• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا۔راچڈیل
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ کے بعد حکومت کو الیکشن کرانے کیلئے 6روز کے الٹی میٹم نے سیاسی حلقوں میں ہلچل برپا کر دی ہے، دوسری طرف حکومت نے پارلیمان کے ذریعے نیب اور انتخابات کے حوالے سے اصلاحات کی منظوری دے کر سیاسی حالات کا رخ موڑ دیا ہے، بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے تک اضافہ حکومت کیلئے ایک کڑوا گھونٹ تھا مگر حکمران اسے نگلنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا، عمران خان اسلام آباد میں لانگ مارچ کے اختتام پر 6روز بعد 20لاکھ لوگوں کو لے کر دوبارہ آنے کا اعلان کر چکے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل اور فوری انتخابات کا اعلان کیا جائے، وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کے الٹی میٹم کے بعد واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ الیکشن کا فیصلہ ایوان کرے گا، عمران خان کے لانگ مارچ میں ایک اٹک اور دوسرا دریائے راوی میں گر کر شہید ہونے والے کارکن اپنے پیچھے کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں ،لاہور میں مارچ کے دوران پولیس کارروائیوں میں ایک کانسٹیبل کے قتل کا واقعہ بھی تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ملک میں سیاسی ہلچل برپا ہے، کبھی فوج کو نیوٹرل رہنے تو کبھی نہ رہنے کا مشورہ دیا جارہا ہے، سیاسی افراتفری کے ماحول میں قومی اسمبلی نے نیب قوانین میں ترامیم اور الیکشن ترمیمی بل2022منظور کیا جسے سینیٹ میں بھی اکثریتی حمایت سے منظور کرلیا گیا،الیکشن ترمیم کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم ہو گئی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے عام انتخابات اور تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کا قانون ختم ہونے پر دنیا میں مقیم لاکھوں تارکین وطن میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا موقف ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی، لانگ مارچ صرف خون خرابے کے خوف سے ختم کیا، احتجاج پر امن تھا لیکن حکومت نے اسے پُرتشدد بنایا، لاہور میں پولیس نے وکلا کو بسوں سے نکال کر مارا، حکومت نے پنجاب پولیس کو استعمال کیا،آئی جی سمیت چن چن کر ایسے افسران لائے گئے جنہوں نے ظلم کیا ،کون سی ملک دشمن پولیس ہے جو اپنے ملک کی خواتین اور بچوں پر تشدد کرے ،یہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا ہے کہ ہم انتشار پھیلانے جارہے تھے ،کیا کوئی خواتین کو اور اہل خانہ کو لے کر انتشار پھیلانے جائے گا، یہ لوگ یزید کے ماننے والے ہیں، ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کو قتل کرنے کے باوجود انہیں سزا نہیں ملی، اگر سزا مل جاتی تو یہ لوگ اس طرح کا ظلم نہ کرپاتے،126دن دھرنے میں بیٹھا، دھرنا دینا کوئی مشکل نہیں مگر حالات بھانپ گیا تھا کہ لوگ لڑنے کیلئے تیار ہیں ،خون خرابہ ہونے والا ہے، لوگ پولیس کی مار سے مشتعل تھے لہٰذا خونی تصادم طے تھا، اس لیے اہم فیصلہ لینا پڑا، نہیں چاہتا تھا کہ ملک میں اداروں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرلیں گے تو یہ لوگوں کی بھول ہے،6روز میں انتخابات کا اعلان نہ ہوا اور اسمبلیاں نہ توڑی گئیں تو دوبارہ سڑکوں پر نکلیں گے، حکومت کی طرف سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے خوفناک مہنگائی کا ریلا عوام کو نگلنے جا رہا ہے، پاکستان اس وقت حقیقی معنوں میں 90 کی دہائی کی سیاست میں واپس پہنچ چکا ہے اور شنید یہی ہے کہ حالات اداروں سے نہ صرف محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ اداروں کو متنازع بنانے کی بھی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے، مزید مقامِ حیرت ہے کہ اس کوشش میں ہر اول دستے کا کردار وہ ادا کر رہے ہیں جو خود کو جمہوریت کا سرخیل سمجھتے ہیں ،اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے تمام سیاسی رہنما دوسروں کو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں، جمہوری روایات کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے والے ہی اس وقت جمہوریت کی سربلندی کے نعرے بلند کررہے ہیں، کرسی اقتدار سے چمٹے رہنے والے سیاسی بہروپیے، اپنے آپ کو عوام کا خادم، تبدیلی کا سالار، لبرل ازم کے نمائندہ گنوا رہے ہیں، اپنے منہ میاں مٹھو بننا محاورے کے بجائے حقیقی معنوں میں سمجھنا مقصود ہو تو اس وقت پاکستان کی سیاست کا میوزیکل چیئر کا کھیل دیکھ لیجئے، جمہوری معاشروں میں جہاں جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذالعمل ہے ،وہاں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے، مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت کے متوازی ایک اپوزیشن کی کابینہ تشکیل دیئے جانے کی روایت موجود ہے، عمران خان کے دور حکومت میں ریکارڈ سطح پر مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں، تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن برسر اقتدار آئی تو لوگوں کو گمان ہو گیا کہ اب مہنگائی ختم ہو جائے گی ،نواز لیگ نے بڑے دعوے کیے لیکن حکومت سنبھالتے ہی ڈالر 200 سے بھی اوپر ہوگیا اور پٹرول کی قیمت کو پَر لگ چکے ہیں، ایسے حالات میں فرض کیا حکومت پی ٹی آئی کو ہی واپس مل جاتی ہے تو کیا پی ٹی آئی دعوے سے کہہ سکتی ہے کہ حکومت دوبارہ ملنے پر وہ دلیلیں نہیں دیں گے، خدارا اس ملک کے ساتھ کھلواڑ ختم کیجئے کوئی بھی جانے والی حکومت اس بات کو موضوع بنانا ہی گوارا نہیں کرتی کہ اس نے اپنے منشور پر کتنا عمل کیا بلکہ وہ سیاسی شہید بننے کے چکر میں رہتے ہیں، ن لیگ اپنے منشور کی ناکامی کے بجائے مجھے کیوں نکالا کا رونا روتی رہی، بالکل ویسے ہی اس وقت پی ٹی آئی اپنے گریباں میں جھانکنے کے بجائے مجھے واپس لاؤ کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہے، فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی عادت نہیں رہی ورنہ حقیقی معنوں میں سیاستدان ہوتے تو جیسے اپوزیشن نے عدم اعتماد کا قدم ساڑھے تین سال بعد اٹھایا آپ بھی ایک سال صبر کرتے اور حکومتی ناکامیوں کو مکمل طور پر کیش کرواتے، انتخابی اصلاحات کرواتے، ادارہ جاتی اصلاحات کی طرف جاتے مگر ایسا نہیں ہو رہا، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی بدحالی پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا جائے، پیٹرول اور ڈالر کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہوا تو آنے والی خوفناک مہنگائی غریب طبقے کو نگل جائے گی، عمران خان کے الٹی میٹم کے بعد سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس پر تمام سیاسی پنڈت نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
یورپ سے سے مزید