تحریر:سردار عبدالرحمٰن.....بریڈفورڈ غازی عربی زبان کا لفظ ہے اس کے بنیادی معنی بے دین اشخاص کے خلاف جنگ و جدل کے ہیں، لیکن یہ لفظ اپنے ملک و ملت کے خلاف جارحیت اور مہم جوئی کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہوکر سیاسی طور پر یا اسلحہ کے ساتھ جنگ کرنے اور مہم جوئی کا نام بھی ہے۔ اس لیے پاکستان کے معرض وجود میں لانے کے لیے جن بڑے بڑے رہنمائوں، قلم کاروں اور مقررین نے جدوجہد اور جہاد کی ہے وہ بھی غازیوں کی فہرست میں گنے جاسکتے ہیں۔ جدید دور میں غازی کا لقب زیادہ تر عربی مہمات میں بے خوف و خطر بہادری سے لڑنے والے فوجیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔پاکستان کی تین بڑی جنگوں میں شہدا کے ساتھ غازیوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ کھیم کرن کا محاذ ہو یا لاہور کا معرکہ ہو یا کنگا چوٹی اور چڑی لوٹ کی یلغاریں ہوں۔ یہ غازی، یہ جانباز، یہ بہادر، یہ پراسرار بندے شجاعت سے لڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ 1947ء میں جنگ آزادی کشمیر کے محاذوں سے زخمیوں کو لوٹنے کے مناظر دیکھ کر ان کی بہادری، جرات اور قربانیوں کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ اس ثابت قدمی سے ان غازیوں نے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور کس طرح ’’آں نہ من یاشم کہ روز جنگ بینی پشت من‘‘ کے مصداق پر اترے ہیں، ان گھمسان کی جنگوں میں شہدا کے علاوہ کسی کی ٹانگیں کٹ چکی تھیں اور کسی کے باز تن سے جدا ہوچکے تھے۔ کوئی آنکھوں سے محروم تھا، اور کسی کا ناک اور منہ غائب تھا۔ کچھ بے ہوش تھے اور جو ہوش میں تھے، وہ اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے سنائی دیتے تھے۔ ان ہی غازیوں کو علامہ اقبال نے ’’پراسرار بندے‘‘ کہا ہے۔ مرد غازی کو نہ مال غنیمت سے غرض ہے اور نہ جشن و جلوس کی لالچ ہے۔ ان پراسرار بندوں کے کارناموں کا اندازہ مال غنیمت کی فراوانی اور جشن و جلوس کی ہمہ ہمی سے نہیں لگایا جاتا۔ بلکہ ان غازیوں کے کارناموں کا اندازہ لگایا جاتا ہے بکھرے ہوئے لہو، تباہ شدہ مورچوں اور دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر سے۔ غازی علیم الدین کا نام تاریخ میں زندہ اور تابندہ ہے۔ کیا تراڑ کھل کے غازی مقبول حسین کو بھی لوگ جانتے ہیں؟ غازی مقبول حسین کون تھا؟۔بے رحم اور انسانی حقوق اور جنگی جرائم کی دھجیاں بکھیرنے والے ہندوستان نے واہگہ بارڈر سے قیدیوں کا ایک گروپ ہندوستان کی جیلوں میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد پاکستان میں ہندوستان کے قیدیوں کے بدلے میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدیوں کے ساتھ ایک کشمیری باشندہ بھی تھا، جس کا نام مقبول حسین تھا۔ مقبول حسین پاکستان آرمی کا سپاہی تھا جس کی عمر اب پینسٹھ سال تھی لیکن وہ نوے سال کا معلوم ہوتا تھا۔ سپاہی مقبول حسین آزاد کشمیر کے مشہور علاقہ تراڑ کھل کا رہنے والا تھا۔ تراڑ کھل آزاد کشمیر کی جنگ آزادی میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ تراڑ کھل آزاد کشمیر کا پہلا صدر مقام ہے۔ اس مقام سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت میں ولولہ انگیز تقریر کرکے بھارت کو للکارا تھا۔سپاہی مقبول حسی1965ء کی جنگ میں کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہے تھے کہ راستے میں دشمن سے سخت جھڑپ ہوگئی۔ سپاہی مقبول حسین نے اپنی پشت پر ایک وائرلیس سیٹ بھی اٹھا رکھی تھی، جس سے اپنے افسران کے لیے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے اپنی بندوق سے مقابلہ بھی کررہا تھا۔ سپاہی مقبول اس مقابلے میں زخمی ہوگئے۔ اس کے ساتھیوں نے مقبول حسین کو اٹھاکر واپس لانے کی کوشش کی لیکن مقبول حسین نے ان پر بوجھ بن کر ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ سے ان کی مدد سے انکار کردیا اور زخمی حالت میں وہاں جم کر لڑنے کو ترجیح دی۔ اس کے ساتھی اس کو ڈھونڈتے رہے۔ جب نہ ملا تو وہ دشمن کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس عرصے میں سپاہی مقبول حسین ایک بار پھر دشمن کی گولی سے نشانہ بن کر بے ہوش ہوگئے اور کھائی میں گر پڑے۔ دشمن ان کو بعد میں وہاں سے گرفتار کرکے اٹھاکر لے گئے۔جب پینسٹھ کی جنگ کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے دوران دوطرفہ قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ ہوا۔ بھارت نے انتہائی مکاری اور جھوٹ سے سپاہی مقبول حسین کا نام چھپا لیا جو بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم ہے۔ پاکستان نے اس کے بعد سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کرلیا اور اس کا نام بہادر شہدا کی ایک یادگار میں کندہ کردیا۔ اس دوران میں بھارتی فوج کے خفیہ ادارے سپاہی مقبول حسین کو طرح طرح کے جسمانی تشدد اور مظالم سے گزار کر پاکستان آدمی کے راز معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ سپاہی مقبول حسین ایک قدآور بلند قامت، مضبوط، خوبصورت اور سخت اعصاب کا جوان تھا۔ سپاہی مقبول حسین نے بھارتی فوج کے خفیہ اداروں کے انسانیت سوز مظالم برداشت کیے لیکن پاکستان کے خلاف اپنی زبان نہ کھولی۔ اس کی بہادری، اس کی برداشت، اس کے صبر اور مستقل مزاجی اور پاکستان کی محبت کے اظہار نے ہندوستانیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ جب وہ مقبول حسین سے کوئی راز اگلوانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے اس کو انتہائی دردناک جنیاتی اور ذہنی تشدد سے دوچار کرکے حکم دیا کہ ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کہو۔ لیکن ہر دفعہ سپاہی مقبول حسین کے منہ سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ نکل کر گونجتا۔ اس جواب سے ہندوستانی فوجی ادارے غصے میں پاگل ہوجاتے۔ سپاہی مقبول حسین کی ایسی وفاداری اور حب الوطنی کے جذبات کو دیکھ کر ہندوستان نے مقتول کی بے دردی سے زبان کاٹ دی۔ انتقام کی اس آگ نے ان کو جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کا مرتکب کردیا۔ اس کے بعد مقبول حسین کو ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردیا۔ اس کوٹھڑی میں دراز ہونے کی جگہ نہ تھی، صرف بیٹھنے کی جگہ تھی۔ سپاہی مقبول حسین1965ء سے2005ء تک اسی کوٹھڑی میں مقید ہوکر زیرعتاب رہا۔ عرصہ چالیس سال مادر وطن کی خاطر زندگی اور موت کی کشمکش میں گزارے لیکن پاکستان کا نام زندہ رکھا۔ کٹی ہوئی زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگاسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی کٹی ہوئی زبان کے رستے ہوئے لہو سے اس کال کوٹھڑی کی دیواروں پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لکھ لکھ کر ایمان کی روشنی پھیلا دی۔غازی مقبول حسین کے بدن کے چیتھڑے پرانے ہوکر چھلنی ہوچکے تھے۔ کوٹھڑی گندی اور متعفن تھی۔ کھانے کے لیے باسی روٹی کے ٹکڑے ملتے تھے۔ جسم مضمحل ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ بدن کا ماس ڈھیلا ہوکر ہڈیوں سے الگ لٹک رہا تھا۔ جوانی ڈھل کر بڑھاپے کے ماہ و سال آچکے تھے مگر سپاہی مقبول حسین کے چہرے پر پھر بھی قومی حمیت، فوجی رعب اور مسلمانی غیرت کے تاثرات نمایاں تھے۔ جو دشمن کی پسپائی کا سبب بن کر للکار رہے تھے۔ دشمن کے روزمرہ اور معمول کے تشدد، تذلیل اور تحقیر کے باوجود بھی سپاہی مقبول حسین نے ملک کی عزت اور ناموس کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ علاج معالجہ کی نایابی اور ناقص اور قلیل غذا کی وجہ سے اس کے حواس کمزور ہوگئے تھے۔ رہائی پانے والے اس سپاہی کو پہچان نہ تھی۔ اس کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی۔ وہ صرف اشاروں سے یا لکھ کر بات کرسکتا تھا، لیکن اس کے باوجود رہائی پانے والے اس قیدی کی آنکھوں میں ایک امید، تجسس تھا۔ جب پاکستانی حکام نے ابتدائی کارروائی کے بعد اس قیدی کو فارغ کردیا اور سب قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے تو یہ عمر رسیدہ نحیف شخص اپنے گھر جانے کے بجائے کسی اور منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اپنے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ کےایک ٹکڑے پر وہ لکھ کر اس جگہ کا پتہ پوچھتا رہا۔ ہر ملنے والا اس کو سائل یا گم گشتہ راہ سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا اور اس طرح یہ عمر رسیدہ لرزیدہ اندام سپاہی اپنی پرانی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے حیران کن دعویٰ کردیا، جس پر اس کو رجمنٹ کے کمانڈر کے سامنے پیش کردیا گیا۔ کمانڈر کے سامنے ہوتے ہی اس لاغر اور نحیف فوجی نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے قدم ملاکر فوجی سلیوٹ کیا۔ پھر ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کمانڈر کے سامنے رکھ دیا۔ اس کاغذ پر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھا تھا۔ ’’سپاہی مقبول حسین نمبر335139اپنی ڈیوٹی پر رپورٹ کرتا ہے اور کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے۔‘‘کمانڈر شسدر رہ گیا اور حکم دیا کہ اس بوڑھے شخص کے نام اورنمبر کی مدد سے پرانی فائلوں سے اس کے رشتہ داروں کو ڈھونڈا جائے۔ جب اس کے رشتہ داروں کو ڈھونڈا گیا تو اس کے بعد سپاہی مقبول حسین کی دل دہالنے والی داستان سامنے آئی۔ اب اس لاغر سپاہی کو فوجی آفیسر بھی سلیوٹ مار رہے تھے۔ پتہ چلا کہ یہ سپاہی مقبول حسین ہے جو پینسٹھ کی جنگ میں شہید تصور کرلیا گیا تھا لیکن حقیقت میں ہندوستانی فوج اس کو چالیس تک چھپاکر قیدوبند میں رکھا اور یوں انسانی حقوق کے ساتھ جنگی جرائم بھی سرزد کیے۔ پاکستان حکومت نے غازی مقبول حسین پاکستان فوج کے زیر نگرانی سی ایم ایچ میں زیر علاج تھے جہاں28اگست2018ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ سپاہی مقبول حسین ستارہ جرات کی نماز جنازہ فوجی اعزاز کے ساتھ چکلالہ گیرزان میں ادا کی گئی، جس میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت دوسرے افسران بھی موجود تھے۔ بعدازاں غازی مقبول حسین کا جسم خاکی آزاد کشمیر کے مشہور علاقے تراڑ کھل ’’نیریاں‘‘ میں سپردخاک کیا گیا۔ جب تک پاکستان کی منظم اور متحد فوج میں غازی مقبول حسین جیسے سپاہی موجود ہیں، استحکام پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت متزلزل نہیں کرسکتی۔ پاکستانی فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