ورلڈ ہائپرٹینشن لیگ کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 17مئی کو’’ورلڈ ہائپرٹینشن ڈے ‘‘منایا جاتا ہے۔ یہ یوم 2005ء میں پہلی بار منایا گیا، تاکہ ہر سطح تک ہائی بلڈ پریشر کی اہمیت، مضر اثرات، پیچیدگیوں، وجوہ، بچاؤ اور علاج سے متعلق آگہی عام کی جا سکے۔ رواں برس یہ یوم منانے کے لیے2021ء ہی کاتھیم دہرایا گیا ہے،"Measure Your Blood Pressure Accurately, Control It, Live Longer" ۔ یعنی اپنا بلڈ پریشرصحیح سے جانچیں، اسے کنٹرول کریں اور طویل زندگی پائیں۔
دراصل دُنیا بَھر، بالخصوص کم اور درمیانی آمدن والے مُمالک میں بلڈ پریشر کی جانچ کے درست طریقوں سے متعلق معلومات کا سخت فقدان پایا جاتا ہے،تو یہ تھیم منتخب کرنےکا مقصد بھی یہی ہےکہ بلڈ پریشر جانچنے کے درست طریقوں سے متعلق آگاہی عام کی جا سکے۔ اب سے ڈیڑھ دو سو برس قبل کی بات ہے۔ مرزا غالب نے فرمایا تھا؎ـ ’’رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل…جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔‘‘بلاشبہ، خون کا رگوں میں دوڑنا پھرنا کوئی عجیب بات نہیں کہ یہ زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے، البتہ آنکھ سے لہو کا ٹپکنا ایک شاعرانہ تعلّی ہے، جس کے ذریعے درد کی شدّت کا اظہار کیا جارہا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں آنکھوں سےخون نہیں ٹپکتا، مگر اس کا بڑھتا ہوا دبائو آنکھ کو شدید متاثر کرسکتا ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صُورت میں عُمر بھر کے لیے نابینا پَن مقدر بن جاتا ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے دوران خون کا جو دبائو رگوں کی دیواروں پر پڑتا ہے، اسے طبّی اصطلاح میں فشار ِخون کہتے ہیں۔ بلڈ پریشر کا ایک حد میں رہنا ضروری ہے۔ اگر فشارِخون حد سے بڑھ جائے، تو یہ مرض ہائپرٹینشن Hypertension کہلاتا ہے اور اگراس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو اس کےجسم کے کئی اہم اعضاء پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں پردۂ چشم (Retina)بھی شامل ہے۔
ایک زمانے میں خون کو جسم میں موجود ایک ساکت و جامد مایع تصوّر کیا جاتا تھا۔ یونانی حکماء بھی اسی تصوّر کے قائل تھے۔ سب سے پہلے مسلمان سائنس دان اور طبیب ابنِ نفیس نے انکشاف کیا کہ دِل دھڑکنے کے دوران خون رگوں میں رواں دواں رہتا ہے۔ بعد ازاں، برطانوی طبیب، ولیم ہاروے (متوفی1657ء) نے اس پر مزید تحقیق کی۔ یہاں خون کے دباؤ کو سمجھنے سے پہلے چند بنیادی باتیں جاننا ضروری ہیں۔ جب ہمارا دِل سکڑتا ہے، تو دل کے بائیں حصّے سے رگوں اور نالیوں میں خون کی ترسیل ہوتی ہے اورجب دِل پھیلتا ہے، تو جسم کا استعمال شدہ خراب خون رگوں کے ذریعے دِل کے دائیں حصّے میں داخل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے، استعمال شدہ خراب خون کی صفائی پھیپھڑوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
دِل کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل مستقل جاری رہتا ہے اور اسی عمل کو دِل کی دھڑکن کا نام دیا جاتا ہے۔ دورانِ خون کے ذریعے پورے جسم کو توانائی اور آکسیجن فراہم ہوتی ہے اور یہ عمل زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ دِل سکڑنے کے دوران خون کا جو دبائو نالیوں پر پڑتا ہے، اسے طبّی اصطلاح میں سسٹولک بلڈپریشر (Systolic blood pressure)کہا جاتا ہے، جب کہ دِل کے پھیلنے کے دوران نالیوں پر پڑنے والے دبائو کو ڈائی سٹولک بلڈ پریشر (Diastolic Blood Pressure )سے موسوم کیا جاتا ہے۔
خون کا دبائو دِن بَھر یک ساں نہیں رہتا، اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جس کا تعلق ہماری حرکات و سکنات سے ہے، لیکن کمی بیشی کے باوجود خون کا دبائو بہرحال ایک حد میں رہتا ہے، البتہ جب خون کا دبائو مستقل طور پر ایک مقررہ حد سے بڑھ جائے، تو اسے ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن کا نام دیا جاتا ہے، جس کا مؤثر اور بروقت علاج ناگزیر ہے۔ اگر خون کا دبائو کم ہوجائے، تو اسے لَو بلڈ پریشر کہا جاتا ہے،جو مرض ہرگز نہیں۔
البتہ جب اسہال، قے اور زیادہ خون بہہ جانے کے نتیجے میں بلڈ پریشر وقتی طور پر کم ہوجاتا ہے، تب اس کے علاج کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔بعض اوقات بُلندفشارِخون کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، مگریہ عارضہ اندرہی اندر جسم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ مریض موت کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے اس مرض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر خون کا دباؤ بڑھنے کی جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں سَردرد، تھکن، دِل کی دھڑکن بڑھ جانا، آنکھوں میں دھندلاہٹ یا دو دو چیزیں نظر آنا، غشی طاری ہونے کی کیفیت، ناک سے خون خارج ہونا، سانس لینے میں دقّت، متلی اور قے وغیرہ شامل ہیں۔
بُلندفشارِخون کو دو اقسام میں منقسم کیاجایا ہے۔ ایک قسم پرائمری (Essential) ہے اور دوسری ثانوی(Secondary)۔ پرائمری بُلند فشارِخون لاحق ہونے کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں، جو سب کی سب تاحال دریافت نہیں ہوسکیں، مگر اس کا سو فی صد کام یاب علاج موجودہے۔ چوں کہ ثانوی بُلند فشارِخون کسی اور جسمانی عارضے کے سبب لاحق ہوتا ہے، تو ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ متعلقہ عارضے کا علاج بھی لازم ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 90فی صد سے زائد افراد پرائمری بُلند فشارِ خون کا شکار ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں،ہائی بلڈ پریشر کے بعض عوامل جو فشارِخون میں دباؤ کا باعث بنتے ہیں، وہ بھی پیشِ نظر رہنے چاہئیں۔
مثلاً تمباکو نوشی، الکحل اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال، موٹاپا، جسمانی طور پر غیر فعال ہونا، نمک کا زائد استعمال اور سن رسیدگی یعنی زائد عُمر وغیرہ۔زیادہ تر کیسز میں یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔ بُلند فشارِ خون کی جانچ کے لیے مرکری کو( پارے) پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،جب کہ ناپنے کی اکائی ملی میٹر کہلاتی ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل اعداد و شمار بہت اہم اور خاص توجّہ کے متقاضی ہیں۔
٭مثالی فشارِ خون: 120/80 ملی میٹر ایچ جی (مرکری) سے کم ۔واضح رہے کہ 120ملی میٹر ایچ جی وہ دبائو ہے، جو دِل سکڑنے(یعنی سسٹولک بلڈپریشر) کے دوران ہوتا ہے۔ ،جب کہ 80ملی میٹر ایچ جی کا درجہ اس دبائو کو ظاہر کرتا ہے، جو دِل کے پھیلنے کے دوران( ڈائی سٹولک بلڈ پریشر)ہوتا ہے۔
٭عمومی فشار ِخون: 120-129/80-84ملی میٹر ایچ جی۔
٭عمومی سے زیادہ فشارِ خون: 130-139/85-89ملی میٹر ایچ جی۔
٭بُلند فشار ِخون: 140/90ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد۔
٭بحرانی بُلند فشارِ خون: 180/120ملی میٹر ایچ جی کے مساوی یا اس سے زائد۔
خیال رہے، بحرانی بُلند فشار خون یعنی Hypertensive crisesکی صُورت میں خون کی رگ پَھٹ سکتی ہے اور فالج کاحملہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی بروقت تشخیص بےحد اہم ہے کہ اس کے بعد ہی علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض تکالیف جیسے شدید سَردرد، گھبراہٹ، جسم میں درد کی صُورت میں بھی خون کا دبائو وقتی طور پر بڑھ جاتا ہے،تو یہ ہمارے جسم کا عمومی ردِّعمل ہے۔ وقتی طور پر بڑھے ہوئے خون کے دباؤ کی بنیاد پر مرض کی حتمی تشخیص نہیں ہوتی۔ کم از کم دو سے چار ہفتوں تک خون کے دبائو کے مسلسل مشاہدے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مریض بُلند فشارِ خون کےمرض میں مبتلا ہے یا نہیں۔
