• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امتیاز متین

’’کلاس! آج میں آپ کو ایک دلچسپ کام دوں گی ،جسے کرنے میں آپ کو یقینًا مزہ آئے گا۔‘‘ مس رابعہ نے کہا۔

بچوں نے ٹیچر کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”کیسا دلچسپ کام ؟“

معاشرتی علوم اور تاریخ کی کتابوں میں آپ نے بہت سے ہیروز کے متعلق پڑھا ہوگا لیکن آج آپ اپنے ان ہیروز کے متعلق اپنی اپنی کہانیاں لکھیں گے، جن کے بارے میں ہماری کتابوں میں نہیں لکھا یعنی آج آپ اپنے ابو ، پاپا یا بابا کے متعلق کہانی لکھیں گے۔‘‘ مس رابعہ نے کہا۔

”کیا ہمیں یہ ابھی لکھنا ہوگا؟“ سلمیٰ نے پوچھا لیکن دانیہ نے کچھ پوچھے بغیر لکھنا شروع کر دیا، دوسرے بچوں کے برعکس وہ اپنی کہانی لکھنے کی لیے بے چین ہو رہی تھی۔

مس! ہمیں یہ کہانی کتنے الفاظ کی لکھنا ہوگی ؟“ پرویز نے پوچھا۔

” کم ازکم ایک صفحے کی ہونی چاہیے۔ لیکن اب سوالات بہت ہو چکے ،کل میں اس بارے میں پوچھوں گی۔“ مس رابعہ نے میز پر سے رجسٹر اُٹھاتے ہوئے کہا۔

سارے بچے اس موضوع پر باتیں کرتے ہوئے کلاس سے باہر نکلے۔

”مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہمیں اس قسم کا مضمون بھی لکھنا پڑے گا۔“ بلال نے کہا

”ہاں ! لیکن میرے لیے اپنے پاپا کے بارے میں لکھنا بہت آسان ہے کیونکہ میرے پاپا بہت امیر وکیل ہیں۔“ کرن نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”تو ! اس میں ایسی کیا بات ہے؟ میرے ابا فائر بریگیڈ میں ہیں۔ وہ آگ بجھاتے اور لوگوں کی جان بچاتے ہیں۔“ رشید نے کرن کی بات کے جواب میں کہا۔

”یہ تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ! میرے ڈیڈی کرکٹر ہیں وہ باہر ملکوں میں کھیلنے جاتے ہیں ، ٹرافی اور تمغے جیت کر لاتے ہیں۔ میرے ڈیڈی واقعی ملک بھر کے ہیرو ہیں۔“ بلال نے فخر سے سر بلند کرتے ہوئے کہا۔

”تم کیا لکھو گی دانیہ؟“ کرن نے پوچھا۔

کرن کا سوال سن کر دانیہ نے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ شروع میں تو وہ خوش تھی لیکن اپنے دوستوں کی باتیں سن کر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا لکھے؟

”معلوم نہیں میں کیا لکھوں گی!“ دانیہ نے کرن کو جواب دیتے ہوئے کہا۔

اسی رات دانیہ جب اپنے گھر میں ہوم ورک کرنے بیٹھی تو وہ کافی دیر تک اپنے سامنے کاپی کھولے بیٹھی یہ سوچتی رہی کہ وہ اپنے بابا کے بارے میں کیا لکھے۔

”کیا لکھ رہی ہو بیٹا؟“ دانیہ کے بابا نے پیار سے پوچھا۔

”ایک کہانی۔“ دانیہ نے آہستگی سے جواب دیا۔

”کیا کہانی لکھنے میں، میں تمہاری مدد کر وں ؟“ دانیہ کے بابا نے پوچھا۔

”نہیں بابا، میرا خیال ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا لکھنا ہے۔“ دانیہ نے کہا۔

دانیہ کے بابا نے چند منٹ اس کے پاس بیٹھ کر اسکول کے بارے میں باتیں کیں اور پھر اپنے کمرےمیں چلے گئے۔ دانیہ کچھ دیر اپنی کرسی پر بیٹھی کچھ سوچتی رہی اور پھر آہستہ آہستہ لکھنا شروع کر دیا۔

