• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

13مئی 2022ء کو برطانیہ کی دو لیبارٹریز نے ایک ہی گھر میں ممکنہ طور پر مونکی پاکس وائرس لگنے کی تصدیق کی، جس کے بارے میں برطانوی حکومت نے فوری طور پر عالمی ادارہ صحت کو مطلع کیا۔ 15 مئی کو چار مزید لیبارٹریز نے جسم پر آبلے دار دانوں کے ساتھ نئے کیسز کی تصدیق کی۔ 22مئی 2022ء تک یورپ اور امریکا میں اس طرح کے 111 کیسز کی تصدیق کی جاچکی تھی۔

مونکی پاکس کیا ہے؟

یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو مونکی پاکس وائرس کے انفیکشن کے باعث ہوتی ہے۔ مونکی پاکس کا وائرس پہلی بار 1958ء میں دریافت ہوا تھا، جب تحقیق کے مقصد کے لیے رکھے گئے بندروں کی کالونی میں یہ وباء پھوٹ پڑی تھی اور اسی وجہ سے اس وائرس کا نام مونکی پاکس رکھا گیا تھا۔ انسانوں میں مونکی پاکس کا پہلا کیس 1970ء میں جمہوریہ کانگو میں اس وقت ریکارڈ کیا گیا تھا، جب وہاں اسمال پاکس وباء پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کی جارہی تھیں۔ افریقا سے باہر یہ انفیکشن انسانوں کے سفر یا جانوروں کی درآمد کے ذریعے پھیلتا ہے اور اب تک یہ وائرس برطانیہ، امریکا، کینیڈا، اسرائیل اور سنگاپور میں رپورٹ ہوچکا ہے۔

2022ء میں کیا ہورہا ہے؟

امریکا میں صحت عامہ کا ذمہ دار ادارہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)، میساچوسٹس ڈپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کے اشتراک سے ایک کیس کی تحقیق کررہا ہے، جس میں کینیڈا سے امریکا واپس آنے والے شخص میں 18مئی کو مونکی پاکس انفیکشن کی تصدیق ہوئی۔ سی ڈی سی دنیا بھر کے کچھ ممالک میں ان مقامات کی بھی کھوج لگا رہا ہے، جہاں مئی کے ابتدا سے لے کر وسط تک مونکی پاکس کے کیسز رپورٹ ہوئے اور وہاں عمومی طور پر مونکی پاکس کا وائرس نہیں پایا جاتا، ان میں یورپ اور شمالی امریکا شامل ہیں۔

سی ڈی سی کے مطابق، یہ بات ابھی واضح طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ کچھ ممالک کے مخصوص علاقوں میں لوگوں کو یہ انفیکشن کس طرح لگا لیکن متاثرہ مریضوں سے طبی تحقیق کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس مرض نے ابھی تک صرف مَردوں کو متاثر کیا ہے اور یہ وہ مرد ہیں جو ہم جنسی پرستی کا شکار تھے۔ 

تاہم، سی ڈی سی نے امریکا میں صحت کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور ماہرین کو خبردار کیا ہے کہ وہ صنفی امتیازر کھے بغیر، جِلد پر دانوں کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریضوں پر خاص نظر رکھیں اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کی یقینی تحقیق کرلیں کہ کہیں وہ مونکی پاکس کا شکار تو نہیں۔

اس سے قبل سی ڈی سی اور میری لینڈ ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ نے 16 نومبر 2021ء کو نائیجیریا سے امریکا واپس آنے والے ایک شخص میں مونکی پاکس انفیکشن کی تصدیق کی تھی۔ سی ڈی سی شعبہ صحت کے مقامی اہلکاروں، سفری صنعت اور دیگر شراکت داروں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے کہ وہ جِلدی خارش یا دانوں کے شکار افراد کی نشاندہی میں اس کی مدد کریں۔ 

سی ڈی سی اس لیے بھی زیادہ پریشان ہے کہ مونکی پاکس انفیکشن کا شکار ہونے والے فرد میں 21دن بعد علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انفیکشن اور علامات ظاہر ہونے کے درمیان تین ہفتوں کا بڑا فرق ہونے کے باعث متاثرہ شخص سے سیکڑوں لوگ رابطہ میں آسکتے ہیں اور وہ بھی اس انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔

علامات

انسانوں میں مونکی پاکس کی علامات اسمال پاکس جیسی ہوتی ہیں لیکن ان کی شدت کچھ کم ہوتی ہے۔ مونکی پاکس کی ابتدائی علامات میں بخار، سردرد، پٹھوں میں درد، اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ اسمال پاکس سے مونکی پاکس ایک طرح سے مختلف ہے کہ اس میں جسم اور بلبلے دار دانوں میں سوجن ہوجاتی ہے جب کہ اسمال پاکس میں سوجن نہیں دیکھی جاتی۔

درج بالا ابتدائی علامات ظاہر ہونے کے ایک سے تین روز کے اندر (کبھی کبھی اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے)، متاثرہ مریض کے جسم پر آبلے دار دانے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور اکثر اس کی ابتدا چہرے سے ہوتی ہے اور پھر بتدریج پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ متاثرہ مریضوں میں یہ بیماری دو سے چار ہفتوں تک رہ سکتی ہے۔ افریقا میں مونکی پاکس سے متاثر ہونے والے ہر دس میں سے ایک مریض کی موت ہوجاتی ہے۔

انفیکشن کا پھیلاؤ

ایک شخص میں مونکی پاکس انفیکشن کا پھیلاؤ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی شخص، جانور یا کسی ایسی چیز کے ساتھ رابطے میں آتا ہے، جو اس وائرس سے متاثرہ ہوتا ہے۔ وائرس جسم میں خراب جِلد (چاہے وہ بظاہر نظر نہ آئے)، سانس کی نالی، یا لعابی جھلیوں جیسے آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔ جانور سے انسان میں اس وائرس کا پھیلاؤ کھرچنے، گوشت تیار کرنے یا اس جانور کے کسی سیال مادے وغیرہ سے ہوسکتا ہے۔

انسان سے انسان میں اس انفیکشن کا زیادہ تر پھیلاؤ نظر نہ آنے والے تنفسی قطروں (Respiratory drops)کے ذریعے ہوتا ہے۔ تنفسی قطرے عموماً چند فٹ سے زیادہ سفر نہیں کرسکتے، اس کے لیے دو افراد کا زیادہ دیر تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور قریب رہنا ضروری ہے۔ مزید برآں، متاثرہ شخص کے سیال مادوں یا استعمال شدہ کپڑوں کو بھی اگر چھو لیا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔

احتیاط

مونکی پاکس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:

٭ ایسے جانوروں سے دور رہنا جن میں مونکی پاکس وائرس کی موجودگی کا خدشہ ہو، جن میں بیمار اور مردار جانور بھی شامل ہیں۔

٭ متاثرہ جانوروں کے ساتھ رابطے میں آنے والے تمام افراد اور اشیا سے دور رہیں۔

٭ متاثرہ لوگوں کو علیحدہ کردیں۔

٭ متاثرہ لوگوں کے ساتھ رابطہ میں آنے کے بعد صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں اور ہاتھوں کو بہتے ہوئے پانی کے نیچے صابن سے دھولیں اور سینیٹائزر استعمال کریں۔

٭ متاثرہ مریضوں کی تیمارداری کرتے وقت پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ استعمال کریں۔

علاج

اس وقت مونکی پاکس وائرس کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے۔ تاہم، سی ڈی سی اس مرض کو روکنے کے لیے اسمال پاکس ٹیکہ، اینٹی وائرل ادویات اور مخصوص انجکشن تجویز کرتا ہے۔

پاکستان میں صورتِ حال

ہرچندکہ پاکستان میں ابھی تک مونکی پاکس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، تاہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے ہوائی یا زمینی سفر کے ذریعے پاکستان پہنچنے والے افراد کی مانیٹرنگ کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ ادارے نے تمام بڑے نجی اور سرکاری ہسپتالوں کو آئسولیشن وارڈز قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

صحت سے مزید