• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسقاط حمل، اسلام سے بھی سخت امریکی قانون

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
یوں تو ہمارے یہاں اسقاط حمل کا لفظ بھی ایک ڈھکی چھپی حیثیت میں ہے اور اگر ظاہر ہوجاے تو گناہ مشہور ہوجاتا ہے۔ یہ اسلامی ممالک میں واقعی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپ میں اگرچہ زنا کو گناہ نہیں سمجھا جاتا مگر اب گناہ سے تخلیق شدہ ناجائز بچے کے قتل پر سخت قوانین مرتب کیے جارہے ہیں اسقاط حمل ایک نہایت اہم موضوع ہے خاص طورپر ان خواتین کیلئے جو اس جان لیوا عمل سے گزرتی ہیں۔ ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلام میں اس سے متعلق سخت ترین قوانین ہیں اور بہت ہی کم رعایت یا چھوٹ دی گئی ہے کہ بغیر ٹھوس اسباب کے یہ ہرگز بھی ممکن نہیں ہے۔ ہمارے مذہب میں ہے کہ روزی کے ڈر سے یا بھوک وافلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کرنا منع ہے۔ ہر انسان کا رزق مقرر ہے۔دنیا میں ہر کوئی اپنے نصیب کا رزق لیکر پیدا ہوتا ہے۔ اسلا م میں یہ رعایت ہے کہ مدلل اسباب کے تحت اور ڈاکٹر کے مشورے سے اسقاط حمل پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس عمل سے عورت کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے اگر کسی قسم کا نقصان نہ ہو تو چار ماہ سے پہلے پہلے اس کی اجازت ہے کہ یہ کرایاجاسکتا ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کے 1973کےفیصلے کے تحت خواتین کو اختیارتھا کہ وہ اپنی مرضی سے حمل رکھ سکتی ہیں مگر اب تقریبا 48 برس بعد ٹیکساس کے نئے قوانین اس فیصلے سے منحرف ہورہے ہیں جس پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ ٹیکساس میں صرف ایک ریاست نے اس فیصلے کو اہمیت دی ہے ورنہ خواتین کو اختیار تھا کہ وہ اپنی مرضی سے ماں بن سکتی ہیں یا نہیں مگر 2021کو احتجاجی ریلی ٹیکساس میں اسقاط حمل کے نئے قوانین کے خلاف نکالی گئی، اس دن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہر قسم کے حمل کو رکھاجائے گا خواہ وہ ریپ کی صورت میں ٹھہرنے والا حمل ہو یا پھر لیگل یا ال لیگل جوڑوں کے بچے ہوں کسی بھی صورت میں بچے کو ضائع نہیں کیاجائے گا۔ انیسویں صدی میں اکثر وبیشتر کیتھولک مذہب کی یہ سوچ تھی کہ حمل ٹھہرنے کے بعد کسی بھی مرحلے میں اسے اسقاط حمل کی پالیسی کی نظر نہیں کرنا کیونکہ یہ اتنا ہی بڑاجرم ہے جیسے ایک انسان کوقتل کرنا۔ یہ بھی کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں حرکت کرنے لگے تو اس کا مطلب کہ وہ جیتی جاگتی دنیامیں آنے والا ہے۔ اسقاط حمل کے حامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1973میں کیتھولک رہنمائوں نے اس کی اجازت دی تھی مگر اب سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے نے قدامت پرستوں کو خوش کردیا۔ایک گیلپ رپورٹ کے مطابق مئی 2018 میں ایک سروے میں یہ تعداد 48فیصد تھی۔ جبکہ 55فیصد کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ برقررا رکھے۔ وہ ایک واقعہ تھا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ اپناتاریخی فیصلہ برقرار رکھے ہے۔ ہوا یوں کے جیری سینٹورو اپنے شوہر سیم سینٹورو کیساتھ رہ رہی تھی پھر دونوں کے درمیان اختلاف شروع ہوئے،1963 کی ایک شام جیری کے شوہر نے اسے خوب مارا پیٹا تو وہ اپنی دونوں بیٹیاں لیکر اپنے آبائی گھر کو نٹری ، کینٹی کٹ رہنے چلی گئیں۔ کاروبار زندگی چلانے کے لئے جیری نے کسی سکول میں معمو لی ملازمت کرلی اور وہیں اس کی ملاقات کلائیڈ ڈکسن سے ہوئی، دونوں کی دوستی گہری ہوئی تو 28سالہ جیری حاملہ ہوگئیں، جیری کی زندگی گزررہی تھی کہ ایک دن سیم سینٹوروسابقہ شوہر اطلاع دیتا ہے کہ وہ اپنی بیٹوں سے ملنے آرہا ہے۔ جیری سات ماہ کی حاملہ تھیں اور اچانک سیم سینٹورو کے آنے کی وجہ سے وہ پریشان ہوگئی، خوف سے جیری کی جان نکل رہی تھی، اس نے ڈکسن سے ذکر کیااور باہمی مشوررے سے طے کیا کہ بچہ ضائع کرلیا جائے، ڈکسن ایک کتاب اور جراحی کے آلات لے آئے، کتاب کے مطالعہ کے بعدمعلوم کیا کہ بچہ کیسے باہر نکالنا ہے۔کام پیچیدہ تھا اور انا ڑی لوگوں کے ہاتھوں میں تھا،اس دوران جیری زخمی ہوئیں خون بہہ نکلا تو ڈکسن ہواس باختہ ہوکر جیری کو اس حالت میں چھوڑ کر بھاگ گیا اور جیری موت کے منہ میں چلی گئی۔ جیری کی تصویر 1963کے بعد دوبارہ کسی میگزین نے 1974میں شائع کی جس میں وہ خون میں لت پت پڑی ہے۔ اس واقعہ نے اسقاط حمل کی پابندی میں بھی مدد کی۔ کہتے ہیں کہ اسقاط حمل کی پابندی سے ہزاروں عورتیں اس طرح تڑپ کر مرتی رہیں۔ امریکہ میں اسقاط حمل پر مواد شائع کرنا اور مائع حمل ادویات تک غیر قانونی تھیں۔ امریکہ نے اسقاط حمل کے سلسلے میں انگلینڈ کے عدالتی فیصلوں کو اپنایا ہے۔ اصل میں دیکھاجائے تو عورت سے یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ آزادی سے کرسکے کہ وہ اگر حاملہ ہوگئی ہے تو ماں بنے یا نا بنے۔ اسلام میں بھی گنجائش ہے کہ بحالت مجبوری آپ اسقاط حمل کرسکتے ہیں مگر یورپ کے دوسرے ممالک میں اس کی کوئی رعایت ہی نہیں۔ ویسے اب یورپ کے بہت سے ممالک میں سوچا جارہا ہے کہ 16اور 17سال کی لڑکیوں کے لئے حمل ختم کرنے کی وہ پابندی اٹھالی جائے جس میں والدین کی رضا مندی شرط ہے۔ بہت سے ممالک میں حمل کے ابتدائیہ ماہ میں استقاط حمل ہوسکتا ہے آئرلینڈ میں بھی مکمل پابندی ہے۔ دوسرے یورپین ممالک کی طرح اسقاط حمل پر پابندی سخت ترین کرنے کی بجائے والدین اور ملکی قوانین بچوں کو ان راستوں پر جانے ہی سے روک دیں تو کئی مشکلات سے بچاجاسکتا ہے۔ یورپی معاشرہ اپنی نوجوان نسل کی بے راہ روی اور بے جا آزادی کو تھوڑا کنٹرول کر لے اورجنسی آزادی پر پابندیاں لگادیں تو پتہ چلے کہ انہیں کتنا خیال ہے اپنی نوجوان نسل کا اسقاط حمل سے زیادہ فکر آزادی کی تباہی سے پیدا شدہ صورت حال کا کرنا چاہئے۔ جان تو بری عادات وعلت اپنانے سے بھی جاتی ہے پیٹ کے اندر کے بچوں سے زیادہ پیٹ کے باہر کے بچوں کی فکر ضروری ہے۔
یورپ سے سے مزید