• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا ٹیم میں صرف امام الحق اور بابراعظم ہی دو بیٹسمین ہیں؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لئے اگلا ڈیڑھ سال بہت مصروف اور چیلنجنگ ہوگا۔پاکستان کو ایشیا کپ، ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ اور اگلے سال بھارت میں ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا ہے۔ بابراعظم کہتے ہیں کہ اکتوبر میں ہونے والے ٹی20 ورلڈکپ اور اگلے سال بھارت میں شیڈول 50 اوورز کے عالمی ایونٹس میں پاکستان کو کامیابی نہ دلواسکا تو اس فارم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب کسی ٹیم کا کپتان انفرادی کارکردگی کے بجائے ٹیم کی جیت کا سوچ رہا ہو تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کپتان بڑے ٹورنامنٹ کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

بابر اعظم کی کپتانی میں ابھی شائقین ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کی کارکردگی کو نہیں بھول سکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ٹیم کا اتحاد ڈریسنگ روم سے شروع ہوتا ہے واقعی اس وقت ٹیم میں اتحاد بہت زیادہ ہے اور ہر کھلاڑی دوسرے کو سپورٹ کررہا ہے۔ امید ہے کہ پاکستانی ٹیم بڑے ٹورنامنٹ میں توقعات پوری کرے گی۔ پاکستانی ٹیم اس جیت کے بعد آئی سی سی ورلڈ کپ سپر لیگ میں 15 میں سے 9 میچ جیت کر 90 پوائنٹس کے ساتھ اب چوتھے نمبر پر ہے۔ ویسٹ انڈیز کا نمبر اب پانچواں ہے۔ اس کے 80 پوائنٹس ہیں۔

 اس سیریز کے بعد سپر لیگ میں پاکستانی ٹیم کو ہالینڈ، نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف سیریز کھیلنی ہیں اور بابر اعظم کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ سپر لیگ میں شامل تیرہ ٹیموں میں سے آٹھ ہی نے براہ راست ورلڈ کپ میں جگہ بنانی ہے۔ اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ پاکستان کو براہ راست ورلڈ کپ میں انٹری مل جائے گی۔ پاکستانی ٹیم نے اگرچہ آئی سی سی ورلڈ کپ سپر لیگ میں پانچ میں سے یہ چوتھی سیریز جیتی ہے لیکن پچھلی جیتی گئی تینوں سیریز میں اس نے ایک ایک میچ بھی گنوایا ہے، لہذا اب بابر اعظم کی ٹیم نے کلین سوئپ کرکے30 پوائنٹس حاصل کرلیے ہیں۔

ویسٹ انڈیز کی سیریز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی غیر معمولی رہی۔پاکستان نے پہلا ون ڈے بابر اعظم کی سنچری کی بدولت پانچ وکٹ سے جیتا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں 120 رنز کی کامیابی حاصل کی اس میچ میں لیفٹ آرم ا سپنر محمد نواز زیادہ مہلک ثابت ہوئے انھوں نے برینڈن کنگ کو صفر، بروکس کو 42 اور روومن پاول کو 10 اور کپتان نکولس پورن کو 25 رنز پر پویلین بھیج کر مہمان ٹیم کے لیے واپسی کا کوئی بھی راستہ کھلا نہ رہنے دیا۔ شاداب خان کی میچ وننگ آل راونڈ کارکردگی کے باعث پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرا ون ڈے انٹر نیشنل ڈک ورتھ لوئیس سسٹم پربآسانی53 رنز سے جیت لیا۔

بیٹنگ کےبعد شاداب خان نے بولنگ میں62رنز دے کر چار کٹ حاصل کئے اور مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کیا۔جبکہ سیریز میں199رنز بنانے والے امام الحق کو پلیئر آف دی سیریز قرار دیا گیا۔امام الحق نے کارکردگی اس لحاظ سے غیر معمولی رہی کہ انہوں نے سات مسلسل نصف سنچریاں بنائیں۔ کسی بڑے کھلاڑی کا رشتے دار ہونا کوئی برائی نہیں ہے امام الحق پر ماہرین یہ الزام لگاتے رہے کہ وہ سفارشی ہیں لیکن انہوں نے اپنے ناقدین کو اپنی کارکردگی سے خاموش کیا۔پاکستان ٹیم کی مسلسل اچھی کارکردگی کا کریڈٹ بابر اعظم کو بھی جاتا ہے وہ کپتان بن کر فرنٹ سے لیڈ کررہے ہیں۔

بیٹنگ میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے پھر کپتانی میں بھی وہ ٹیم کو فتح دلوارہے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے سیریز میں کلین سوئپ کے بعد پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ون ڈے رینکنگ میں بھارت سے آگے نکل گیا ہے۔ بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم پاکستان 106 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر آگئی ہے، بھارتی ٹیم ایک پوائنٹ کے فرق سے پانچویں پوزیشن پر چلی گئی۔

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف چھٹی بار سیریز میں کلین سوئپ مکمل کیااور بابر کی کپتانی میں چوتھی ون ڈے سیریز اپنے نام کی۔اس سے قبل پاکستان نے جنوبی افریقا، زمبابوے اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتی تھی۔پاکستان نے اس سے قبل ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک سیریز ویسٹ انڈیز،ایک کنیڈا، دو متحدہ عرب امارات اور ایک پاکستان میں تمام میچ جیتے تھے۔ ملتان کے گرم موسم میں شائقین نے منظم انداز میں تینوں میچ دیکھے اور چیئرمین رمیز راجا نے ملتان کے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انگلینڈ سمیت مزید بڑی ٹیموں کو ملتان لائیں گے۔

سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مڈل آرڈر بیٹنگ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں دوسری مرتبہ ایکسپوز ہوئی لیکن شاداب خان نے لاج رکھ لی۔ البتہ یہ سوال ضرور اہمیت اختیار کرگیا کہ کیا ٹیم میں صرف امام الحق اور بابراعظم ہی دو بیٹسمین ہیں؟ مڈل آرڈر بیٹنگ کہاں ہے؟ شاداب خان نے اپنے ون ڈے کیریئر کی بہترین اننگز کھیلتے ہوئے 86 رنز اسکور کیے۔ 

جواب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 38 ویں اوور میں 216 بنا کر آؤٹ ہوگئی اور اسے 53 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیم کو مشکلات سے نکالنے والی 86 رنز کی شاندار اننگز اور پھر چار وکٹوں کی آل راؤنڈ کارکردگی کے بعد شاداب خان کے علاوہ اور کون مین آف دی میچ ہوسکتا تھا۔ پاکستانی ٹیم ایک اور سیریز جیت گئی لیکن ان فتوحات سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے مزید محنت کرنا ہوگی کیوں کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید