• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے چند دَور

راہوں میں پتھر

جلسوں میں پتھر

سینوں میں پتھر

عقلوں پہ پتھر

آستانوں پہ پتھر

دیوانوں پہ پتھر

پتھر ہی پتھر

یہ زمانہ پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے

……٭٭…٭٭……

دیگیں ہی دیگیں

چمچے ہی چمچے

سکّے ہی سکّے،پیسے ہی پیسے

سونا ہی سونا

چاندی ہی چاندی

یہ زمانہ دھات کا کہلاتا ہے

……٭٭…٭٭……

لوگ سونے چاندی کی زنجیریں بناتے ہیں

ہمیں اور آپ کو پہناتے ہیں

ہم اور آپ پہن کر خوش رہتے ہیں

بلکہ تھینک یو بھی کہتے ہیں

……٭٭…٭٭……

ایک اور زمانہ ہے آئرن ایج

یعنی لوہے کا زمانہ

لوہا وہ دھات ہے

جس کا سبب لوہا مانتے ہیں

ہل کا پھل بھی لوہا

کارخانے کی کل بھی لوہا

لوہا مقناطیس بن جاتا ہے

تو چاندی کو کھینچ لاتا ہے

سوسُنار کی ایک لوہار کی

سونے والے لوہے والوں سے ڈرتے ہیں

لیکن کوئی کہاں تک رُکوائے گا

ہمارے ہاں بھی لوہے کا زمانہ آئے گا

کچا لوہا اور کسی کام کا نہیں

بس اس سے آدمی بناتے ہیں

جو مرد آہن کہلاتے ہیں

ان کو رنگ لگ جاتا ہے

بلکہ کھا جاتا ہے

پھر بھی لوگ گھورے پر سے اٹھا لاتے ہیں

زندہ باد کے نعروں سے جلاتے ہیں

……٭٭…٭٭……

یہ اوَر دَور ہے

لوگ ننگے گھومتے ہیں

ننگے ناچتے ہیں

ننگے کلبوں میں جاتے ہیں

ایک دوسرے کو جلسوں میں ننگا کرتے ہیں

عوام تک کے کپڑے اتار لیتے ہیں

بلکہ کھال کھینچ لیتے ہیں

کھالوں سے زرمبادلہ کماتے ہیں

گوشت کچّا کھا جاتے ہیں

نہ چولہا نہ سیخ ہے

یہ زمانہ قبل از تاریخ ہے

……٭٭…٭٭……

ملاوٹ کی صنعت

رشوت کی صنعت

کوٹھی کی صنعت، پگڑی کی صنعت

حلوے کی صنعت

مانڈے کی صنعت

بیانوں اور نعروں کی صنعت

تعویذوں اور گنڈوں کی صنعت

……٭٭…٭٭……

یہ ہمارے ہاں کا صنعتی دور ہے

کاغذ کے کپڑے

کاغذ کے مکان

کاغذ کےآدمی

کاغذ کے جنگل

کاغذ کے شیر

ذرا نم ہو تو سب کے سب ڈھیر

کاغذ کے نوٹ

کاغذ کے ووٹ

کاغذ کا ایمان، کاغذ کے مسلمان

کاغذ کے اخبار

اور کاغذ ہی کے کالم نگار

یہ سارا کاغذ کا دَور ہے

……٭٭…٭٭……

اب اس آخری دَور کو دیکھئے

پیٹ روٹی سے خالی

جیپ پیسے سے خالی

باتیں بصیرت سے خالی

وعدے حقیقت سے خالی

دِل درد سے خالی

دماغ عقل سے خالی

شہر فرزانوں سے خالی

جنگل دیوانوں سے خالی

……٭٭…٭٭……

یہ خلائی دَور ہے

لوگ تو ہم کے غبارے پُھلاتے ہیں

معجونِ فلک سیر کھاتے ہیں

رویتِ ہلال کمیٹیاں بناتے ہیں

آسمان کے تارے توڑ لاتے ہیں

ڈٹ کے دُنبے نوش فرماتے ہیں

بیت الخلا میں مدار پر پہنچ جاتے ہیں

ہمارے ہاں کا خلائی دَور یہی ہے

(ابن انشاء کی ’’اردو کی آخری کتاب ‘‘ سے ایک باب)