• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تحریر لکھنے سے پہلے مَیں نےاپنی وہ ڈائری کھنگالی،جس پر مَیں اپنے تجربات رقم کرتا رہتا تھا۔ اُسے پڑھ کر لگاکہ اِس میں لکھا مواد ناکافی ہے۔پھرجب قلم اُٹھایا تو گویا آنکھوں کے سامنے فلم چلنا شروع ہوگئی۔ سَو، اس فِلم کے بودرم والے حصّے میں کئی مشاہدات، تجربات اور واقعات ہیں، جو اپنے تحریر کیے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر بات نکلے گی تو دُور تلک جائے گی، پس، جستہ جستہ۔ بودرم کے جس گھریلو ہوٹل یا پینشن (Pension) میں مَیں مختلف ہاسٹل پھرتا، قیام گاہیں ڈھونڈتا جاٹھیرا،اُس کی درمیانی عُمر کے دل کش مالکہ نےمجھےدیکھتے ہی بُوجھ لیاکہ مَیں پاکستانی ہوں۔ مَیں نے کہا کہ میں انڈین بھی تو ہوسکتا ہوں تو اُس نے بتایا کہ وہ ایرہوسٹس رہی ہے، پاکستان باقاعدگی سے جاتی رہی ہے اور لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں اپنےگھرسے زیادہ ٹھیری ہے۔ 

گفت گو کے دوران وہ مجھے کریدتی نظروں سے دیکھتی رہی۔ مَیں نے جھینپتے ہوئے وضاحت کی کہ سب پاکستانی مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ قصّہ مختصر، ابتدائی دو دن مَیں نے گیبرئیل سے فون پر رابطہ رکھا۔ بعد کے دن میری بے پروائی اور سُستی کی نذر ہوگئے اور مَیں اُسے فون نہ کرسکا۔ میرا قیام بھی مقررہ دِنوں سے بڑھ گیا۔وہاں کے ماحول میں ایک ایسی تازگی اورکشش تھی کہ قیام کوطُول دے دینا ایک نوجوان شخص کے قرینِ فطرت تھا۔ اُس دَور کے بودرم میں ایک بات مَیں نے ایسی پائی کہ دیگر مقامات کےبعد کےسفروں میں وہ چیزکہیں او ر نہ دیکھی۔ 

سیاحتی موسم میں بودرم کے بہت سے امور ِ زندگی نوجوان سیاح سنبھال لیتے تھے۔ یعنی لڑکے، لڑکیاں یورپ کے مختلف مُلکوں سے وہاں کئی ماہ کےقیام کے لیےآتے، عارضی ملازمتیں اختیارکرتے، جن کےمواقع سیاحوں کی آمدمیں اضافے کے باعث بڑھ جاتے۔ یہ نوجوان شبینہ زندگی کی رونق میں خاص طور پر اضافہ کردیتے۔ وہ ریستورانوں میں ویٹرز کا روپ اختیار کرلیتے، ہوٹلز کی استقبالی ڈیسکس پر کھڑے نظر آتے۔ کلبز، بارز کے انتظامی امور سنبھال لیتے اوراپنی بساط، مہارت اور ملازمت کے لیے میسّر خدمات کے مطابق ماحول میں رَچ بَس جاتے۔

بودرم کاسمندرکےکنارےگہرے پانیوں میں جھانکتا قلعہ ہو، زیرِ آب آثارِ قدیمہ کے عجائب گھر کا ذکر ٹھیرے، قریبی جزائر کے پھیرے لگاتی سجی سجائی کشتیاں ہوں، سمندر کے پیٹ سے قدیم غرقاب بحری جہاز سے برآمد کیے گئے ہیرے، آلاتِ موسیقی، ملکۂ مصر، نیفر طیطی کی طلائی مُہر اور بیس ہزار سے زیادہ فن پارے ہوں یا دو صدی قبل مسیح کی ریاستِ کاریہ کےحُکم ران بہن، بھائی شاہ موسولس اور ملکہ آرتی میسیا ہوں (ایسے بہن بھائی، جنھوں نےآپس میں شادی کر رکھی تھی) موسولس کے نام پر لفظ مقبرہ Mausoleum ایجاد ہو کر دنیا بَھر میں عام ہوا کہ مٹّی کی ڈھیریوں والی لیپی لیپائی قبریں تو دستورِ زمانہ تھیں،بلکہ نمایاں لوگوں کی قبروں کے اوپر عمارات بنانے کا چلن بھی موجود تھا، مگرMausoleum کی ترکیب وہیں سے آئی، تذکرے تو اور بھی بہت تھے، مگر بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ 

اس چھوٹے سے قصبہ نُما شہر کے زیادہ تر سیاح رات کے پرندے تھے کہ اُن کا ذوق و شوقِ پرواز، سورج غروب ہونے پرعروج پکڑتاتھا۔ وہاں زیادہ ترسیاح رات گئے تک ہنگامہ آرائی کے بعد سورج چڑھے دوپہر کو ناشتا کرتے تھے۔ اجنبی لڑکے، لڑکیوں کے جوڑے بنتے اور بنے بنائے جوڑے بکھرتے۔ زیادہ تر لڑکے، لڑکیوں کے گروہ بِنا جوڑوں کے پارٹی کرنے آتے تھے۔ اُن کی بیش تر وابستگیاں جذباتی سے دوسری نوعیت کی تھیں۔ لاس ویگاس سے متعلق یہ معروف مقولہ بودرم پر منطبق کیا جاتاتھا ’’جو کچھ لاس ویگاس میں ہوتا ہے ،وہیں رہ جاتا ہے۔‘‘"What happens in Vegas stays in Vegas"

تُرکی سے واپس آکر مَیں نے بودرم کے حوالے سے ایک افسانہ ’’اولگا‘‘ لکھا، جسےاحمد ندیم قاسمی صاحب نےکمال عنایت سے ’’فنون‘‘ میں شائع کیا۔ مَیں بودرم میں زیادہ دن رہ کے استنبول واپس آیا تو اپنی بے پروائی پر پشیمان تھا کہ گزشتہ چند روز گیبرئیل سے رابطہ نہ کرپایا تھا۔ اِس دوران مَیں نے اپنی قیام گاہ بھی بدلی تھی، جس کا فون نمبر اُسےنہ دے سکا تھا۔ شام کو استنبول میں اپنے ہوٹل پہنچ کر مَیں گیبرئیل کےکمرے میں گیا۔ وہاں بتی روشن تھی۔ مَیں نے دستک دی۔ ایک اجنبی آواز نے جواب دیا اور دروازہ کُھلا تو سامنے ایک چینی، جاپانی نقوش والاسیاح کھڑا تھا۔ مَیں نے اُس سے معذرت کی اور نیچےآکراستقبالیہ کاؤنٹر سے گیبرئیل سے متعلق دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ یہ ہوٹل چھوڑ گیا ہے اورایک قریبی ہوٹل میں مقیم ہے۔ مَیں نےحیرت کااظہار کیا اور مطلوبہ ہوٹل پہنچ گیا۔ 

وہاں گیبرئیل ریسیپشنسٹ کے طور پر کھڑا تھا۔ مجھے دیکھ کر اُس نے غصّے سے منہ پھیر لیا۔ مَیں نے ندامت میں اُس کے سامنے معافی کی صُورت ہاتھ جوڑدیے۔ وہ باقاعدہ طور پر ناراض تھااوربات نہیں کرناچاہتا تھا۔ میرے منّت ترلا کرنے پر اُس کا مُوڈ ٹھیک تو نہ ہوا، مگر وہ بات کرنےپرآمادہ ہوگیا۔ اُس نےبتایا کہ نوادر کے کاروبار میں اُس سے دھوکا ہوگیا ہے، اُس کا نیا کاروباری ساتھی اُس کے نوادر اور متوقع رقم لے اُڑاہے اور اُس نے اپنا ٹھکانا چھوڑ دیا ہے۔ یہ سُن کر مجھے دھچکا لگا۔ محسوس ہوا کہ نقصان اُس کا نہیں، میراہوا ہے۔ میرے چہرے کے تاثرات اور کُھلا منہ دیکھ کر گیبرئیل کے چہرے سے ناراضی کے تاثرات کچھ کم ہوئے اوراُس نے بتایا کہ اب اس کے پاس اپنے لباس، گلے میں پہنی سونے کی موٹی زنجیر اور چند بنیادی اشیاکے علاوہ فقط اتنے پیسے رہ گئے تھے، جن سےچند روز ہی گزارہ ہو سکتا تھا۔ 

