اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینکر عمران ریاض کے وکیل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت میں کہا کہ رات کو رپورٹ آئی ہے کہ اینکر عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران ریاض کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل نے مجھے فون کر کے بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہیں۔
وکیل کا عدالت میں کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے عمران ریاض کے خلاف 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی، لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔
عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا بلکہ یہ چھپائی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے، اٹک میں عمران ریاض خان کی گرفتاری ہوئی جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ اس عدالت نے واضح احکامات دیے تھے جن کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران ریاض خان کو اسلام آباد پولیس نے نہیں پنجاب پولیس نے گرفتار کیا ہے، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی ہے تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا، ابھی یہ آپ کے مفاد میں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔
عدالت نے عمران ریاض کے وکیل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
اس موقع پر عمران ریاض کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ گزشتہ رات کو عدالت کھولنے پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جواب میں کہا کہ کوئی بھی درخواست گزار کسی بھی وقت آئے، ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب ایک بیان میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے کہا ہے کہ اینکر عمران ریاض کی گرفتاری بلاجواز اور قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پنجاب حکومت کا طرزِ عمل جمہوریت کے لیے کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