• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اس وقت کی بات ہے جب صدر ایوب خان کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہوا تھا کہ امریکا کے صدر آئژن ہاور کا دورئہ پاکستان کا پروگرام طے ہو گیا۔ سرکاری سطح پرفیصلہ کیاگیا کہ صدر امریکا کے استقبال کو شایانِ شان بنانے کیلئے یہ ادارہ اپنے اپنے طور پر اقدامات کرے۔ اس دوران بلدیہ کراچی نے شہر کو صاف ستھرا بنانے کے لیے خصوصاً صدر امریکا کی گزرگاہوں پر خصوصی توجہ دی۔ مگر ایوان ِ صدر کے قریب فوارہ چوک پر ملکی تاریخ کا پہلا فوارہ تعمیر کیا جو دیکھنے والے کو پانی کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی لطف اندوز کرتا۔ 

اس فوارہ کی وجہ سے اس جگہ کا نام فوارہ چوک ہی پڑ گیا جو آج تک ہے۔ گوکہ وہ فوارہ صرف ایک دو سال تک ہی اصل حالت میں موجود رہا مگر مہمان کے استقبال کے لئے یہ ایک منفرد اضافہ تھا۔ جس کے اطراف صدر ایوب خان نے ایک کھلی کار میں کھڑے ہو کر مہمان کے ہمراہ اس فوارے کا پورا چکر لگایا۔ 

جس میں سے اس وقت مغربی موسیقی بج رہی تھی۔ فوارہ کے اطراف کے حصہ کو خوب صورت رنگ برنگ پھولوں اور سبزگھاس کے تختوں سے سجایا گیا تھا سڑک کنارے پرکھڑے اسکول کے بچے پاکستان امریکن پرچم ہاتھ میں اٹھائے کھڑے پاک امریکا دوستی کے نعرے لگا رہے تھے۔ 

ملکی تاریخ کا پہلا فوارہ تعمیر کیا جو دیکھنے والے کو پانی کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی لطف اندوز کرتا

جب تک یہ فوارہ اصل حالت میں رہا کراچی آ نے والے سیاح اس کو دیکھنے ضرور آتے جہاں وہ سر بکھیرتے فوارے کو دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ یہ اتنا خوب صورت فوارہ تھا کہ کراچی میں اس وقت بننے والی بیش تر فلموں کی یہاں شوٹنگ ہوتی۔ فوارے کے اطراف تالاب میں کنول کے پھول اور خوب صورت بیلیں پورے چوراہے کو حسین و جمیل بنا رہی تھیں۔

ایوانِ صدر کے ایک ملازم کے صاحبزادے محمد سعید جاوید نے جو اس وقت ایوان ِ صدر کے رہائشی علاقے میں اپنے والدین کے ہمراہ رہائش پذیر تھے، اپنی کتاب ’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ میں اس فوارے کا خاص تذکرہ کیا۔ اس کی تعمیر سے افتتاح تک امریکی صدر کے دورہ اوراس فوارہ کے اطراف چکر لگانے کا واقعہ اور اس کے بعد کے حالات سے اس کا قصہ تمام ہونے اور تاریخ کاحصہ بننے تک کے واقعات تحریر کئے ہیں جو ان کے آنکھوں دیکھا حال ہیں۔ 

سعید جاوید اس خوبصورت فوارہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’میں نے فوارے کا تذکرہ اس لئے بھی کچھ زیادہ تفصیل سے کر دیا ہے کہ جتنا میں نے اس کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ بعد میں ہمارے سکونت قیصر صدارت کے اندر ہی رہی تھی۔ اور وہیں اسٹاف کالونی کے دروازے پر ہی یہ فوارہ نصب تھا۔ آتے جاتے تو نظر پڑتی ہی تھی، کبھی کبھار بغیر کسی وجہ کے بھی گیٹ کے ساتھ رکھی ہوئی بینچ پر بیٹھ کر میں گھنٹوں اسے تکا کرتا تھا۔ بڑا سکون ملتا تھا اس کی موسیقی اورپانی کے جھرنوں کی آواز سن کر‘‘۔

بلدیہ کراچی کی جانب سے شہر کو خوب صورت بنانے اور ایوان ِ صدر میں آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنے کی یہ چھوٹی سی کوشش زیادہ عرصہ سلامت نہ رہ سکی۔ ممکن ہے ایوان ِ صدر کے مکین کا اسلام آباد چلے جانے سے جہاں کراچی کے اور بہت سارے منصوبوں اور خوابوں پر فرق پڑا، اس فوارے پر بھی اثر پڑا ہو۔ سعید جاوید نے مزید لکھا کہ ایک دوسال بعد اس فوارے کی موسیقی ایک دن اچانک بند ہوئی۔ 

پھر اچانک پانی بند ہوا، رفتہ رفتہ وقت کی دھول فوارے پر جمتی گئی، رنگ بھی سیاہ سے مٹیالا ہوگیا۔ ایک دن کچھ لوگ کدال اور بیلچے اٹھاتے ہوئے آئے اور اس کو وہاں سے اُکھاڑ کر چوک کو ہموار کردیا، کراچی کی خوب صورتی کے لئے بنائے گئے کتنے منصوبے ایسے ہیں جو ایسے دفن ہوئے کہ اب تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ پریس کلب کے باہراحتجاج کے لئے جانے والے شہری جب فوارہ چوک سے گزریں تو بلدیہ کراچی کی خدمات کو ضرور یا د کریں کہ کیا تھا میرا شہر۔