سابقہ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں شرکت کی۔
سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت ہوئے اجلاس میں وفاقی وزیر فیصل سبزواری، سینیٹر مشاہد حسین سید، سیکریٹری پنجاب احمد رضا سرور موجود تھے۔
شیریں مزاری نے اجلاس میں بتایا کہ میں 70 سال کی ہوں اوربیمار ہوں، 50 سال پرانا کیس ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھےگومل روڈ پر روکا گیا، پولیس یونیفارم میں تھے، مجھے کہا گیا کہ میرے خلاف کیس بنا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ میرا فون لے لیا گیا، مجھے سفید ڈالے میں ڈالا گیا، جب میں نے کہا کہ مجھے کچھ ہوا تو تمہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میری بیماری کا سن کے چکری پر روکا، کہا کہ آپ کی دوائی کا بیگ آرہا ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ کچھ دیر میں ایک بندہ کالے سوٹ میں آیا اور کہا کہ آپ کا چیک اپ کرنا ہے، میں نے اپنا چیک اپ کرانے سے انکار کردیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ میں نے کابینہ میں کہا ہے کہ ہم پر ایک دن میں 28 مقدمات بھی درج ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ صرف بانی ایم کیو ایم کی تقریر پر تالیاں بجانے پر مقدمات درج ہوئے، آپ خوش قسمت ہیں جن کے لیے کورٹ رات کو بھی کھلی رہی۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ممبر پارلیمنٹ کو اس طرح اٹھانا کسی صورت قبول نہیں، اینٹی کرپشن کے جواب سے مطمئن نہیں ہوں، ولید اقبال صاحب، جو آپ کے والدین کے ساتھ ہوا، وہ غلط ہے۔
دوران اجلاس سیکریٹری پنجاب احمد رضا سرور نے کہا کہ شیری مزاری پر کیس تھا اور گرفتار اینٹی کرپشن نے ہی کیا، ہم نے قانون کے تحت گرفتاری کی۔
انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ایف آئی آر گزشتہ حکومت کے آخری دنوں میں ہوئی، جس میں شیریں مزاری کا نام نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ہے۔