• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک جامعہ کو ا یشیا کے بہترین مراکز میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے متعدد بین الاقوامی اعزازات اور انعامات حاصل کئے ہیں۔ یہ جامعہ کراچی میں قائم کیمیائی اور حیاتیاتی سائنسز کا بین الاقوامی مرکز ہے۔ اس ادارے کو یونیسکو، ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز، او آئی سی اور کئی دیگر بین الاقوامی اداروں نے’’اعلیٰ ترین کارکردگی کا ادارہ‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ دنیا بھر کے بہت سے ممالک کے لیے مشعل راہ ثابت ہواہے۔ جامعہ کیلیفورنیا کے پروفیسر ارنسٹ وینکرٹ نے متعدد بار اس ادارے کا دورہ کیا اور اس کے بارے میں مندرجہ ذیل تبصرے لکھے: انہوں نے لکھا کہ’’ایک مغربی سائنسدان کی حیثیت سے یہ میرے لیے واقعی حیرت انگیز بات ہے کہ اس ادارے نے اعلیٰ ترین سطح کا سائنسی معیار قائم کیاہوا ہے۔مجھے گزشتہ کئی برسوں سے اس ادارے کی پیش رفت کو دیکھنے کا اعزاز حاصل ہے اس ادارے میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور سائنسی کوششوں کو جس سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اس پر میں حیران ہوں۔ میری رائے کے مطابق اگر میں یہ کہوں کہ بحیرہ روم سے جاپان کے خطے کے تین بہترین تحقیقی اداروں میں سےیہ ایک ہے تو بجا ہوگا لہٰذا مستقبل میں بھی اس ادارے پر خصوصی توجہ رکھنا اہمیت کا حامل ہے تاکہ یہ ادارہ سائنس میں اپنا مقام برقرار رکھ سکے‘‘۔

میں نے 1976سے 2002کے درمیان تقریباً 26 سال تک پہلے پروفیسر سلیم الزمان صدیقی کے ساتھ شریک ڈائریکٹراور بعد میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس انسٹی ٹیوٹ کی قیادت کی اور ایک انتہائی چاق چوبند تحقیقی ماحول قائم کرنے کی کوشش کی جس کے تحت صرف بہترین فیکلٹی ممبران ہی اس ادارے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے علمی حلقے کے لیے ایک اچھوتا نظام 1970 کی دہائی میں قائم کیا گیا جس کے تحت پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد متعین ہونے والے تمام اساتذہ کو کم از کم 5 سال تک کنٹریکٹ پر رکھا جاتا تھا اور ان کی ملازمت اس وقت تک مستقل نہیں کی جاتی تھی جب تک کہ غیر ملکی ماہرین کی جانب سے ان کی تحقیق کے معیار کا جائزہ تسلی بخش نہ آجائے۔ اس طرح ایسا ماحول پیدا ہو گیا جس کے تحت صرف بہترین کارکردگی دکھانے والےافراد ہی ادارےمیں رہ سکے۔ اس کے علاوہ، ہر فیکلٹی ممبر سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ قابل قدر فنڈنگ کے ساتھ بین الاقوامی منصوبوں کو حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے اور ایسا کرنے میں ناکامی بھی ایک عنصر تھا جو انہیں ملازمت سے ہٹانے کا باعث بن سکتا تھا۔ کلیدی کارکردگی اشاریوں کا ایک مربوط طریقہ کارمقرر کیا گیا تھا، اور ہر فیکلٹی ممبر کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ اس کے مطابق لیا جاتا ہے جبکہ ان کی تنخواہ میں اضافے اور ملازمت میں توسیع کا تعین بھی اسی کارکردگی کے مطابق کیا جاتا ہے۔لہٰذا ان کاوشوں کے نتیجے میں ہم اور ہماری فیکلٹی جرمنی، جاپان، امریکہ اور برطانیہ سے بڑی فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جس کی بدولت انتہائی نفیس تجربہ گاہیں قائم کی گئیں جو آج مغرب سے آنے والے بہت سے سائنسدانوں کے لیے قابل رشک ہیں۔

