہ سال مسلسل تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ مکہ سے ہجرت پر مجبور کیا تھا۔ ہجرت کے بعد بھی ان کی دشمنی ختم نہیں ہوئی تھی۔
قریش مدینہ اور اس کے مضافات پر بار بار حملے کر رہے تھے۔مسلمانوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو قریش نے وہاں بھی وفد بھیجا کہ ان کو حبشہ سے نکالا جائے۔ مدینے میں بھی با اثر افراد پر زور ڈالتے رہے کہ انہیں چین سے نہ رہنے دیا جائے۔ رسول اللہﷺ اور مہاجرین ہر وقت چو کنے رہتے کہ کسی طرف سے حملہ نہ ہو۔ رسول اللہﷺ خود بھی پہرہ دیتے اور شہر سے باہر نکل کر حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے۔ کبھی جاں بازوں کو بھیجتے۔
سن ۱ ھ:۔ ۸ ربیع الاول۔: قبا (مدینہ)میں رسول کریمﷺ کی آمد۔ مسجد قبا کی تعمیر۔ تحویل قبلہ، اسلامی تاریخ کی ابتدا ۔۲۲ ربیع الاول: (بنی سالم، مدینہ) میں پہلی نماز جمعہ مسجد نبوی اور ازواج نبی ؐکے مکانات کی تعمیر کا آغاز۔
پہلی اذان:شوال :حضرت عائشہؓ کی رخصتی کی رسم۔
سن ۲ ھ:۔صفر سرایا حمزہ، بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث، سعد بن ابی وقاص غزوہ ابواء ۔
ربیع الاول: کرز بن جابر فہری کا مدینہ پر حملہ۔
جمادی الثانی: غزوہ ذو العشیرہ۔رجب : سریہ نخلہ، تحویل قبلہ۔شعبان :۔رمضان،رمضان مبارک کے روزوں کی فرضیت، صدقہ عید الفطر کا حکم۔ قصاص اور دیت کے احکام۔ زکوۃ کی فر ضیت
۱۲ رمضان غزوۂ بدر کے لئے مدینہ سے روانگی۔ ۱۷ رمضان غزوہ ٔبدر۔یکم شوال پہلی عید الفطر۔ذی الحجہ: غزوۂ سویق، حضرت فاطمہ ؓکی شادی۔ ہجرت کے دوسرے سال میں ان واقعات کی کثرت ہو گئی۔ صفر اور ربیع الاول میں ایک غزوہ اور تین سرایا پیش آئے۔ رسول اللہ ﷺکو خبر ملی تھی کہ مکہ سے حملہ آوروں کا ایک گروہ مدینہ کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ آپ نے مدینہ سے مکہ کی طرف اسی میل پیش قدمی کرکے حملہ آوروں کو ابواء میں روکنے کا فیصلہ کیا، لیکن یہاں آ کر پتا چلا کہ حملہ آور واپس مڑ گئے تھے۔ یہ مہم غزوۂ الابواءکے نام سے معروف ہے۔ اس کی سربراہی نبی اکرمﷺ نے کی۔ ابواء مدینہ اور مکہ کے درمیان وہ مقام ہے جہاں نبی اکرمﷺ کی والدہ حضرت آمنہؓ نے وفات پائی تھی۔ نبی اکرمﷺ چھ سال کے تھے جب والدہ انہیں ننھیال کے رشتے داروں سے ملوانے مکہ سے مدینہ لے کر آئی تھیں۔ حضرت آمنہ مدینہ سے واپسی پر ابواء میں بیمار ہوئیں اور وفات پا گئیں۔
ربیع الاول اور جمادی الآخر میں مکہ والوں کی جانب سے کرز بن جابر فہری نے مدینے پر کئی حملے کئے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے تین عسکری جائزہ مہمیں بھیجیں، جنہیں سرایا کہتے ہیں۔ ان کی سربراہی حضرت حمزہؓ، حضرت عبیدہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکر رہے تھے، سرایا کا مقصد سرحدوں کو حفاظت کی کارروائیاں تھیں۔ رجب میں نبی اکرم ﷺنے حضرت عبداللہ بن جحش ؓکی سربراہی میں ایک سریہ روانہ کیا۔ لیکن حملہ آور ان کے آنے سے پہلے بھاگ گئے۔ رجب تک پورا سال مدینہ حملوں کی زد میں رہا۔ شعبان میں رمضان کے روزے فرض ہونے جا حکم آگیا۔
رمضان میں سب سے بڑی آزمائش بدر کا غزوہ تھا۔ یہ پہلی بڑی جنگ تھی اور مسلمان روزے رکھے بے سرو سامانی کی حالت میں لڑ رہے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کو قریش کے حملے کی تیاریوں کی خبر ملی تو آپ نے پیش قدمی کر کے شہر سے باہر نکل کر دفاعی جنگ کا فیصلہ کیا۔ رسول اکرم ﷺاپنے ساتھیوں کے ساتھ ۱۲ رمضان کو ہی مدینے سے روانہ ہو گئے۔۱۶ رمضان کو بدر کے مقام پر رک کر مقابلے کا مشورہ کیا۔ ۱۹ رمضان تک جنگ رہی۔ قریش کو بری طرح شکست ہوئی۔ ان کے کئی بڑے سردار مارے گئے۔ قریش ایسی شکست کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ مکہ میں ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ روزے مکمل ہوئے۔ مسلمان دونوں امتحانوں میں سرخرو ہوئے۔ مدینے میں جشن کا سماں ہے۔ حضرت عمرؓ ایک ریشمی جبہ خرید کر لائے ہیں اور رسول اکرمﷺ کو پیش کر رہے ہیں کہ عید پر پہنیں، آپ یہ کہہ کر واپس فرما رہے ہیں کہ ایسا لباس وہ پہنتے ہیں جو آخرت پر بھروسا نہیں رکھتے اور ساری خوشیاں اسی زندگی میں پوری کرنا چاہتے ہیں۔
آج یکم شوال ہے۔ یہ پہلی عید ہے۔ پہلا خوشی کا دن ، فتح کے جشن کا دن، اللہ کے حضور ہدیہ تشکر پیش کرنے کے لئے سجدہ ریز ہونے کا دن۔ صبح سویرے غسل کے بعد آپ ﷺنے سادہ لباس پہناہے۔ اپنی پسندیدہ سرخ اور سبز دھاریوں والی یمانی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ چند کھجوریں تناول فرما ئی ہیں اور عید کی روانگی کے لئے تیار ہو چکے ہیں ۔ گھر میں سب لوگ تیار ہو گئے تو آپ عید گاہ کے لئے روانہ ہو رہے ہیں ۔ آپ کے ساتھ خاندان کے افراد جلوس کی شکل میں چل رہے ہیں ۔آپﷺ کی ازواجؓ اور بیٹیوں کے ساتھ آپ کے چچا زاد حضرت علی ؓبن ابو طالب، حضرت جعفر ؓبن ابو طالب، فضل بن عباسؓ، عبداللہ بن عباسؓ، اسامہ بن زیدؓ، زید بن حارثہؓ، حضور ﷺکی والدہ کی خادمہ ام ایمن کے بیٹے ایمن بھی اس جلوس میں شامل ہیں۔
سب نے نہا دھو کر صاف اور سادہ لباس پہنا ہے ۔ سب زیر لب اللہ کی عظمت اور اس کے احسانات کا شکر ادا کر تے جا رہے ہیں۔ زبیر بن عوام ؓنیزہ تھامے رسول اکرم ﷺ کے آگے چل رہے ہیں۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ اور حضرت جعفر بن ابو طالب ؓرسول اللہﷺ کو بہت عزیز ہیں۔ حضرت زبیر ؓنبوت کے پانچویں سال پہلی ہجرت حبشہ میں شامل تھے جس کی سربراہی حضرت جعفر ؓکر رہے تھے۔ دونوں نبی اکرمﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے کچھ پہلے حبشہ سے واپس آئے ہیں۔ جو نیزہ حضرت زبیرؓ نے اٹھایا ہوا ہے، یہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے انہیں تحفہ میں دیا تھا۔ اس کے ساتھ حبش کے جنگی فوجیوں کا دستہ بھی رسول اللہﷺ کی حفاظت کے لئے بھیجا تھا۔
حضرت جعفر بن ابی طالب کی سربراہی میں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ گئے تو نجاشی نے ان کا خیر مقدم کیا۔ اسلام کے بارے میں پوچھا تو حضرت جعفرؓ نے جوابات دیئے۔ سورۂ مریم کی تلاوت کی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کی آیات سن کر مسیحی علما کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نجاشی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان مہاجرین کو سلطنت کے مہمان کا درجہ دیا۔ جب حضرت جعفر ؓحبشہ سے واپس مدینہ آئے تو نجاشی نے نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کے لئے ایک فوجی دستہ، نیزے اور دیگر ہتھیار بھی بھیجے تھے۔
