بلیک ہول مادّے کی ایک بے پناہ کثیف ومرتکز حالت ہے ،جس کی وجہ سے اس کی کشش ثقل اس قدر بلند ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی شے اس کے اُفق وقیعہ (ایونٹ ہورائزن ) سے فرار نہیں ہو سکتی۔ سوائے اس کے کہ وہ کمیتی سرنگ گری (Quantum Tunnelling) کا رویہ اختیار کرے۔ بلیک ہول میں موجود مادّے کا دائرہ ثقل اس قدر طاقتورہوجاتا ہے کہ اس دائرے سے نکلنے کے لیے جو رفتاردرکار ہوتی ہے وہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے اور چوں کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی شے نہیں۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شےبلیک ہول سے نکل نہیں سکتی۔ یہاں تک کہ روشنی بھی اس اُفق وقیعہ کے دائرہ اثر سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔یعنی بلیک ہول خلا میں مادّے کی کثافت کا ایک ایسامقام ہے ،جس سے کوئی شے فرار نہیں ہو سکتی۔ بلیک ہول کی موجودگی کی شہادت مختلف ہیئتی (Astronomical) مشاہدات سے ملتی ہے، خاص طور پر ایکس رے اشعاعی مشاہدات۔ بلیک ہولز کچھ انتہائی بڑے ستاروں کی زندگی کے دھماکہ خیز اختتام سے وجود میں آتے ہیں۔ کچھ بلیک ہولز ہمارے سورج سے اربوں گنا بڑے ہو سکتے ہیں۔ سائنسدان وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جانے والے یہ بلیک ہولز کیسے بنے۔
یہ وہ دیو ہیکل بلیک ہول ہے جو ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں ہے اور سائنسدانوں نے اب پہلی مرتبہ اس کی تصویر جاری کی ہے،جس کو سیجیٹیریئس اے(Sagittarius A) کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے 40 لاکھ گنا زیادہ حجم رکھتا ہے۔ اس میں بیچ میں موجود سیاہ حصہ بلیک ہول ہے اور اس کے آس پاس انتہائی گرم گیسوں سے منعکس والی روشنی ہے۔ یہ گیسز بے پناہ کششِ ثقل کی وجہ سے گردش میں ہیں۔ یہ دائرہ ہمارے سورج کے گرد سیارہ عطارد (مرکری) کے مدار جتنا وسیع ہے، یعنی تقریباً چھ کروڑ کلومیٹر ہے۔
یہ ہماری زمین سے 26 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ چناں چہ ہمیں اس سے کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔یہ تصویر ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نامی بین الاقوامی تعاون تنظیم نے لی ہے۔ اس سے پہلے اسی ٹیم نے 2019 میں ایک اور کہکشاں ایم 87 کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی۔ وہ بلیک ہول اس بلیک ہول سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ بڑا اور ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا زیادہ حجم کا حامل ہے۔ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ پراجیکٹ کے یورپی سائنسدان پروفیسر ہائنو فاک کے مطابق یہ نئی تصویر اس لیے خاص ہے، کیوں کہ یہ ہمارے نظام ِشمی میں موجود انتہائی بڑا بلیک ہول ہے۔
نیدرلینڈز کی رادبود یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ان ڈچ جرمن سائنس دان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے اپنے عقبی دالان میں ہی ہے اور اگر آپ بلیک ہولز کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں تو یہی بلیک ہول آپ کو بتائے گا، کیوں کہ بہت آسانی سے اس کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر فلکیات سارہ اساؤن کےمطابق ہمیں کئی عشروں سے ایک ایسے کمپیکٹ آبجیکٹ کے بارے میں معلوم تھا، جو ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود ہے اور جس کا حجم ہمارے سورج سے بھی چالیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ آبجیکٹ بلیک ہول ہے ۔آج ہمارے پاس اس کے تمام ثبوت موجود ہیں۔
