• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں اس مسئلے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں کہ کیا میں سود تو نہیں کھا رہا، میرے علاقے میں لوگ جانوروں کا کاروبار کرتے ہیں، انہیں میں نے کاروبار کے لیے 5 لاکھ روپیہ دیا ہوا ہے۔ ان سے یہ طے ہے کہ جب وہ اس پیسے سے جانوروں کی خریدوفروخت کرتے ہیں اور انہیں نفع پہنچتا ہے تو وہ لوگ 2 حصے خود ر کھتے ہیں اور تیسرا حصہ مجھے دیتے ہیں اور ایک بات ان سے یہ بھی مقرر ہے کہ کا روبار میں نفع ہو یا نقصان، میں 5لاکھ پورے لینے کا پابند ہوں گا اور ان پیسوں سے لیا ہوا جانور مر جائے تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، مگر میرے 5 لاکھ پورے دینے ہوں گے۔ اب اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کاروبار سود ہےکہ نہیں؟

جواب: کاروبار کا مذکورہ طریقہ شریعت کے مطابق نہیں ہے، کیوں کہ اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان، ہرحال میں سائل کو پانچ لاکھ پورے لینے کا حق ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ ان پیسوں سے لیا ہوا جانور مرجائے تو اس کا ذمہ دار سائل نہیں ہوگا۔ یہ دونوں باتیں شریعت کے خلاف ہیں، اس لیے ان شرائط کے ساتھ کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔

ہاں اگر اس طرح کرلیا جائے کہ اگر نقصان ہو تو پہلے دونوں فریق کے لیے ہوئے نفع سے اسے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے نقصان پورا ہوگیا تو بہتر، ورنہ سائل کے اصل سرمائے سے منہا کیا جائے گا، اسی طرح اگر ان پیسوں سے لیا ہوا جانور مرجائے گا تو اسے بھی پہلے دونوں فریق کے، لیے ہوئے نفع سے پورا کیا جائے گا، ورنہ اصل سرمایہ سے منہا ہوگا۔ اس طرح شرائط کو درست کرنے کے بعد نفع لینا صحیح ہوگا، ورنہ وہ نفع سود سے پاک نہیں ہوگا۔