روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن اسرائیل نے ستمبر کے بعد کسی بھی وقت ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے اور تباہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ اسرائیل ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس حملے لیے بحیرہ روم پر باقاعدہ مشقوں کا سلسلہ چند ہفتوں سے جاری ہے۔ اسرائیل کے نائب وزیراعظم بنجمن گانٹس نے کہا ہے کہ ایران نے اپنے ایٹمی مواد اور یورینیم کو اتنا تیار کرلیا ہے کہ وہ بم بنانے سے صرف چند ہی ہفتے دور ہے اور اسرائیل اسے یہ نہیں کرنے دے گا کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر ایران یہ صلاحیت حاصل کرلیتا ہے تو اس کا پہلا نشانہ اسرائیل ہی ہوگا، ایران کی حزب اللہ کو جو مدد حاصل ہے وہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کے بعد اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کردے گی، اسرائیل کے وزیراعظم نے اس سلسلے میں انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(IAEA)کو بھی چوکس کردیا ہے کہ وہ اپنے حق دفاع میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے اقدامات کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ IAEAکے حکام نے کہا ہے کہ ایران اپنے ایٹمی اثاثوں کے معائنے سے گریزاں ہے، ایران نے ایٹمی تنصیبات اور اس کا پورانظام زیر زمین اور بہت خفیہ رکھا ہوا ہے اور وہاں سے کسی قسم کی معلومات حاصل کرنا بہت مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو زیر زمین تنصیبات تک رسائی کے لیے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے جوکہ فضائی اور زمینی دونوں حملوں کو ملاکر ٹریننگ کی جارہی ہے۔( IAEA) کا کہنا ہے کہ2015ء کے ایران کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کے باوجود ایران نے تمام معاملات صیغہ راز میں رکھے ہوئے ہیں، ایران اس سب کچھ کے باوجود مغرب اور اسرائیل کے کسی دبائو میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ تمام تر عائد پابندیوں کا بڑی بہادری سے سامنا بھی کررہا ہے اور مقابلہ بھی، اسرائیل اس حوالے سے اس وقت انڈیا کو بھی اعتماد میں لینا چاہتا ہے، اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر خارجہ انڈیا کے دورے پر تھا، اس وقت انڈین حکومت اسرائیل کے مابین اینٹی مسلم سرگرمیوں کا اشتراک عمل بھی موجود ہے۔ انڈیا کی کشمیر میں کارروائیاں اور اسرائیل کی فلسطین میں جارحیت مشترکہ راہ عمل کو مضبوط کرتی ہے۔ دوسری طرف انڈیا، اسرائیل سے ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا گاہک ہے، دونوں میں اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، یہ سب اس لیے بھی ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو پاکستان کے ردعمل پر نظر رکھنے کے لیے انڈیا کو اعتماد میں لیا جارہا ہے، شام کے اندر ایران کی مدد بھی اسرائیل کے لیے بہت باعث تکلیف ہے، اوپر بیان کی گئی یہ تمام ایک طرف کی اسٹوری ہے جو اسرائیل نے عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیلا دی ہے، دوسری طرف ایران اس لیے بھی کسی مغربی دبائو میں آنے کو تیار نہیں ، وہ سمجھتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے چھوٹے ممالک کے لیے دوہرے معیار ہیں اور وہ اسرائیل کی سپورٹ کرکے خطے میں چوکیدار کو مضبوط کررہا ہے بلکہ دنیا میں موجود ہر طرح کے مہلک ترین ہتھیار جوکہ امریکہ اور یورپ کے پاس ہیں، ان تک اسرائیل کی بھی دسترس ہے جب کہ جنگی ٹیکنالوجی میں اسرائیل خود بھی کئی انسان دشمن اور تباہ کن ہتھیاروں میں مرکزی کردار رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے اصل مسئلہ ایران کو روکنے کے ساتھ ساتھ اسلحے کی منڈی میں گرمی اور جنبش پیدا کرنا بھی ہے کیونکہ اسلحے کا کاروبار سرمایہ دارانہ دنیا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، گوکہ دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کی پرانی اپروچ اب فیل ہورہی ہے اور اس مقصد کے لیے ماڈلز پر کام ہورہا ہے جس میں چین اس وقت قیادتی کردار ادا کررہا ہے اور وہ فوجی کنٹرول کے حق میں نہیں ہے بلکہ تجارتی کنٹرول کے ذریعے دنیا پر اپنا سکہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس لحاظ سے ایران پر چین کسی قسم کی مغربی پشت پناہی میں ہونے والی جارحیت کو نہ صرف اپنے لیے خطرہ محسوس کرے گا بلکہ ایسا ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