حضرت زبیر ؓبھی کئی رشتوں سے عزیز ہیں۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ رسول اکرم ﷺکی پھوپھی نہایت شیر دل خاتون ہیں۔ وہ بہت شروع میں اسلام لے آئی تھیں ۔ زبیر کے والد عوام بن خویلد رسول اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓکے بھائی تھے۔ حضرت زبیر ؓکی بیوی حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسما ءؓ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نبی اکرمﷺ کے ہجرت کے سفر کے ساتھی رہے ہیں تو ان کی بیٹی اسماء ہجرت کی تیاری میں شریک رہیں۔ سب نبی ﷺکے ساتھ چل رہے ہیں۔
نبی اکرم ﷺمدینے میں تشریف لائے تو یہاں سال میں دو تیوہار منائے جاتے تھے۔ جو زیادہ تر تفریح، کھیل اور رقص پر مشتمل ہوتے۔ ان میں بھی اکثر لڑکے، لڑکیاں اور نوجوان شامل ہوتے۔ ان کھیلوں میں حبشی نوجوانوں کا رقص الدرقلہ بہت مقبول تھا۔ نوجوان گیت گاتے اور تلواروں سے رقص کرتےتھے۔
مدینہ کے یہودی سال میں دو تیوہار روش ہشنہ اور یم کپور مناتے تھے۔ روش ہشنہ شکر کا دن ہے۔ یہودی اسے سال نو کے طور پر مناتے ہیں۔ تاریخی طور پر یہ اس وقت کی یادگار ہے جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر غرق ہوا اور بنی اسرائیل کو اس کے مظالم سے نجات ملی۔ مدینہ کے یہودی سال کا پہلا دن روش ہشنہ کا تیوہار یوم نجات کے طور پر مناتے تھے۔
دوسرا تیوہار یم کپور یوم کفارہ یا توبہ کا دن تھا ۔ تاریخی طور پر یم کپور ان دنوں کی یادگار تھا جب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرکے وادی سینا میں آئے تھے ۔ حضرت موسیٰؑ طور سینا پر خدا سے احکام خداوندی لینے گئے اور دس احکام لے کر اترے تو اس عرصے میں بنی اسرائیل سب کچھ بھول بھال کے سنہری بچھڑے کی پوجا کرنے لگے تھے۔ بنی اسرائیل کو دس دن تک کفارے کے روزوں اور توبہ کا حکم ملا۔ ان دنوں کو خوف کی حالت میں خدا سے معافی مانگتے ہوے منایا جاتا ہے ۔یہ دس دن یم کپور یعنی کفارے کے دن کہلاتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کو جب یہودیوں کے دس روزوں کے بارے میں بتا یا گیا تو ابھی رمضان کے روزے فرض نہیں ہوے تھے۔ آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ روزے رکھنا تو ہمارا بھی حق ہے۔ محرم میں عاشور کے روزے رکھے۔ سن ۲ ہجری میں رمضان میں مہینے بھر روزوں کا حکم ہوا تو عاشور کے دس روزے نفلی روزوں کی حیثیت سے جاری رہے۔ رسول اللہ ﷺنے مسلمانوں کے لئے دو تیو ہاروں کا اعلان دو عیدوں کے طور پر کیا۔ پہلی عید، عید الفطر یکم شوال کو رمضان کے روزے مکمل ہونے کی خوشی میں اور دوسری عید، عید الاضحی سال کے آخری مہینے میں حج کی عبادت کی تکمیل پر۔ اس مہینے کا نام ہی ذوالحجہ ہے، عید الاضحی یعنی قربانی کی عید حضرت ابراہیم ؑکی قربانی کی یادگار ہے، جب وہ اپنے خواب کی تعبیر میں اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی کرنے لگے تھے تو حکم خداوندی سے یہ قربانی مینڈھے کی قربانی کے حکم میں بدل دی گئی۔ یہ عید سنت ابراہیم کی یادگار ہے۔
آج کے عید کے تیو ہار میں مدینے کے سب لوگ شامل ہیں۔ صبح سویرے سے تیا ریاں جاری ہیں۔ اب عید کی نماز کے لئے گھروں سے نکل رہے ہیں اور نبی اکرمﷺ کے ساتھ شامل ہو تے جا رہے ہیں۔ ان میں مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی چل رہے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے سب کو اس نماز میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ نئے احکام آئے ہیں ان کا اعلان ہوگا۔ابھی سورج نہیں نکلا ۔ سورج نکلنے کے تھوڑی دیر بعد عید کی نماز ادا کی جائے گی۔
عید کی نماز کے لئے مدینہ کے مشرقی دروازے کے باہر ایک میدان متعین کیا گیا ہے۔ لوگ جوق در جوق جمع ہو رہے ہیں۔ سب کے چہروں پر فاتحانہ مسرت ہے۔ ایک طرف اس بات کی خوشی ہے کہ قریش کو جو اسلام کی مخالفت میں تمام حدیں پار کر گئے تھے ،شکست ہوئی۔ پہلے انہوں نے گھر بار چھوڑ کر حبشہ ہجرت کرنے والوں کا پیچھا کیا اور اب مدینہ میں بھی مسلمانوں کو سکون سے رہنے نہیں دے رہے تھے۔ بدر میں قریش کی شکست سے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا تھا۔ وہ اس فتح پر اللہ کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے جمع تھے۔ اس سے کہیں زیادہ اس بات کی خوشی بھی تھی کہ ان مشکل حالات میں انہوں نے رمضان میں مہینہ بھر روزے مکمل کئے اور یہ تیوہار شکرانے کی عبادت کا دن بن گیا تھا۔
یہ عید الفطر ہے۔ ایک تو اس لئے کہ روزے مکمل ہوئے، اب صبح د م عید سے پہلے کچھ نہ کچھ کھا لیا جاتا ہے۔ دوسرے نماز سے پہلے صدقہ دیا جاتا ہے جسے صدقۃ الفطر یا فطرانہ کہا جاتا ہے، تاکہ جن کو میسر نہیں وہ بھی کھا پی کر نماز میں شامل ہوں۔
سورج نکل آیا ہے۔ نماز کی صف بندی ہو رہی ہے۔ اس نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہو گی۔ پہلے دو رکعت ادا کی جائیں گی۔ اس کے بعد خطبہ ہوگا۔ اس خطبے کی اہمیت کے پیش نظر تمام خواتین کو اس تقریب میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے سامنے نیزہ گاڑ کر نماز کا اشارہ کردیا ہے کہ نماز شروع ہو چکی ہے۔ بلند آواز سے اللہ اکبر کہہ کرنماز شروع کی۔ نماز مکمل کرکے اب رسول اللہﷺ لوگوں کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو گئےہیں ۔ پہلے حضرت بلال ؓنے سہارا دیا اور اب اپنے نیزے پر ٹیک لگا کر پہلی عید الفطر کا خطبہ دے رہے ہیں ۔ عید کا خطبہ جمعہ کے خطبے سے مختلف ہے۔ جمعے کے خطبے کا مقصد وعظ اور نصیحت ہے۔
عید کے خطبے میں احکام کا بیان ہو رہےہیں اور ان کی تفصیل بتائی جا رہی ہے۔ عیدین کی اہمیت اور اس کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔ صدقہ فطر کیا ہے۔ اس کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ کون سی اجناس میں اور کتنی مقدار میں ادا کرنا ہے۔ کس کے ذمے ہے اور کون کب ادا کرے گا۔ اس کے بعد عید، عید قربان کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔ لوگ خاموشی سے سن رہے ہیں۔ دوسرے خطبوں سے ہٹ کر اس میں لوگ سوال بھی پوچھ رہے ہیں۔ جو بات سمجھ نہیں آرہی ،اس کی وضاحت چاہ رہے ہیں عام خطبے کے بعد اب نبی اکرم ﷺ خواتین کی طرف چلے گئے ہیں۔ خواتین کو مال اور جائیداد میں ملکیت کے حقوق حاصل ہیں، اس لئے وہ بھی صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ آپ انہیں صدقات کی اہمیت سمجھا رہے ہیں اور اس کے احکام بیان کر رہے ہیں۔ خواتین اپنے زیورات صدقے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
خطبے کے اختتام پر رسول اللہ ﷺنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہیں: یا اللہ، ہم تجھ سے متقیوں والی زندگی اور سرخروئی کی موت مانگتے ہیں۔ تیری طرف لوٹیں تو امتحان میں کامیاب ہو کر لوٹیں ، ذلت اور شرمندگی در پیش نہ ہو۔ یا اللہ ہمیں غیر متوقع اور اچانک ہلا کت سے دوچار نہ کرنا، ہمیں اچانک پکڑ میں نہ لینا، ہمیں حق اور نصیحت کی نعمت سے محروم نہ رکھنا، یا اللہ ہم تجھ سے پاکدامنی اور خود داری کے سوالی ہیں، تقویٰ، پرہیزگاری اور ہدایت کے طلب گار ہیں، دنیا اور آخرت میں بہتری کی دعا مانگتے ہیں۔ ہم تیرے دین کے بارے میں کسی شک اور شبہے میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں، جھگڑے سے، دکھلا وے سے اور بدنامی سے محفوظ رکھنا۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ہدایت عطا کرنے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دینا۔ ہمیں اپنی خصوصی رحمت کی باہوں میں لے لے ۔ تو تو بہت سخی اور فیاض ہے۔
لوگ دعا کے سحر سے آہستہ آہستہ کھڑے ہو رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ محبت بھری مسکراہٹ سے سب کو جاتا دیکھ رہے ہیں۔ اب خود بھی واپس چل پڑے ہیں۔ راستے میں سب سے سلام دعا اور خیریت پوچھتے گھر پہنچتے ہیں تو لڑکے لڑکیاں پہلے ہی گھروں میں واپس آ چکے ہیں۔
آپ حضرت عائشہ ؓکے حجرے کی طرف بڑھتے ہیں۔ انصار کی دو لڑکیاں اپنے قبیلے بنو خزرج اور بعاث کی جنگوں کے گیت گا رہی ہیں۔ آپ منہ دوسری طرف کرکے لیٹ جاتے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی سے ملنے حجرے میں تشریف لاتے ہیں تو سنتے ہیں کہ لڑکیاں دف بجا کر یوم بعاث میں جیت کے گیت گا رہی ہیں۔ اندر آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ رسول ﷺمنہ پھیر کر لیٹے ہیں، خیال ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو یہ لہو و لعب پسند نہیں ۔ عائشہؓ کو ڈانٹتے ہیں کہ نبی ﷺکے سامنے یہ شیطانی باجے؟ رسول اللہﷺ منہ سے چادر ہٹا کر حضرت ابو بکرؓ کو نرمی سے سمجھاتے ہیں کہ ان بچیوں کو کچھ نہ کہو، یہ عید کا دن ہے، سب کی خوشی کا دن ہے۔
شام کو مسجد نبوی کے میدان میں حبشہ کے بنی ارفدہ اپنا کھیل الدرقلہ پیش کر نے والے ہیں۔ نبی ﷺکا گھر مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ ان کی آوازیں سن کر آپﷺ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ یہ کھیل دیکھو گی۔ وہ پہلے ہی یہی سوچ رہی تھیں۔ رسول اللہﷺ انہیں ساتھ لے کر گھر کے اس حصے میں آ جاتے ہیں جہاں سے یہ کھیل دکھائی دے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عا ئشہؓ کو اپنے پیچھے چھپا لیا ہے اور وہ آپ کے کندھے پر جھک کر کھیل دیکھ رہی ہیں۔ حبشہ کے جوان برچھیوں اور ڈھالوں سے جنگی کرتب دکھا رہے ہیں ، دف بجا کر فتح کے گیت بھی گا رہے ہیں۔