اس وقت دُنیا بَھر میں 26فی صدافراد (تقریباً ایک ارب) بُلند فشارِخون کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی صُورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 18فی صد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ 45سال سے زائد عُمر کے افراد میں یہ تعداد33فی صد تک ہے۔ 45سال سے زائد عُمر کا ہر تیسرا فرد بُلند فشارِخون کا مریض ہے۔ بدقسمتی سے آگہی نہ ہونے کے سبب 50 فی صد مریضوں میں اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہوپاتی، جب کہ تشخیص کے بعد بھی صرف 12.5فی صد ہی کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس کی وجہ سے اموات کی شرح بھی خاصی بڑھ چُکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ایک لاکھ میں سے تقریباً 23افراد بُلند فشارِخون کے باعث لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ بروقت اور درست علاج نہ ہونے کی صُورت میں کئی ایسی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں، جو مُہلک ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً دِل کا دورہ، فالج، گُردوں کے نظام میں خرابی، دِل کا ناکارہ پَن، پردئہ چشم میں خرابی، شریانوں کا غیر معمولی پھیلائو، ادراک و شعور کے مسائل اور یادداشت میں شدید کمی وغیرہ۔ مرض کی حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
اگر خون کا دبائو بہت زیادہ نہیں ہے، تو ابتدا میں علاج کے لیے ادویہ تجویز نہیں کی جاتیں، بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں پانچ احتیاطی تدابیر ایسی ہیں، جنہیں اختیار کرنے سے عمومی طور پر 50 فی صد سے زائد مریضوں کو ادویہ استعمال کرنےکی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مثلا:٭صحت بخش غذائیں، بطورِ خاص سبزیوں کا زائد استعمال، نمک کم مقدار میں یا سِرے سے استعمال نہ کرنا،موٹاپے کی صُورت میں وزن کنٹرول کرنا،ورزش کو معمول کا حصّہ بنالینا اور تمباکو نوشی اور نشہ آور اشیاء سے مکمل طور پر اجتناب برتنا۔
یہ پانچوں تدابیر اختیار کرنے کے بعد تین سے چار ماہ تک باقاعدگی سے خون کے دبائو کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی طبیعت بہتر نہیں ہوتی، تو پھرادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔ بعض کیسز میں ادویہ طویل عرصے تک استعمال کی جاتی ہیں ،جب کہ کئی ایسے مریض بھی ہیں، جو زندگی بَھر ادویہ ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، اِس بات کا فیصلہ ایک ماہرکارڈیالوجسٹ ہی کر سکتا ہے کہ ادویہ تاعُمر استعمال کی جائیں، ایک مخصوص مدّت تک کے لیے یا پھرسرے سے استعمال ہی نہ کی جائیں۔ یاد رہے، ادویہ استعمال کرنے کے دوران بھی مذکورہ بالا تدابیرپر عمل ضروری ہے،کیوںکہ یہ احتیاطی تدابیر نہ صرف ادویہ کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، بلکہ ادویہ ترک کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سُکونِ قلب کے لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ کھانے پینے اور دیگر معاملات میں میانہ روی اور اعتدال، غصّے اور اشتعال سے گریز ،تو آزمائشوں اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے ۔ باقاعدگی سے مطالعہ قرآن اور نماز کا اہتمام بھی لازم ہےکہ یہ ساری عادات اور رویّے ایسے ہیں، جن سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ یاد رکھیے،جب ہمارے جسم کا داخلی نظام درست ہوتا ہے، تو مختلف امراض سے محفوظ رہنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ (مضمون نگار، ِ نفسیاتیِ امراض کے ماہر ہیں۔ رفاہ انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری ہیں)