• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منکسر اور عاجزی پسند لوگ دوسروں کی عزت کرتے ہیں۔ وہ گھمنڈی نہیں ہوتے اور نا ہی دوسروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ ایک عاجزی پسند شخص دوسروں کی بھلائی میں دلچسپی رکھتا اور اُن سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ عجز ایک کمزوری ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ یہ خوبی ایک شخص کو کمزور نہیں بلکہ دلیر بناتی ہے کیونکہ اس خوبی کی وجہ سے ایک شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کون سی خامیاں ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہر کام کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔

عاجزی کی خوبی اتنی اہم کیوں ہے؟

عاجزی کی خوبی پیدا کرنے سے بچوں کو آگے چل کر بہت فائدے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ خاکسار بننا سیکھے گا تو اسے نا صرف وقتِ رواں میں بلکہ زندگی میں آگے چل کر بھی بہت فائدہ ہوگا، مثلاً نوکری کی تلاش کرتے وقت۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر لیونارڈ ساکس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’’جو نوجوان خود کو کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ کچھ کاموں کو کرنا ان کے بس میں نہیں ہے، وہ نوکری کے لیے انٹرویو دیتے وقت دوسروں پر اچھا تاثر قائم نہیں کرتے۔ لیکن جو نوجوان دل سے اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انٹرویو لینے والے کی نظر میں کون سی باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، انہیں اکثر نوکری مل جاتی ہے‘‘۔

بچوں کو انکسار اور عاجزی پسند بننا کیسے سکھائیں؟

٭ بچوں کی مدد کریں کہ وہ خود کو زیادہ اہم نہ سمجھیں۔ انھیں یہ بات سمجھائیں کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ اہم یا ناگزیر سمجھتا ہے، حالانکہ وہ اہم نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔

٭ اپنے بچے کے دل میں ایسی امیدیں نہ ڈالیں جو پوری نہیں ہو سکتیں۔ آپ کا بچہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے لیے ایسے منصوبے بناتا ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ مطلوبہ محنت بھی کرتا ہے۔

٭ اپنے بچے کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے عاجزی پسند بنیں تو بِلاوجہ ان کی تعریفیں مت کریں بلکہ جب وہ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو ان کی تعریف کریں۔

٭ اپنے بچے کو بتائیں کہ وہ کس حد تک سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے۔ اکثر سوشل میڈیا پر لوگ اپنی بڑائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ دوسروں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنے اچھے ہیں اور انہوں نے کتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے سے بچے عاجز بننے کی بجائے مغرور بن سکتے ہیں۔

٭ اپنے بچے کو سمجھائیں کہ غلطی کرنے پر وہ جلد سے جلد معافی مانگے۔ اگر آپ کا بچہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے اس کی غلطی کا احساس دلائیں اور اسے سمجھائیں کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے۔

بچوں میں شکرگزاری کا جذبہ پیدا کریں 

اپنے بچے کو خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے لیے شکرگزاری کرنا سکھائیں۔ اسے یہ سکھائیں کہ اسے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے لیے اس کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے زندہ رہنے کے لیے بڑی ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں سانس لینے کے لیے ہوا، پینے کے لیے پانی اور خوراک کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کی مثالوں سے اپنے بچے کے دل میں خالق کی بنائی ہوئی چیزوں کی اہمیت اور قدروقیمت اُجاگر کریں۔

بچوں کو دوسروں کی قدر کرنا سکھائیں 

بچے کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ ہر کوئی اس سے کسی نہ کسی معاملے میں بہتر ہے۔ لہٰذا وہ ان کی صلاحیتوں پر ان سے جلنے کی بجائے ان سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اپنے بچے کو دوسروں کا شکریہ ادا کرنا سکھائیں۔ اسے یہ سکھائیں کہ صرف مُنہ سے دوسروں کو شکریہ کہنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے دل سے بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ دوسروں کے شکرگزار ہونے سے ہم خاکسار رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔

بچوں کو دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں 

صرف اپنے فائدے کا ہی نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچیں۔ اپنے بچے کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کا کہیں۔ اگر آپ اپنے بچے سے یہ کہیں گے کہ اسے گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے تو ایک طرح سے آپ اس کے ذہن میں یہ بات ڈال رہے ہوں گے کہ، ’یہ کام تمہارے کرنے کے لائق نہیں ہیں‘۔ اپنے بچے کو سکھائیں کہ گھر کے کام کاج کرنا، کھیلنے کودنے سے زیادہ ضروری ہیں۔ اسے اس بات کی اہمیت سمجھائیں کہ اگر وہ گھر کے کام کرے گا تو اس سے دوسرے اس کے شکرگزار ہوں گے اور اس کی عزت کریں گے۔

اپنے بچے کو احساس دِلائیں کہ دوسروں کی مدد کرنا کتنی اچھی بات ہوتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے والے بچے سمجھدار بنتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچے سے کہیں کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں سوچے جن کی وہ مدد کر سکتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ اس بارے میں بات کریں کہ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ اور جب وہ دوسروں کی مدد کرتا ہے تو اسے شاباش دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