اگلے دن اسکول میں جب مس رابعہ کا پیریڈ شروع ہوا تو کلاس کے تمام بچے اپنی اپنی کہانیاں پڑھنے کےلیے تیار تھے۔ لیکن دانیہ اپنی کرسی میں ذرا نیچے کھسک گئی تاکہ مس رابعہ کی نظر اس پر نہ پڑے اور وہ کلاس میں اپنی کہانی پڑھ کر سنانے سے بچ جائے۔ لیکن مس رابعہ باری باری ہر ایک بچے کی کہانیاں سن رہی تھیں۔ 

پہلے انہوں نے بلال اور پھر کرن سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائیں ۔ کرن کے بعد مس رابعہ نے دانیہ کا نام پکارا۔ اپنا نام سن کر دانیہ کرسی سے اُٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بلیک بورڈ کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی اور گہرا سانس لے کر کلاس پر نظر دوڑائی اور پھر آہستہ آہستہ اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا۔

”میرے بابا نہ تو بہت امیر ہیں اور نہ ہی بہت مشہور اور نہ ہی وہ لوگوں کی زندگی بچاتے ہیں لیکن وہ میرے ہیرو ہیں کیونکہ وہ میرا لنچ خود تیار کرتے ہیں۔ جس میں وہ میری پسندیدہ چاکلیٹ اور پڈنگ ڈالنا کبھی نہیں بھولتے۔ میرا ہوم ورک کرانے میں میری مدد کرتے ہیں کیونکہ انہیں سب کچھ آتا ہے۔ وہ مجھے سیر کرانے کی لیے لے جاتے ہیں۔ آج کل وہ مجھے سائیکل چلانا بھی سکھا رہے ہیں۔ 

ہم دونوں لائبریری جاتے ہیں، کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کو لطیفے اور جن بھوتوں کی ڈراؤنی کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ بابا اور میں مل کر کچن میں مزیدار چیزیں بناتے ہیں، کبھی کبھی مجھے آئس کریم فالودہ بھی بنا کر دیتے ہیں جس میں بہت سارے فروٹس، ڈرائی فروٹس، دودھ، نوڈلز اور جیلی بھی ہوتی ہے۔ اگر میں کبھی کھیلتے کھیلتے گر کر زخمی ہو جاتی ہوں تو وہ میری چوٹ پر بینڈج لگاتے ہیں، مجھے گلے لگا کر میرے آنسو پونچھتے ہیں۔

رات کو بستر پر لٹا کر مجھے بتاتے ہیں کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میرے بابا دوسرے بچوں پاپا کی طرح کے کوئی بڑا کام نہ کرتے ہوں لیکن میں اپنے بابا سے بہت پیار کرتی ہوں اور وہ ہمیشہ میرے ہیرو رہیں گے۔“

دانیہ نے اپنا مضمون پڑھ کر ہاتھ نیچے کر لیے ۔ کلاس میں خاموشی چھائی ہوئی تھی اور ہر بچہ پوری توجہ سے دانیہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر بلال اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ”زبردست“ بلال کے منہ سے بے اختیار نکلا، اس کے ساتھ ہی اس نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ دانیہ کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب کلاس کے سارے بچوں نے اپنی سیٹوں سے اٹھ کر تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ 

تالیوں کے شور میں اسے یہ جملے بھی سنائی دیئے ”تمہارے بابا بہت زبردست ہیں۔“ اچھی کہانی لکھی ہے ”کاش میرے ابو کے پاس بھی میرے لیے اتنا ہی وقت ہوتا۔ ”دانیہ تم نے بہت خوبصورت لکھا ہے۔“ مس رابعہ نے کہا، تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہاری زندگی میں اتنا زبردست ہیرو ہے۔ مس رابعہ کی بات سن کر دانیہ مسکرائی کیونکہ اس کے بابا ہی اس کے سچے ہیرو تھے۔