وزیراعظم شہبازشریف کے قوم سے پہلے خطاب پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔میں بھی اس کارِخیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں مگر فیض کے الفاظ مستعار لوں تو کچھ ایسی کیفیت سے دوچار ہوں:
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
ہم سب کے محبوب وزیراعظم میاں شہبازشریف نے فرمایا ہے کہ میں نے دل پر پتھر رکھ کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا فرمان عالیشان ہے کہ ہم نے پیٹرول کی قیمت خوشی سے نہیں بڑھائی۔بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید ہم بھی دل پر پتھر رکھ کر یہ ظلم سہہ لیتے مگر المیہ یہ ہے کہ عالی مرتبت وزیراعظم شہبازشریف کے پاس پتھروں کی کوئی کمی نہیں اور خدشہ ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے دل پر پتھر رکھ کر سخت فیصلے کئے جائیں گے اور ہم عوام کو ان مشکل فیصلوں کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بادل نخواستہ عام آدمی پر بوجھ لادتے چلے جائیں گے اور عوام کو چپ چاپ یہ وزن کمر پر لاد کر چلتے رہنا ہوگا۔عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی میاں شہبازشریف نے شانگلہ کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنے جذبات و احساسات کا برملا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اپنے کپڑے بیچ کر آٹاسستا کروں گا۔
ان کے اس سستے بیان سے یہ فرق پڑا کہ فلورملز مالکان نے آٹے کے نرخ مزید بڑھادیئے۔یوں لگتا ہے جیسے میاں شہبازشریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔وہ اب بھی فرطِ جذبات میں آکر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر یہی الفاظ ان کا پیچھا کرتے ہیں۔جس طرح ماضی میں انہوں نے آصف زرداری پر علی باباچالیس چور کی پھبتی کسی اور ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم نکالنے کی بات کی۔یا پھر بطور وزیراعلیٰ پنجاب کہا کہ چھ ماہ میں لو ڈ شیڈ نگ ختم نہ کردی تو میرا نام شہبازشریف نہیں۔
بعد ازاں میاں نوازشریف کو یہ کہہ کر وضاحت کرنا پڑی کہ شہباز صاحب جذبات میں آکر باتیں کر جاتے ہیں ،6ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔میرا خیال تھا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ زیادہ سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کریں گے مگر وہی پرانے انداز و اطوار پھر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافے کا اعلان کردیا مگر بعد ازاں یوٹرن لے لیا گیا اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو یہ کہہ کر وضاحت کرنا پڑی کہ بجٹ کے موقع پرسرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے پر غور کیا جائے گا۔
اسی طرح ہفتے کی چھٹی ختم کرکے 6دن کام کرنے کا اعلان کردیا گیا مگر پھر توانائی کے بحران کے سبب یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔وزیراعظم شہبازشریف نے وعدہ کیا کہ یکم مئی تک لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی لیکن ابھی تک اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکا۔
معاشی مشکلات کے باعث سخت فیصلے کرنا ناگزیر تھے تو ان کا بوجھ عوام پر لادنے سے پہلے حکام اپنے پیٹ پر بھی پتھر باندھتے۔مثال کے طور پر ارکانِ پارلیمنٹ،معزز جج صاحبان اور گریڈ18سے گریڈ 22کے سرکاری ملازمین کے پیٹرول الائونس کی مد میں سرکاری خزانے سے جو رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے اگر کبھی اس کا تخمینہ سامنے آجائے تو پتہ چلے کہ عوام کو دی جارہی سبسڈی اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
جن سرکاری ملازمین کو 1000سی سی گاڑی رکھنے کی اجازت ہے ان کے لئے 180لیٹر جبکہ 1300سی سی گاڑی کا استحقاق رکھنے والوں کو ماہانہ360لیٹر پیٹرول مفت ملتا ہے۔اسی طرح پارلیمنٹرین دیگر سہولتیں و آسائشات کے علاوہ پی ایس او فلیٹ کارڈ کے ذریعے مفت پیٹرول حاصل کرتے ہیں۔
چیئر مین اسٹینڈنگ کمیٹی کو بطور رکن پارلیمنٹ ڈیلی الائونس ،TADAاور دیگر مراعات کے علاوہ 1300سی سی سرکاری گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ 360لیٹر پیٹرول بھی مفت ملتا ہے۔ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو سرکاری گاڑی، ڈرائیور کے ساتھ ماہانہ 500لیٹر پیٹرول مفت ملتا ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک طرف مراعات یافتہ طبقہ بھاری بھرکم تنخواہوں اور دیگر سہولتوں کے ساتھ ساتھ مفت پیٹرول حاصل کرے اور دوسری طرف عوام پر یہ کہہ کر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ لاد دیا جائے کہ ہمیں درآمدی بل گھٹانا ہے؟
پاکستان کے75ارب ڈالر کے درآمدی بل میں سے 25ارب ڈالر پیٹرول امپورٹ کرنے پر خرچ ہوتے ہیں،اس کے نرخ ضرور بڑھائیں لیکن مہنگائی میں پسے ہوئے لوگوں سے قربانی کا تقاضہ کرنے سے پہلے خود بھی تو تھوڑا بہت ایثار کریں.
اسی طرح بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنا ہے تو پہلے مفت بجلی کی سہولت ختم کریں ۔جو ملک معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہو،وہاں اس طرح کے چونچلے کیسے برداشت کئے جاسکتے ہیں؟وزیراعظم صاحب !آپ دل پر پتھر رکھ کر عوام پر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بم گراسکتے ہیں تو ایک آدھ پتھر رکھ کا مراعات یافتہ طبقے سے بھی قربانی مانگ لیں۔
پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ دو ماہ سے حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔یکم اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ قبول کیا گیا،پہلے وزیراعلیٰ منتخب کرنے میں دو ہفتے گزر گئے پھر تقریبِ حلف برداری میں تاخیر ہوئی اور اب ایک ماہ گزر جانے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کابینہ تشکیل نہیں دے پائے۔صوبے میں گورنر موجود نہیں ۔
سیاسی غیر یقینی اور آئینی بحران کی اس کیفیت کا خمیازہ عوام کو مہنگائی اور بدانتظامی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔یاد رکھیں!آپ نے یہ حکومت مہنگائی کا نعرہ لگا کرحاصل کی ہے۔
آپ خوشی سے قیمت بڑھائیں یا عوام کے دکھ میں آنسو بہاتے ہوئے قدم اُٹھائیں ،غربت کی چکی میں پس رہے مظلوموں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