زمین سے 26 ہزار نوری سال فاصلے پر واقع یہ بلیک ہول اپنی دوری کے باعث آسمان پر شاید کسی سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا نظر آتا ہے، اس لیے ایسے ہدف کی تصویر کشی کے لیے سائنس دانوں کو عام ٹیلی اسکوپ سے کہیں زیادہ باریک ریزولوشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نیٹ ورک نے اس کے لیے ویری لونگ بیس لائن انٹرفیرومیٹری (وی ایل بی آئی) تیکنیک کا استعمال کیا۔ اس میں کوئی ایک ٹیلی ا سکوپ نہیں استعمال کی گئی بلکہ ایک دوسرے سے بڑے فاصلوں پر موجود آٹھ ریڈیو اینٹیناز کو آپس میں منسلک کیا گیا ہے، تاکہ زمین کے سائز جتنی بڑی ٹیلی اسکوپ جیسے نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
چناں چہ ایونٹ ہورائزن ٹیلی ا سکوپ کو اس سے اتنی ریزولوشن حاصل ہوئی کہ وہ چاند کی سطح پر رکھے ایک ڈونٹ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اٹامک گھڑیوں اور جدید ترین الگورتھمز کی مدد سے سپر کمپیوٹرز نے لاتعداد گھنٹوں تک کئی پیٹابائٹس (ایک پیٹابائٹ میں 10 لاکھ گیگابائٹ ہوتے ہیں) کے ڈیٹا میں سے ایک تصویر بنائی ہے۔ چوں کہ6 بلیک ہول کے اپنے اندر سے کوئی روشنی باہر نہیں آ سکتی۔
چناں چہ ایک سیاہ دھبے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا لیکن اس کے گرد موجود روشن مادّوں کے دائرے (ایکریشن ڈسک) کو دیکھ کر سائنس دانوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بلیک ہول کہاں واقع ہے۔ماہرین کے مطابق اس دائرے میں موجود بے حد گرم گیسز بلیک ہول کے گرد روشنی کی رفتار سے کہیں کم رفتار سے گردش کر رہی ہیں۔ زیادہ روشن حصے ممکنہ طور پر وہ ہیں جہاں مادّہ ہماری طرف آ رہا ہے۔ سائنسدان نئی حاصل شدہ تصویر کا بلیک ہولز سے متعلق ہماری فزکس کی موجودہ معلومات سے موازنہ کر رہے ہیں۔ ابھی تک تو یہ مکمل طور پر البرٹ آئن اسٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت (تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی) کے فارمولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز میں ایک انتہائی بڑا بلیک ہول موجود ہے، کیوںکہ اس کے بغیر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ مرکز میں موجود ستاروں کو 24 ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ تک کی رفتار فراہم کرنے والی کششِ ثقل کا منبع کیا ہے۔ ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے مرکز سے کافی دور ہے اور اس کی رفتار اس سے کہیں کم یعنی 230 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، مگر اس کے باوجود جب ماہرینِ فلکیات رائنہارڈ جینزل اور اینڈریا غیز کو 2020 میں سیجیٹیریئس اے پر ان کے کام کے اعتراف میں فزکس کا نوبیل انعام دیا گیا تو اس موقعے پر کہا گیا کہ یہ بلیک ہول نہیں بلکہ ایک انتہائی بڑا اور کثیف جسم ہے۔
رواں سال اگست میں نئی اور جدید ترین خلائی دوربین جیمز ویب ا سپیس ٹیلی ا سکوپ سیجیٹیریئس اےکا مشاہدہ کرے گی۔اس ٹیلی اسکوپ کی ریزولوشن اتنی تو نہیں کہ یہ اس بلیک ہول اور اس کے گرد موجود مادّوں کے دائرے کی براہِ راست تصویر کشی کر سکے، مگر اس کے بے انتہا حساس انفراریڈ آلات بلیک ہول کے آس پاس کے ماحول کے مطالعے کے لیے ہمیں نئی صلاحیت فراہم کریں گے۔ اس ٹیلی اسکوپ کی بدولت ماہرینِ فلکیات بلیک ہولز کے پاس سے گزرنے والے سیکڑوں ستاروں کی فزکس کا تفصیل سے مطالعہ کر سکیں گے۔وہ یہ بھی تلاش کریں گے کہ کیا اس خطے میں ستاروں کے سائز کے کوئی بلیک ہولز موجود ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس تاریک مادّے کے ٹکڑوں کو تلاش کرنے کی بھی کوشش کریں گے جسے ہم اب تک دیکھ نہیں پائے ہیں۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مطالعے کی سر براہ ،یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کی پروفیسر جیسیکالو کا کہنا ہے کہ جب بھی ہمیں کوئی نیا آلہ ملتا ہے جو کائنات کی مزید باریک بینی سے تصاویر لے سکتا ہے تو ہم اس کی پہلی آزمائش ہماری کہکشاں کے مرکز پر کرتے ہیں اور ہمیں لامحالہ کچھ حیرت انگیز چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اور ایسی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