نبی اکرمﷺ انہیں دیکھ رہے ہیں اور شاباش کہتے جارہے ہیں۔ جاری رکھو، بنی ارفدہ ،اپنا کھیل جاری رکھو۔ اتنے میں حضرت عمرؓ ادھر آ نکلتے ہیں۔ آتے ہی کھیل تماشے کرنے والوں کو ڈانٹ رہے ہیں کہ یہ تماشا بند کرو۔ رسول اللہﷺ حضرت عمرؓ کو پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بنی ارفدہ ہیں ، انہیں کچھ نہ کہو اور بنی ارفدہ سے کہہ رہے ہیں کہ کھیلو اور خوب کھیلو۔ حضرت عائشہؓ تھک گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺفرما رہے ہیں کہ جا ؤ، تم چلی جا و، آرام کرو اور خود کھیل دیکھ رہے ہیں ۔ کھیلنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہو ئے فرما رہے ہیں کہ کھیلتے رہو ،بنو ارفدہ، کھیلتے رہو۔ یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں تنگی نہیں۔
اے اﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تو نے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمدﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘
(مآخذ و مراجع)
ابن جریر طبری، تاریخ الرسل و الملوک، بیروت: دار التراث، ۱۳۸۷ ھ۔ ۲: ۴۱۵
ابن حبان، السیرۃ النبویہ و اخبار الخلفاء، بیروت، الکتب الثقافیہ، ۱۴۱۷ھ، ص ۲۰۹
ابن حجر العسقلانی ،فتح الباری، بیروت: دار المعرفہ: ۱۳۷۹ ھ۔۔ ۶ : ۳۵۳
ابن سید الناس، عیون الاثر، بیروت، دار القلم، ۱۹۹۳ ، ص ۲۷۶
ابن کثیر، السیرۃ النبویہ، بیروت: دار المعرفہ، ۱۹۷۶ ، ۲: ۳۷۹
ابو الحسن الماوردی، اعلام النبوہ، بیروت: مکتبہ الہلال، ۱۴۰۹ھ، ص ۲۴۲
ابو العباس القسطلانی، المواھب اللدنیہ با لمنح المحمدیہ، قاہرہ،المکتبہ التوفیقیہ،۱: ۲۳۴ ؛۳: ۳۰۵ -۳۵۰
ابو داود الطیالیسی ،مسند ابو داود ،قاہرہ: دار ہجرہ، ۱۹۹۹ ۔ ۳ : ۵۷
ابوبکر عبداللہ بن زبیر الحمیدی، مسند الحمیدی، دمشق: دار السقا، ۱۹۹۶ ۔ ص ۲۸۵
بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت: دار احیاء التراث العربی۔ ۱۶ : ۹۳
پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، ۳: ۴۱۱-۴۱۷
تقی الدین المقریزی، امتاع الاسماع، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۹۹۹ ، ۱۰: ۱۶۷؛ ۱۱:۱۵۴
جلال الدین السیوطی، الشمائل الشریفہ من الجامع الصغیر، ۱۹۳-۳۷۲
جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب، دار الساقی، ۲۰۰۱ ۔ ۹: ۱۲۲
شاہ مصباح الدین شکیل، سیرت احمد مجتبیٰ، پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی، کراچی، ۲: ۱۸۵ -۳۷۳
شبلی نعمانی، سیرۃ النبی، ناشران قرآن، لاہور،۱: ۳۰۵ -۳۷۲۔
محمد بن یوسف الصالح الشامی، سبل الہدیٰ والرشاد، فی سيرۃ خير العباد، وذکر فضائلہ وأعلام نبوتہ وأفعالہ وأحوالہ فی المبدأ والمعاد، دار الکتب العلميۃ بيروت، ۱۹۹۳ ،۳ : ۱۱۱ ؛ ۸ : ۳۱۱ – ۳۴۰ ؛ ۱۰ : ۳۹۷