اسرار الحق مجازروولی ضلع بارہ بنکی میں1329ھ مطابق 1911میں پیدا ہوئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی۔اے پاس کرنے کے بعد وہ کچھ دنوں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں اور پھر کچھ عرصہ حکومت بمبئی کے محکمہ اطلاعات میں ملازم رہے بعد ہ’حلقہ ادب لکھنو کے سرگرم کارکنوں میں اور نیا ادب کے ادارہ میں رہنے کے بعد ہارڈنگ لائبریری دہلی میں ملازم ہوگئے۔
جب مجاز مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اس وقت ترقی پسند ادب تحریک کا آغاز ہوا۔ 1934 سے 1936 تک علی گڑھ یونیورسٹی میں ترقی پسند طلبہ کا خاص زور تھا۔ اگرچہ انہوں نے مختلف شعبوں میں امتیاز حاصل کیا مگر ادب کی خدمت کی طرف زیادہ توجہ کی ان نوجوان ادیبوں اور شعرا میں مجاز کو کافی اہمیت ہے۔
اپنی شاعری کے ابتدائی دور سے گزر کرمجاز نے محسوس کیا کہ شاعری کا مقصد نظمیں لکھنا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے اردگرد کی حالت کو نہایت لطیف انداز میں سامعین کے سامنے پہنچا دینا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری کا رخ موڑا اور نوجوانوں، غریبوں اور بے روزگاروں کے جذبات کو نہایت سچائی اور لطف کے ساتھ بیان کرنے لگے۔ وہ مفلسی کے ہیت ناک مناظر یا سرمایہ داری کے ظلم کا نقشہ کھینچتے ہوئے بھی شریعت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ان میں جذبات نگاری کا مادہ کوٹ کوٹ کربھرا ہوا ہے اور ان کے کلام میں روانی،گھلاوٹ اور شرینی بہت ہے۔
مجاز کے کلام کا مجموعہ1938میں’’آہنگ‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور بہت جلد مقبول ہوگیا پھر 1945 میں انہوں نے اسی مجموعہ میں کئی نظموں کا اضافہ کرکے اسے ’’شب تاب‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ایک اور مجموعہ ’’سازنو‘‘ کے نام سے نکالا۔
مجاز سے اردو داں طبقہ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن کثرت مے نوشی کے سبب ان کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ1955مطابق 1375 میں عین عالم جوانی میں فوت ہوگئے۔
مجازؔ کی مختصر زندگی کا خاصہ ان کی شاعری تھی۔ ان کی سب سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے، جس کے چند بند 1953میں بنی فلم ’ٹھوکر‘ میں گلوکار طلعت محمود کی آواز میں کافی مشہور ہوئے:
’’اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں‘‘
یہ شہر کی رات میں ناشادو ناکارہ پھروں
جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
مجازؔ نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں ۔ ان کی مشہور نظم ’ریل‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سردھنتی، فضا میں بال بکھراتی ہوئی
الغرض دوڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعر آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی
نقش فریادی:
کسی مشاعرے میں جب مجاز غزل سرا تھے کہ اچانک سامعین میں سےایک خاتون کی گود میں شیرخوار بچہ زور زور سےچلانے لگا مجاز اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے پوچھنے لگے:
’’نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا‘‘
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
…اسرار الحق مجاز…
جنونِ شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
ابھی بزم طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
بہ ایں سیل غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے