• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرائمری کی سطح کے طالب علم بھی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ 1906میں ڈھاکا میں بنی اور اب ڈھاکا پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے، یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ مسلم لیگ کا ہیڈکوارٹر لکھنؤ میں تھا اور لکھنؤ ماضی ہی کی طرح آج بھی ہندوستان کاحصہ ہے۔ گویا مسلم لیگ کی جہاں پیدائش ہوئی اور جہاں وہ نوخیزی سے جوانی تک جا پہنچی، وہ دونوں  مقامات پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، اسی طرح 1906میں معرض وجود میں آنے والی مسلم لیگ کا بھی اب پاکستان میں نام ونشان نہیں ہے۔ ہوا یہ تھاکہ 1937اور 1946کے انتخابات میں مسلم لیگ کو موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں سے پذیرائی نہیں  ملی تھی، قیام پاکستان کےقریب پاکستانی فیوڈل لارڈز، نوابوں اور خان بہادروں نے قائد اعظم کی مسلم لیگ میں جوق در جوق شمولیت اختیارکر لی اور اس طرح سول وفوجی نوکرشاہی سے ملکر بعدازاں اقتدارپر قبضہ کرلیا اور آج تک ان کی نسلیں پاکستان پر حکمرانی کررہی ہیں ،قائداعظم محمد علی جناح نے غالباً اسی سبب کہا تھا کہ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ یہ کھوٹے سکے ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے غریب عوام کی قسمت کھو ٹی کرکے رکھ دی ہے۔ خیر ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کی مسلم لیگ آج عنقا ہے اور جو مسلم لیگیں آج مختلف ناموں سے معروف ہیں، یہ 1962ء میں ٹوٹنے والی مسلم لیگ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ اس وقت سے مسلم لیگ مختلف حصوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور آج بھی انواع و اقسام کی مسلم لیگیں موجود ہیں، ان میں مگر ن لیگ کے نام سے جو مسلم لیگ ہے، عوام اُسی کو اصل سمجھتے ہیں، یہ جماعت میاں نواز شریف کی زیر قیادت 1988ء سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسلم لیگ کونئی جہت دی، اگرچہ ابتدا میں یہ مسلم لیگ بھی اقتدار پرستی کے حوالے سے روایتی جانی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ سیاسی نشیب وفراز یا پھر میاں صاحب اور مقتدرہ کے مزاج کے فرق نے اسے ماضی کی مسلم لیگوں سے ممتاز کر دیا۔ سب سے بڑی آبادی رکھنے والے صوبے کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوصف اگرچہ ن لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت قراردی جاسکتی ہے لیکن دیگر صوبوں میں اس کی مقبولیت میں اضافہ پرویز مشرف کے دور کے بعد اُس وقت شروع ہوا جب اس جماعت کے قائد نے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف اپنایا، بعدازاں پیپلزپارٹی سے میثاقِ جمہوریت کر کے اس جماعت کی قدر میں مزید اضافہ ہوا، ان دنوں بھی اس جماعت کی ملک بھر میں مقبولیت کی ایک یا پھر شاید بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہے جو بالخصوص میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ کے پرجوش انداز فکروعمل کا مرہونِ منت ہے، تاہم ماضی میں موسم لیگ قراردی جانے والی اس مسلم لیگ کے تمام عہدیداروں اور ارکان اسمبلی نے بھی روایتی سوچ وانداز تبدیل کرتے ہوئے اس بیانیے کو نہ صرف اون کیا بلکہ اس سلسلے میں ن لیگ میں دراڑ ڈالنے والوں کے تمام منصوبے بھی خاک میں ملا دئیے۔ یوں تو مختلف اوقات میں اس جماعت کو کئی آزمائشوں کا سامنا کرناپڑا ان میں میاں صاحب کی جدہ جلاوطنی اور ابتلا کے دیگر ادوار شامل ہیں ،لیکن عمران خان حکومت کے جانے کے بعد حالات و واقعات نے اس جماعت کو ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جو بہت سے خطرات سے پُراور مشکل ترین ہے۔اس وقت مہنگائی کی وجہ سے وہ فضا جو پی ٹی آئی مخالف تھی بڑی تیزی سے پی ٹی آئی کے حق میں تبدیلی ہوتی جارہی ہے، وہی کفن چور والامعاملہ یہاں بھی ہوگیا ہے کہ لوگ کفن چور کو بھول گئے تھے اور اُس کے بیٹے نے چونکہ کفن چور سے بھی زیادہ عوام کی ناک میں دم کررکھا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ خدا بخشے کفن چور کو جو صرف کفن چوری کرتاتھا یہ (نیاوالا) تو کفن چوری کے ساتھ مُردے کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا احوال نامہ ہو بہو اس وقت یہی ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں نہ تو اتنی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور نہ ہی اتنی مہنگائی تھی۔ یہ درست ہے کہ ایسے ہی بحرانی حالات ہوتےہیں جب قیادت کے جوہر کھل کر سامنے آجاتے ہیں لیکن یہاں بظاہر معجزے کے ماسوا کوئی اور تدبیر یا راستہ نظر نہیں آتا۔بہترین موقع وہ تھا کہ عدم اعتماد کے فوری بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا،اس سے جہاں مہنگائی کے الزام سے عمران خان کوبری الذمہ یا اُن کے دور کی مہنگائی کوبھلانے کا موقع میسر نہ آتا وہاں ن لیگ کی وہ مقبولیت جو اُن دنوں تھی وہ عام انتخابات میں کیش ہو جاتی۔ کہا جاتاہے کہ ن لیگ کی پلاننگ یہی تھی لیکن پیپلزپارٹی اور مولاناصاحب نے حکومت سازی کا مشورہ دیا، اب یہ دونوں جماعتیں تو مختلف وجوہ کی بنا پر فائدہ میں ہیں اور مزید کی توقع رکھتی ہیں لیکن مہنگائی کا سارا ملبہ ن لیگ کے سر پرگررہا ہے۔ گویا ن لیگ کو دومحاذوں پر اب اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے، اول معیشت کو سنبھالا دیتے ہوئے مہنگائی پر قابو پانا،دوئم عوام میں عدم اعتماد سے قبل کا اعتماد بحال کرنا۔ دوسراراستہ عام انتخابات کا فوری اعلان کرکے رہی سہی ساکھ کو بچانا ہے، ہر دو صورتوں میں ن لیگ کے پاس پانے سے زیادہ کھونے کے امکانات زیادہ ہیں، دیکھتے ہیں یہ جماعت اس دوراہے سے گزرکر کس طرح خود کو عوام وتاریخ میں منواتی ہے۔

تازہ ترین