جب بھی پاکستان کو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تو یہی ادارہ اپنی خدمات پیش کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس کے دنیا پر حملے سے قبل ہی اس ادارے کی قیادت کو احساس ہوگیاتھا کہ ایچ ون این ون انفلوئنزاجیسی وائرل بیماری اور یرقان کی زیادہ خطرناک شکل دنیا بھر میں وبا کا سبب بن سکتی ہے اس لیےپاکستان کوخطرناک صورتحال کا سامنا کرنےکے لیے تیار رہناچاہئے۔ اسی مناسبت سے نیشنل سینٹر فار وائرولوجی اس ادارے کے اندر قائم کیا گیا تھا جو خطرناک وائرسوں پر تحقیق کے لیے مناسب بائیو سیفٹی لیول3پلس سہولتوں سے لیس کیا گیا جس میں وائرس کی جانچ کے لیے تقریبا 20پی سی آر مشینیں بھی شامل تھیں۔جب کورونا وائرس نے پاکستان پر حملہ کیا تو ان میں سے 4مشینوں کو انڈس اسپتال کراچی کو بطور قرض دیا گیا جس سے وائرس کی جانچ کرنے کی صلاحیت دگنی ہوگئی۔پھر کچھ مہینوں کے بعد انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کو حکومت سندھ نے اپنا سرکاری ٹیسٹنگ سینٹر تسلیم کیا اور روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس کے مریضوں کے نمونوں کے تقریباً 3500ٹیسٹ کئے جاتے رہے۔ کورونا وائرس ویکسین سینوفارم کے پہلے کلینکل ٹرائلز بھی اس ادارے میں کئےگئے تھے اور یہی وہ ویکسین تھی جو چین کی طرف سے سب سے پہلے پاکستان کو فراہم کی گئی تھی، ا س مرکز کے پاس صنعتی تجزیے کیلئے بھی ایک بڑی سہولت موجود ہے اور وہ برآمدی اشیاء کے معیار کو پورا کرنے کیلئے درکار متعلقہ تجزیاتی اعداد و شمار فراہم کرنے میں تقریباً 600 صنعتوں کی مدد کر رہا ہے۔اس ادارے کی ایک منفرد خصوصیت اس کا انٹرپرینیورشپ سینٹر ہے جس میں آفس کی جگہ، لیب کی سہولت اور رہنمائی کے لیے40نئی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کوپروان چڑھایا جا رہا ہے۔ صنعت اوریونیورسٹی میں روابط قائم کرنے کے نتیجے میں مختلف صنعتوں کی مصنوعات میں بہتری آئی ہے۔اس ادارے کا سب سے اہم پہلو اس کا بین الاقوامی کردار ہے، کسی بھی وقت کام کے دن یا چھٹی کے دن اس کا دورہ کریں، آپ کو لیبارٹریوں میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے بہت سے غیر ملکی اور ملکی سائنسدان تحقیقی کاموں میں مگن ملیں گے۔یہ ادارہ ایشیا میں تربیت اور تحقیق کے چند انتہائی جدید مراکز کے مد مقابل ہے۔ہمیں بڑی تعداد میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اورخاص طور پر زراعت اور صنعت میں مضبوط روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کوششوں کی اہم مثال ہری پور ہزارہ میں ایک نئی جامعہ پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ ہےجو اسی سلسلے کی روشن کڑی ہے۔اس میں 5عمدہ کارکردگی کے ادارے قائم کئے گئےہیں۔ سیالکوٹ میں اسی طرح کی ایک اور جامعہ کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ اسلام آباد میں اس طرح کی تیسری جامعہ قائم کی جا رہی ہے جس میں ایرواسپیس انجینئرنگ، مصنوعی ذہانت اور مائیکرو الیکٹرانکس کے عمدہ کارکردگی کے مراکز قائم کئے جائیں گے۔ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے اور صرف معیاری تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ہم ایک طاقتور قوم بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین