مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
قرآن کریم میں فلسفۂ حج کی عظمت و اہمیت اور اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا:’’ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا۔ وہ وہی ہے جو مکے میں ہے، جو تمام جہانوں کے لیے برکت اور ہدایت والا ہے۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، جن میں سے ایک ابراہیمؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا، اس نے امن پا لیا۔ لوگوں پر اللہ کا حق(یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی قدرت رکھے،وہ اس کا حج کرے، اورجو کوئی کفر کرے( یعنی اس حکم کی تعمیل باوجود استطاعت کے نہ کرے) تو اللہ بھی (اس سے بلکہ) تمام اہل عالم سے بے پروا ہے۔(سورۂ آل عمران)
’’حج بیت اللہ‘‘ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، تاہم یہ عبادت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔’’حج ‘‘کے لغوی معنیٰ قصد اور ارادے کے ہیں، البتہ شرعی اصطلاح میں حج کی تعریف 9 ذی الحج کو میدان عرفات میں پوری دنیا سے آئے ہوئے فرزندان اسلام کا ایک لباس یعنی احرام میں ملبوس ہو کر ایک کلمہ ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا ہے۔ دیگر اسلامی عبادات ہر مسلمان اپنے مقامات پر متعین طریقے سے ادا کر سکتا ہے،البتہ حج کی عبادت ایسی ہے جو اس مقام کے علاوہ کہیں ادا نہیں کی جا سکتی، اس کے لیے مخصوص ایّام میں مکۂ مکرمہ، منیٰ، عرفات مزدلفہ وغیرہ میں مخصوص طریقہ عبادت ہے۔ قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں اس کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا، جس دن اسے اس کی ماں نے جنا تھا‘‘۔ (بخاری،مسلم) اللہ تعالیٰ نے اس عظیم عبادت میں اس قدر فضیلتیں رکھی ہیں کہ انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے آج ہی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ اسلام کا ہر عمل دنیاوی و اخروی اعتبار سے فلاح و نجات کا سبب ہے۔
حج بیت اللہ کی عبادت ابتدائے آفرینش سے ہی ہے۔اس گھر کی بنیاد سیدنا آدمؑ نے رکھی تھی،تاہم امتدادِ زمانہ سے اس کے نشانات مدھم پڑ چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کو حکم دیا کہ نئے سرے سے بیت اللہ کی تعمیر کریں۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے (ثواب پانے) اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے (بوقت تعمیر کعبہ) اسے نماز کی جگہ مقرر کر لو اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو حکم دیا کہ تم میرے گھر کا طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔
جب ابراہیمؑ نے کہا، اے پروردگار، تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں، انہیں پھلوں کی روزیاں عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بے بس کر دوں گا۔ یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب تو ہم سے(یہ خدمت) قبول فرما۔ بے شک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔(سورۃ البقرہ)
معلوم ہوا کہ بیت اللہ کی زیارت بالخصوص حج کے لیے رخت سفر اختیار کرنا انتہائی سعادت کا حامل ہے۔ چناں چہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا تم حج کرو۔ ( صحیح مسلم) نیز آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ہے۔(طبرانی)
حج کی عبادت جہاں دینی لحاظ سے فوز وفلاح کا باعث ہے، وہیں دنیاوی لحاظ سے بھی حکمتوں سے پُر ہے۔اسلام دین فطرت ہے۔ اس کی تعلیمات فطرت کے عین مطابق اوربے شمار حکمتوں سے عبارت ہیں۔ پنج وقتہ نماز باجماعت کے ذریعے محلے کے اہل ایمان باہم ملاپ کی وجہ سے مربوط و منظم رہتے ہیں۔ اسی طرح جمعۃ المبارک میں اس سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور عیدین پر مقامی سطح کے بڑے بڑے اجتماعات کے انعقاد کا مقصد جہاں رب تعالیٰ کی بندگی ہے، وہیں اتحاد باہمی اور خیرخواہی بھی ہے، تاکہ ایک دوسرے سے ملنے کے اسباب مہیا ہوں اور باہمی غم و خوشی میں شرکت ہو سکے۔
اسی طرح حج اہل اسلام کا بین الاقوامی اجتماع ہے، جہاں چہار دانگ عالم سے مسلمان اکٹھے ہو کر آپس میں نہ صرف تعارف بلکہ دیگر مسائل و مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے جہاں ایک دوسرے کی پریشانیاں کم کر سکتے ہیں، وہیں باہمی وسائل سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’حج کے مہینے (متعین ہیں) جو معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج(کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے، نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑا کرے۔
جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کو معلوم ہو جائے گا اور زاد راہ(یعنی راستے کا خرچ)ساتھ لے جاؤ، البتہ سب سے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔ اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں) بذریعہ تجارت اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعرالحرام(یعنی مزدلفہ) میں اللہ کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) ناواقف تھے۔ پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہوجاؤ اور اللہ سے بخشش مانگو، بے شک اللہ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔(سورۃ البقرہ)
حجِ بیت اللہ، ملّتِ اسلامیہ کے درمیان اخوت و اجتماعیت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حج کی بدولت عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی اخوت و اجتماعیت کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ پروردگار کے فرمانِ عالی شان کے بموجب ہر سال لاکھوں فرزندانِ اسلام دنیا کے کونے کونے اور خطّۂ ارض کے گوشے گوشے سے اس مقدّس فریضے کی ادائیگی کے لیے حرمِ مقدّس پہنچتے ہیں۔
اس موقع پر اخوت و اجتماعیت اور انسانی مساوات کا وہ عملی نمونہ سامنے آتا ہے کہ جس کی مثال تاریخِ مذاہبِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس موقع پر تمام امتیازات کے بندھن اور زنجیریں توڑ دی جاتی ہیں۔ چنانچہ بادشاہ و فقیر، وزیر و امیر، دولت مند و حاجت مند، غنی و گدا، شہریار و شہسوار، تاجدار و چوبدار، فرماں روا و بے نوا، ملک ملک کے لوگ، سجدہ ایک اور جبینیں بہت سی، یہاں صاحب و بندہ و محتاج و غنی کا کوئی امتیاز نہیں، یہاں کوئی جہاں پناہ نہیں، سب پناہ خواہ ہیں ۔