ایران کے مشہور گرینڈ بازار کے سب سے بزرگ ترین پستہ فروش کی بیٹی مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے والد کا کاروبار سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق 88 سالہ عباس امامی نے 15 سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ پستے بیچنے کا کام شروع کیا تھا اور اُنہیں قطعی طور پر نہیں معلوم تھا کہ یہ کام کب اُن کا کاروبار بن جائے گا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عباس امامی نے کہا کہ ’میرے والد میرے نانا کی گری دار میوے کی دکان میں کام کرتے تھے، میں دن میں اپنے والد کی مدد کرتا تھا اور رات کو پڑھائی کرتا تھا جبکہ مجھے تجارت کے راز جاننے میں ایک دہائی لگ گئی‘۔
1975 میں پستے کا کاروبار شروع کرنے والے عباس امامی شہر میں پستے کے سب سے پرانے تاجر ہیں اور اب وہ اپنا کاروبار اپنی 50 سالہ بیٹی مرجان کو سونپ رہے ہیں۔
اپنے کاروبار کے حوالے سے عباس امامی نے کہا کہ ’ہم پانچ قسم کے پستے خریدتے ہیں، وہ ظاہری شکل، ذائقہ، سائز اور معیار کی وجہ سے قیمت میں مختلف ہیں‘۔
عباس امامی کے مطابق، پستے کی تجارت میں 1950 کی دہائی سے کافی ترقی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اُس وقت پستے کی تجارت امیروں کی ملکیت تھی، جب میں نوعمر تھا، تو صرف چار ہول سیل ٹریڈنگ ہاؤسز تھے، یہ 1950 کی دہائی میں زیادہ قابل رسائی ہو گیا تھا، آبادی کا ایک حصہ امیر ہوتا گیا اور یوں گاہکوں میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ میرے پاس اب بھی 100 کے قریب کلائنٹ ہیں‘۔
عباس امامی نے کہا کہ ’70 سال سے زیادہ کام کرنے کے باوجود بھی وہ ابھی تک اپنی بیٹی کو مکمل طور پر کاروبار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ کوئی آسان تجارت نہیں ہے، لیکن وہ سیکھے گی‘۔