سوئٹزر لینڈ سے اُس کی بندھی بندھائی آمدنی آنے میں خاصے دن تھے۔ اُس نے بتایا کہ وہ انادولو ہوٹل میں اپنے کمرے کے کرائے کے پیسے بچانا چاہتا تھا، سو اِس ہوٹل میں ویٹرز کے ساتھ ایک کمرےمیں قیام کی پیش کش قبول کرلی تھی۔ اتنی دیر میں ہوٹل میں چند مہمان آگئے اور وہ اُن کےساتھ مصروف ہوگیا۔ مَیں اُس کا پرُسشِ احوال چاہتا تھا۔ اُس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ وہ لگاتار آتے جاتے مہمانوں سے فارغ ہو کر چند ثانیے کے لیے میری جانب متوجّہ ہوا تو مَیں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کب فارغ ہوگا۔ اُس نے بتایا کہ پرسوں اُس کی چُھٹی ہے۔ اگلی شام وہ میرے پاس آجائے گا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اُس شام اُس کے دل کی بند مُٹھی کھل جانی ہے۔ مَیں جو کہ تہذیب مغرب کے اصولوں کا دانائے راز تھا، خُوب جانتا تھا کہ وہاں کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ کُرید بےتہذیبی سمجھی جاتی ہے، جسے قبائے دل کھولنی ہوتی ہے، خُود ہی کھولتا ہے۔

٭……٭٭……٭

اگلی صبح جب سورج کی کرنیں باسفورس کی دونوں جانب واقع جنگلوں، اناطولیہ کی سمت میں واقع درختوں کےجھنڈ اوریورپی جانب بلغراد جنگل میں شاہ بلوط، بید، ریٹھے، میپل، یلم، کھٹے کے شجروں کی بالائی ٹہنیوں کی نوکوں پر اُتر آئی تھیں، تو مَیں جاگ رہا تھا اور ہوٹل کے ٹیرس سے خاموش سوئے شہر کو جاگتے، رات کو گم ہوجانے والی آوازوں کو لوٹتے اور باسفورس پر بچھی پانی کی صبح کاذب کی سُرمگیں چادر کو صبح صادق کی روشنی میں نیلےرنگ میں نیل و نیل ہوتے دیکھتا تھا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ کیسے گیبرئیل کی دل جوئی کروں۔ سارادن یہی سوچتےنکل گیا، یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ جب وہ میرے پاس آیا تواُس نے ایک مصنوعی مُسکراہٹ چہرے پرسجائی ہوئی تھی۔ مَیں اُسے ایک کلب اور ریستوران کم بار میں لے گیا، جہاں میں ایک مرتبہ پہلے گیبرئیل، لوئی اور مارسل کے ساتھ گیا تھا۔ 

وہ چھوٹا سا بار تھا جہاں ہلکا پھلکاکھاناملتا تھا۔ ایک جانب بار کاؤنٹر تھا اوردوسرے کونے میں چھوٹا سا ڈانس فلور بنا ہوا تھا، جس پر خاموشی مسلّط تھی۔ وہاں کا عملہ گیبرئیل کا پرانا شناسا تھا، زیادہ شور وغل نہ ہوتا تھا اور نسبتاً خاموش گوشے میں بیٹھ کر آرام سے گفت گو ہوسکتی تھی۔ مَیں پہلے گیبرئیل کے ساتھ وہاں گیا تھا، تو وہ کِھل اٹھاتھا، شناسا عملے نے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی عملے نے اُسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ میرا اُسےوہاں لانےکا مقصد ہی اُسے اس کی شناسا اور پسند کی جگہ پر لاکر خوش کرنا تھا، لیکن وہ بجھا بجھا تھا۔ 

ہم باہر کے رُخ پر قدِ آدم شیشے والی کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ رات کے اندھیرے میں چند نیون سائنز جگمگا رہے تھےاور لوگ متصل فٹ پاتھ پر تیز تیز آجارہے تھے۔ گول پتھروں کی قدیم سڑک کو تاریخی رنگ دینے کے لیے پرانے طرز کے لیمپ پوسٹوں پر پیلے بلب روشن تھے۔ اِکّادُکّا گاڑی تیزی سے گزر جاتی تھی۔ آسمان پر گہرے بادل تھے۔ ’’آج رات شایدبارش برس جائے،تو مجھے ہوٹل کی چھت کےبجائے اندر کمرے میں منتقل ہونا پڑجائے۔‘‘ مَیں نےگھنے بادلوں کو دیکھ کر سوچا۔

اتنے میں دروازہ کُھلا اور ایک مرد اور دو خواتین اکٹھے بار میں داخل ہوئے۔ وہ لوگ گیبرئیل کے واقف تھے، سو ہماری آپس کی گفت گو جو ابتدائی مراحل میں تھی، وہیں تھم گئی۔ گیبرئیل نے ان تینوں کو گلے لگایا، حال احوال پوچھا اور اُن کے ایک میز پر بیٹھ جانےکےبعد مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھاکہ مَیں بودرم میں اتنے دن کیوں ٹھیر گیا اور اُسے مطلع کیوں نہیں کیا۔ میرے پاس اپنی غیرذمّے داری کاکوئی جواز نہ تھا،سَو اُس کے سامنے صاف اپنی سُستی کا اعتراف کرلیا۔ یہ سُن کر وہ بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ عادت پسند ہے کہ تم ہم یورپی لوگوں کی طرح سچ بول دیتے ہو۔‘‘’’مَیں ضرورت پڑنے پر جھوٹ بھی گھڑ لیتا ہوں۔‘‘مَیں نے کہا۔ 

وہ ہنس پڑا۔ ’’یہ تم نے ایک اور سچ بول دیا۔‘‘ اتنے میں ویٹر اُس کےلیےخمریات میں سے تُرک مشروب راکی لے آیا۔ اُس نے ایک لمبا گھونٹ بھرا،برُا سا منہ بنایا اور بولا ’’بالکل سونف کا شربت۔‘‘مَیں نے بتایا کہ میں سونف کا شربت تب پیتا تھا، جب بچپن میں میراپیٹ خراب ہوتا۔ میری ماں مجھے سونف الائچی کا پانی دیتی تھیں۔ بولا ’’بہت مضبوط یادداشت ہے تمھاری۔‘‘مَیں نے کہا’’اور یہی یادداشت عذاب بھی ہے۔‘‘پھر مَیں نے کسی قدر مچلتی آوازمیں پوچھا۔ ’’گیبرئیل! تُم اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتاؤ۔نہ تو مَیں نے اب تک تم سے پوچھا ہے اور نہ ہی تم نے بتایا ہے۔‘‘’’میرے بارے میں بس اتنا سمجھ لو کہ میں باسیلیکا سسٹرن کے 336 سیدھے ستونوں میں سے میڈیو سا کا سَر کے بل کھڑا واحد ستون ہوں۔‘‘مَیں نے استفہامیہ طور پر اُسے دیکھا، تو بولا۔ ’’کیا تم میڈیوسا ریستوران کی بغل میں واقع، باسیلیکا زیرِ زمین ذخیرئہ آب کو گئے ہو؟‘‘مجھے یاد آگیا’’مَیں بھی کیسا بھلکڑہوں۔ پہلے ہی دن اُس کے بارے میں پڑھاتھا اورکئی مرتبہ اس کے سامنے سے گزرا ہوں، یہ تو واقعی میرے ہوٹل سے چند قدم پر واقع ہے۔

میں اُسے آیندہ پرٹالتا رہا۔‘‘ ’’یہ استنبول کے شاہی محل کو پانی فراہم کرتا تھا، اِس میں سب ستون سیدھے کھڑے ہیں، بس ایک ستون سر کے بَل کھڑا ہے، جس کی بنیاد میں میڈیوسا کا اوندھا چہرہ اور سَر ہیں۔ مَیں وہی ستون ہوں۔‘‘ اُس نے کچّی پکّی مسکان سے کہا۔’’تم جیسے ستون دنیا میں بےشمار ہیں، بلکہ آج کی شب ہی ڈھونڈنے نکلو تو استنبول میں کئی مل جائیں گے۔‘‘مَیں نے ذو معنی انداز میں کہا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے خاصا وقت نکل گیا۔ ویٹر آتا رہا اور گیبرئیل کے سامنے بَھرے گلاس دھرتا رہا۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ وہ کھانا کھالے تو اُس نے یہ کہہ کر مجھے ٹال دیا کہ وہ پانی کا جان وَر ہے ، کم ازکم اُس شب تو وہ پانی کا جان وَر ہی تھا، ایک اُداس، ایک تنہا جان وَر۔

رات گئے جب بار بند ہونے کا وقت آیا اور باقی ماندہ گاہک رخصت ہونے لگے تو ویٹربتیاں بجھانے گئے۔ بار ٹینڈر نے میوزک سسٹم بند کرنے سے پہلے اونچی آواز میں گانا لگایا، ترکان بلند آہنگ میں گا رہا تھا شِکا شِکادم۔ واپسی پر مَیں کبھی گیبرئیل کو سہارا دیتا، تو کبھی وہ خود پرُاعتماد قدموں سے چلنے کی کوشش کرتا۔ وہ ٹیکسی پرجانے کے بجائے پیدل واپس جانا چاہتا تھا۔ اس طویل واک کے دوران کئی جھومتے، ڈولتے، ایک دوسرے کے کندھوں میں جُھولتے جوڑے ہمارے قریب سے گزر گئے۔ گیبرئیل کا ہوٹل آیا تو مَیں نے اُسے خداحافظ کہا۔ اُس نے لجاجت سے کہا کہ وہ وہاں نہیں ٹھیرنا چاہتا بلکہ میرے ہوٹل کی چھت پر کُھلے آسمان تلے کسی گدّے پر سَو جائے گا۔ 

مَیں نے گہرے بادلوں کی جانب اشارہ کرکےکہا کہ ’’ہوسکتا ہے، رات کو بارش ہوجائے، اُسے بے وجہ تکلیف ہوگی۔‘‘ اُس نے اصرار کیا تو مَیں اس کے ہم راہ اپنے ہوٹل کو چل دیا۔ہوٹل کے باہر پہنچ کر اُس نے ایک بنّے سے ٹیک لگالی اور جیب سے ٹٹول کر سگریٹ نکالی۔ سگریٹ سُلگا کر اُس نے لمبا کش لیا اور آسمان کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔’’آج مجھے لیو بہت یاد آرہا ہے۔وہ مجھ سے بھی زیادہ اداس ہوگا۔‘‘مَیں نے استفہامیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تو اُس نے رُخ میری جانب کیا اور بولا۔’’اب تو خاصے دن ہوگئے، اُس سے ملے۔ اُس کابھی دنیا میں میرے سوا کوئی نہیں، مَیں نے اس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے پرسوں برن فون کیا تھا، ایملی نے بتایا تھا کہ وہ بھی میرے بغیر اداس ہے۔‘‘

یہ کہہ کر گیبرئیل نے اپنی پشت کی جیب سے بٹوانکالا اور کانپتی انگلیوں سے اُس میں سےکچھ نکالنے لگا تو ایک تصویر نیچے گِرگئی۔’’اوہ، گرینڈ پا گِرگئے۔‘‘ اُس نے تصویر اٹھائی اوراس کی ایک جھلک دِکھا کر واپس بٹوے میں ڈال لی، وہ تصویر ایک پرُوقار مُسکراتے بوڑھے شخص کی تھی۔ تصویر واپس رکھ کر اُس نے بٹوے کا رُخ لیمپ پوسٹ کی جانب کیا اور اُس میں سے ایک اور تصویر نکالی اورمجھے دِکھائی۔’’یہ لیو ہے۔‘‘وہ ایک کتّے کی تصویر تھی۔ اُس کے بعد اُس نے میرا کندھا تھپتھپایا اور بولا۔ ’’تُم نے میرے بچپن کا پوچھا تھا، مَیں نے تمھیں اپنی کُل زندگی دو تصویروں میں دِکھا دی ہے۔‘‘ہم نے اپنے اپنے گدّے چھت پر بچھالیے۔ اُس رات چھت کی ایک طرف ایک گدّے پر ایک فربہ آدمی کروٹ لیے خرّاٹے لے رہا تھا۔ گیبرئیل نے آسمان کو گُھورتے ہوئے خُود کلامی کی ۔ (جاری ہے)