• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
جنگ کے منظرنامے کو گنجلک فضا میں شمار کرنے سے پہلے ان قوموں کے کردار اور ماحول کو محدب شیشے سے دیکھنے سے منظرنامے میں ایک پرامن سی کیفیت سے آگاہی ملتی ہے۔ ویسے تو جنگ ہر منظر، ہر کردار اور ہر قسم کی پرامن کیفیت کو اپنی گرفت میں لے کر تباہ و برباد کردیتی ہے مگر قوموں کا وجود، ان کی خوبیوں پر کچھ بھی اثر انداز نہیں ہوتا، یعنی قوموں کی باقیات کے ذریعے ان کی خوبیاں اور اوصاف زندہ رہتے ہیں۔ برسوں جاری رہنے والی جنگ کسی منظرنامے کو ختم کرسکتی ہے مگر قوموں کے اوصاف و کردار زندگی کے ہمہ گیر محسوسات کو وہ تہس نہس نہیں کرسکتی۔آج ہم دنیا میں پھیلے جنگ کے خوف کو دیکھ رہے ہیں۔ اس میں دو ایسے ممالک کو بھی گھسیٹا جارہا ہے جو پرامن ترین مشہور ہیں۔ جن کی وادیاں تو حسین ہیں ہی مگر وہ لوگ بھی بے حد حسین ہیں، اچھے خصائل رکھتے ہیں، امن پسند بے حد ہیں۔ تمام ممالک میں ان ہی کو ہر لحاظ سے مستحکم جانا جاتا ہے۔آج بھی اگر آپ یورپ کی بات کریں تو ذہن میں اسکنڈے نیوین ممالک ہی کا تصور ابھرتا ہے جو مسلسل ہر لحاظ سے سالہا سال سے اپنا استحکام اور ہر قسم کی ترقی و خوشحالی، امن و سکون برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں فن لینڈ، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ، آئس لینڈ اور ناروے بھی آتے ہیں۔ اگرچہ سوئیڈن کا نام نہیں لیا گیا، جبکہ ہم نے تو آنکھوں سے سوئیڈن کی خوشحالی بھی دیکھی ہے، بلکہ تمام نورڈک ممالک یوکے، یورپ اور امریکہ سے زیادہ مستحکم پوزیشن رکھتے ہیں، ناروے، ڈنمارک، سوئیڈن، فن لینڈ اور آئس لینڈ بھی اور اب انہیں امن پسند ممالک کو بھی جنگ میں ساتھ دینے کا کہا جارہا ہے، امن ممالک کے امن پسند پرسکون لوگوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ان بھولے لوگوں پر بھی جنگ مسلط ہوجائے گی، جنگ تو روس اور یوکرین کی ہے مگر نیٹو میں شامل وہ ممالک بھی ہونے جارہے ہیں جو جنگ تو کیا کسی کا جھگڑا بھی دور سے نہیں دیکھ سکتے۔جی ہاں سوئیڈن اور فن لینڈ نے نیٹو میں شمولیت کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ یعنی وہ جو ایک لفظ کی بازگشت ہر جگہ سننے کو مل رہی ہے نا ’’نیوٹرل‘‘ تو سوئیڈن اور فن لینڈ، نیوٹرل، نہیں رہے۔ وہ بھی اب اس جنگ میں کودنے جارہے ہیں کہ یوکرین کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ حیرت ہے یہ لوگ بھی بہادر ہوگئے حالانکہ اسکنڈے نیوین ممالک کے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہایت شرمیلے، کم گو ہیں۔ کھل کر گپ شپ کرنے کا تصور ان کے یہاں نہیں ہے، جن کی تہذیب ہی خاموشی ہے۔ آپ سفر میں ہوں یا کسی پارک میں، آپ کے ہاتھوں میں کتاب ہر وقت ہوتی ہے، ان کی دوستی صرف اور صرف کتاب سے زیادہ ہے، دوسرے انسانوں کی نسبت! یہ ممالک سرد ترین ہیں، ظاہر ہے روس کا حصہ رہنے والے اور پھر روس سے آزادی لے کر اپنے اپنے نام دینے والے ملک بھی سرد ہی ہوں گے۔ لہٰذا یہاں کی قوموں کے مزاج بھی سرد ہی ہیں۔ بعض قومیں اپنے مزاج و ماحول کے حصار میں رہ کر جینا چاہتی ہیں۔ ویسے نورڈک ممالک والا سکون ہر ملک میں ہونا چاہیے کہ جھیلوں کی سرزمین ہو۔ گرمی میں سرسبز و شاداب درخت اور سردیوں میں صرف برف ہی برف ہو تو ایسے پرسکون ممالک میں عوام امن پسند ہی ہوں گے۔ یہ لوگ کھلے دل سے ایک دوسرے سے رابطے کرنے سے گھبراتے ہیں۔ آپس میں رہنے والے میاں بیوی یا دوسرے ریلیشن میں رہنے والے لوگ بھی شرمائے لجائے اور خاموش رہتے ہیں، معلوم نہیں ہوتا کہ کب انہوں نے ساتھ رہنے کی مسرت و شادمانی پائی ہے اور کب شادی ختم بھی ہوگئی۔ ایسی وابستگی ہوتی ہے ان لوگوں کی۔خیر روس نے فن لینڈ اور سوئیڈن کو دھمکی دی ہے کہ وہ ان کی گیس اور دیگر اشیا جو بھیجی جاتی ہیں، ان ممالک کوسپلائی بند کردے گا ۔ روس کی دھمکیوں میں یہ ممالک بالکل نہیں آرہے اور نیٹو میں شامل ہونے کے لیے بضد ہیں۔ ویسے بھی سوئیڈن اور فن لینڈ میں گیس سے زیادہ بجلی استعمال کی جاتی ہے، چولہے تک الیکٹرک ہیں۔ رہی بات دیگر مصنوعات کی تو اسکنڈے نیوین یا نورڈک ممالک روس سے ہر لحاظ سے ملتے جلتے ہیں تو زیادہ تر کھانے پینے سے لے کر عام زندگی گزارنے کے انداز بھی ایک جیسے ہیں تو روسی پابندیاں کوئی بڑی کمی تو لانے سے رہی۔ بلکہ ریشین لوگ اسکنڈے نیوین ممالک میں آکر چھوٹے موٹے جرائم کرتے رہتے ہیں، الکوحل کے دیوانے تو یہ آس پاس کے تمام ممالک ہیں بلکہ تمام کو اکٹھے ہوکر ایک ہی ملک، الکوحلستان، بنالینا چاہیے۔ شوق ایک جیسے ہوں تو اختلاف کیسا!۔تو جیسا کہ ہم نے شروع میں لکھا کہ جنگ کے منظرنامے کو گنجلک فضا سے قوموں کے کردار و ماحول سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ کی ہیبت ہی فضا کو خوفزدہ کردیتی ہے مگر جنگ تمام ہستیوں اور بستیوں کو تباہ کر بھی کردے، پھر بھی کچھ نہ کچھ باقیات تو رہ جاتی ہی جو قوموں کے رہن سہن کا پتہ دیتی ہیں۔مگر جنگ ہو ہی کیوں؟ ہر کوئی اپنے وطن اور تہذیب و تمدن کو رواں دواں دیکھنا چاہتا ہے۔ طاقتور ممالک بھی تو یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ کل ان پر بھی کوئی دوسرا جنگ مسلط کرسکتا ہے۔ جنگ امن و سکون کے تہس نہس ہونے کا نام ہے اور معصوم و بھولی قوموں پر جنگ مسلط کرنا جنگ عظیم و عالمی جنگ کو دعوت دیناہے۔ قوم کوئی بھی اہم ہوتی ہے، امن چاہتی ہے، جنگ نہیں۔
یورپ سے سے مزید