دونوں درست ہیں ۔ یہ دونوں عربی کے لفظ ہیں اور مختلف مفہوم رکھتے ہیں۔ خِیام، یعنی خے (خ)کے نیچے زیر اور بغیر تشدید کے، جمع ہے خیمہ کی۔ گویا واحد تو خیمہ ہے اوراس کی جمع خِیام ہے یعنی بہت سے خیمے۔ دراصل عربی میں جمع کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اور خِیام کا وزن فِعال ہے۔
لفظ ’’خِیام‘‘(یعنی خیمے) قرآن شریف میں سورہ رحمٰن میں بھی آیا ہے۔ سورہ رحمٰن کی آیت ۷۲ میں حور اور خِیام کا ذکر ہے۔ اس خیال کو اقبال نے بال جبریل کے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے :
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خِیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
غالب کا شعر ہے :
تھی جنوری مہینے کی تاریخ تیرھویں
اِستادہ ہوگئے لبِ دریا پہ جب خِیام
یعنی دریا کے کنارے پر خیمے لگ گئے۔ ان اشعار میں اگر خِیام کو خَیّام یعنی تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو نہ صرف یہ کہ مفہوم خبط ہوجائے گا بلکہ مصرعے بھی بحر سے خارج ہوجائیں گے۔ خِیام جس صرفی وزن پر ہے، یعنی فِعال، اس وزن پر بننے والے ہر لفظ کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہوگا ، جیسے:
واحد جمع واحد جمع
خیمہ خِیام بلد (یعنی ملک یا شہر) بِلاد
جبل(یعنی پہاڑ) جِبال خصلت خِصال
جہت جِہات روضہ (یعنی باغ) رِیاض
کریم کِرام صوم (یعنی روزہ) صِیام
اور ان الفاظ میں سے کسی میں بھی تشدید نہیں ہے۔ اسی لیے لفظ صوم (یعنی روزہ)کی جمع کے طور پر صیّام (تشدید کے ساتھ) روزہ کی جمع کے طور پر بولنا اور لکھنا غلط ہے۔ اخبارات میں اکثر رمضان کے مہینے کو ما ہِ صِیام لکھا جاتا ہے یعنی روزوں کا مہینا ، لیکن اس پر تشدید لگا دی جاتی ہے حالانکہ خیمہ کی جمع خِیام بر وزنِ فِعال میں تشدید نہیں ہے اور صِیام بھی اسی وزن پر ہے اور اس لیے اس میں بھی پہلے حرف یعنی صاد (ص) پر زبر نہیں زیر ہے اور تشدید نہیں ہے۔
جبکہ خَیّام( یعنی خے (خ)پر زبر اور’’ی‘‘ پر تشدید کے ساتھ) کا مطلب ہے خیمے بنانے والا۔ اور یہ فارسی کے ایک مشہور شاعر اور ریاضی داں کے نام کا حصہ بھی ہے جسے عمر خیّا م کے نام سے دنیا جانتی ہے۔اس کی رباعیات مشہور ہیں۔ عمر خَیّام کا اصل نام غیاث الدین ابوالفتح عمر ابنِ ابراہیم نیشا پوری تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس کے آباء اوجداد کا پیشہ خیمے بنانا تھا اور اسی لیے اس کے والد کو ابراہیم الخیّام کہتے تھے ، تاہم اس کی بات کی تصدیق پوری طرح نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ شاعر خَیّام کے نام سے مشہور ہوا اور ممکن ہے کہ اس کی وجہ اس کا خاندانی پیشہ ہی ہو۔
یہاں خَیّام کے وزن کی بھی بات کرلی جائے۔ یہ فَعّال کے وزن پر ہے اوریہ وزن عربی میں صفت ِ مبالغہ کے لیے آتا ہے۔ فَعّال میں پہلے حرف پر زبر اور دوسرے حرف پر تشدید ہے لہٰذا اس صرفی وزن پر جتنے بھی الفاظ بنیں گے ان میں پہلے حرف پر زبر ہوگا اور دوسرے حرف پر تشدید ہوگی اور اس میں کسی صفت کے زیادہ ہونے پر زور دینا مقصود ہوگا،مثلاً:
لفظ معنی
حَسّاس بہت حِس والا، بہت محسوس کرنے والا
حَلّاج بہت رُوئی دُھننے والا، دھنیا
حَمّاد بہت حمد کرنے والا
سَفّاک بہت خون بہانے والا،بہت ظالم
دَجّال بہت جھوٹ بولنے اور فریب کرنے والا
جَبّار بہت جبر کرنے والا
مختصراً یہ کہ خِیام اور خَیّام میں بہت فرق ہے۔
چلتے چلتے یہ بھی یاد دلادیں کہ جن اوزان کا اوپر ذکر ہوا ہے یہ صرفی اوزان ہیں اور شاعری میں جو وزن مستعمل ہیں وہ عروضی اوزان ہیں اور دونوں میں فرق ہوتا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی