• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے، ابو حمزہ کے بیٹے کا مطالبہ

لندن (پی اے) نفرت انگیز ی پر مبنی تبلیغ کرنے والے ابوحمزہ کے بے وطن بیٹے نے حکومت سےمطالبہ کیا ہے کہ اس پر دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔ شام کے صدر اسد کی حکومت میں لڑائی میں شریک ہونے کے لئے شام جانے کی وجہ سے دہشت گردی کے الزام میں برطانوی شہریت سے محروم کئے جانے کے بعد ابو حمزہ کا بیٹا صفیان مصطفیٰ کمال ان دنوں راٹر ڈیم کے ایک حراستی مرکز میں قید ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے کسی بھی جرم میں کوئی سزا نہیں ہوئی ہے۔ ہوم آفس نے اس کے مقدمے کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مصطفیٰ کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کو بتایا گیا ہے کہ حکومت کو شبہہ ہے کہ شام میں قیام کے دوران میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہوں۔ میں ان الزامات کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہوں، میرے وکلا اور میں مقدمہ کی کھلی سماعت چاہتے ہیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات کی بنیاد کیا ہے۔ انھوں نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا ہے؟۔27 سالہ مصطفیٰ کمال 2011 میں ترکی واپس آیا، شام سے واپسی کے بعد ترکی میں آزادانہ زندگی گزار رہا تھا لیکن برطانیہ کی جانب سے دہشت گردی کا الزام لگائے جانے کے بعد اسے اردن بھیج دیا گیا، 2021 میں وہ ترکی واپس آیا، جہاں اسے برطانیہ کی پرواز میں بٹھا دیا گیا، اس کا طیارہ ایمسٹڑ ڈم میں رکا، جہاں سے اسے گرفتار کر کے Nieuw Vosseveld کی ہائی سیکورٹی جیل بھیج دیا گیا۔ حکومت برطانیہ نے 2016 میں اس کی برطانوی شہریت منسوخ کردی۔ ہو م آفس کے مطابق یہ قدم انتہائی غور وخوض کے بعد اس وقت اٹھایا جاتا ہے جب ایسا کرنا عوام کے مفاد میں ہو۔ مصطفیٰٰ کمال کے وکیل ڈینیل فرنر کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے اس فیصلے کے خلا ف اپیل کی ہے اور مقدمہ زیر التوا ہے۔ مصطفیٰٰ کمال کے وکیل کے مطابق اس کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی وجہ سےنومبر میں اس کے خلاف مقدمہ ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد مصطفیٰ کمال کو راٹرڈیم کے حراستی مرکز میں بھیج دیا گیا۔ جہاں وہ اب بھی تک قید ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہوم آفس نے برطانیہ میں اس کے خلاف مقدمہ چلانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ وہ ا ب برطانوی شہری نہیں رہا، اب اس کو یہ خطرہ ہے کہ اسے پوری زندگی مختلف ملکوں کے درمیان سفر میں گزارنا پڑے گی۔ کما ل کا کہنا ہے کہ اب وہ بے وطن ہے جبکہ اس کی وکیل کا کہنا ہے کہ وہ مراکش کی شہریت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ مراکش نے اس کی حیثیت کے بارے کسی تفصیل کی تصدیق نہیں کی ہے۔ کمال کا کہنا ہے کہ میں نے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی، اب میں جہاں جاتا ہوں، برطانوی حکومت میرے خلاف اپنے بنائے الزامات ان ملکوں کی حکومتوں کو بھیج دیتی ہے۔ کمال کا کہنا ہے کہ میں شام کے انقلاب پر یقین رکھتا ہوں، میں ایک انسان کی حیثیت سے عربی پس منظر کے ساتھ ہوں اور ایسا کرنا میرا فرض ہے، ایسا میرے ساتھ کبھی نہیں ہوا کہ مجھے صرف وہاں جانے کی وجہ سے دہشت گرد قرار دیا گیا ہو، میں انسانی ہمدردی کیلئے کام نہیں کررہا تھا، میں میدان جنگ میں تھا لیکن میں نے کبھی کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔نہ ہی شہریوں پر کسی حملے میں حصہ لیا، میں اسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا، میں نے کسی دہشت گردی پر مبنی کارروائی میں حصہ نہیں لیا، میں نے ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی جو شام میں مشکلات سے دوچار تھے۔ کمال نے بتایا کہ اس نے ترکی میں شادی کی تھی، اس کی ایک بیوی ہے اور دو بچے لندن میں ہیں۔ اس نے کہا کہ میرے بچوں کی پرورش میرے بغیر ہو رہی ہے اور میری بیوی تنہا ماں کی حیثیت سے رہ رہی ہے، یہ بہت مشکل ہے۔ کمال کے وکلا کا خیال ہے کہ اس کے والد کی شرانگیزیاں اس کی حراست کا سبب ہیں۔ کمال کی وکیل کا خیال ہے کہ کمال کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہالینڈ کی پولیس نے اس کے خلاف الزامات کی تفتیش کی لیکن اسے کوئی شواہد نہیں مل سکے۔ کمال جہادی تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلق کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے۔ کمال کا کہنا ہے کہ ہم اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ میرے والد پر الزامات ہیں لیکن میں صرف اپنے قول اور عمل کا ذمہ دار ہوں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرا ابوحمزہ ان کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی حکومت نے میری شہریت منسوخ کر کے دنیا کو میرے لئے بہت چھوٹی جگہ بنا دیا ہے لیکن وہ میرا حوصلہ مجھ سے نہیں چھین سکتے اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے درمیان ہوں گا، میں صرف خود کو بے قصور ثابت کرنے کا موقع چاہتا ہوں۔

یورپ سے سے مزید