مریم صدیقی
نیہا کے بیگ سے آج پھر ریاضی کی کاپی غائب تھی۔ وہ سر پکڑے بیٹھی تھی کیونکہ کل اس کا ٹیسٹ تھا۔ دو دن پہلے اس کی اردو کی کاپی غائب تھی، ساری رات پریشانی کے عالم میں گزری۔ صبح اُٹھ کر یہ سوچ کر بیگ دیکھا کہ رات میں شاید ٹھیک سے نہ دیکھ پائی ہوں۔ حیرت انگیز طور پر اس وقت اردو کی کاپی بیگ میں تھی ،اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا اور اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔
آج جب اس نے ٹیسٹ کی تیاری کے لئے بیگ کھولا تو اس میں ریاضی کی کاپی نہیں تھی، ابھی وہ کاپی کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس کا بھائی سعد ادھر چلا آیا۔
”سعد بھائی! آپ نے میری ریاضی کی کاپی کہیں دیکھی ہے؟“ نیہا نےاس کو دیکھتے ہی پوچھا۔ اس نے انکار میں گردن ہلائی۔ اس نے بہن کو پریشان دیکھ کر کہا، ”ایک تو تمہاری کاپی روز کھو جاتی ہے، سنبھال کر کیوں نہیں رکھتیں؟“ نیہا نے پریشانی سے اسے دیکھا۔”نہیں بھائی! مجھے اچھی طرح یاد ہے، کاپی میں نے اپنے بیگ میں ہی رکھی تھی۔“
”اچھا پریشان مت ہو، آؤ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔“ سعد اور نیہا نے پورا کمرہ، لاؤنج، صحن، یہاں تک کے کچن اور امی ابو تک کا کمرہ بھی چھان مارا، لیکن کاپی کہیں نہیں ملی۔ اب صرف مالی بابا کا کمرارہ گیا ہے، چلو وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ سعد نے ان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے، لیکن نیہا کو اپنے پیچھے نہ آتے دیکھ کر وہیں رک گیا۔
”کیا ہوا نیہا؟ ایسے کیوں کھڑی ہو؟ ارے تم رو کیوں رہی ہو؟ کوشش کیے بغیر کبھی مشکل حل نہیں ہوتی۔“سعد نے اسے سمجھایا۔
سعد، نیہا سے تین سال بڑا تھا اور آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا ،جب کے نیہا پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ دونوں کا شمار اسکول کے لائق طلبا میں ہوتا تھا، لیکن گزشتہ کچھ روز سے ہر دوسرے روز نیہا کے بیگ سے کوئی نہ کوئی کاپی غائب ہوجاتی اور صبح کے وقت اس کے بیگ میں موجود ہوتی۔ شروع میں تو امی اور سعد نے اس کی لاپروائی کہہ کر توجہ نہ دی لیکن روز روز کی شکایت سے وہ بھی پریشان ہوگئے۔ نیہا کی پڑھائی کا جو نقصان ہو رہا تھا وہ الگ۔
نیہا کو چپ کرانے کے دوران وہ یہ بھول ہی گیاکہ اسے مالی بابا کے کمرے میں کاپی ڈھونڈنی تھی۔ مالی بابا گھر کے پچھلے حصے میں سرونٹ کواٹر میں اپنی بیوی اور دو بچوں علی اور حسن کے ساتھ رہتے تھے۔ کاپی ڈھونڈنے سے قبل سعد نے سوچا کہ وہ نیہا کو کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرادے، اس کے بعد کاپی ڈھونڈے گا۔ وہ نیہا کے ساتھ اسٹڈی روم میں آگیا۔ کتاب کی مدد سے اس نے نیہا کے ٹیسٹ کی تیاری کرائی، مشق کرانے کے بعد پہاڑے یاد کرنے کا کہہ کر وہ امی کے پاس چلا آیا۔
”امی روز روز نیہا کی کاپی کا اس طرح غائب ہو جانا اور پھر مل جانا کچھ عجیب نہیں ہے؟“ اس نے امی سے کہا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔
”میں سوچ رہا تھا کہ کہیں علی اور حسن شرارت میں کہیں چھپا تو نہیں دیتے؟ کیوں کہ نیہا کی اکثر ان سے لڑائی رہتی ہے۔“ اس نے امی کے سامنے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”تم جاؤ اور جاکر ان بچوں سے پوچھ لو، مگر ہاں پیار سے پوچھنا۔“ انھوں نے سعد کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ سر ہلاتا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی جانب چلا گیا۔
”تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟“حسن اور علی نیہا کےکمرے کے باہر کھڑکی کے نیچے کسی چیز پر جھکے ہوئے تھے۔ سعد کو سامنے دیکھ کر ہڑ بڑا کر سیدھے ہوگئے۔
”کچھ نہیں سعد بھائی! ہم باتیں کر رہے تھے۔“ حسن نے کہا۔ سعد نے دیکھا علی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تم کیا چھپا رہے ہو؟“، علی جو کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر اندر کچھ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، سعد کے کہنے پر رک گیا۔ ”دکھاؤ مجھے کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟ اگر تم مجھے نہیں بتاؤ گے تو میں ابو کو بتا دوں گا، پھر سوچ لینا بہت ڈانٹ پڑے گی۔“ سعد کے کہنے پر علی نے پیچھے کیا ہوا ہاتھ آگے کر دیا جس میں نیہا کی ریاضی کی کاپی تھی۔ ”یعنی میرا شک صحیح نکلا، یہ تم دونوں کی شرارت تھی۔‘‘
اس دوران بچوں کی ماں وہاں آگئی۔ ”کیا ہوا سعد بیٹے! ان دونوں نے کوئی شرارت کی ہے؟“۔ ان کے پوچھنے پر اس نے ساری بات انہیں بتا دی۔ وہ غصے سے دونوں کو مارنے کے لئے آگے بڑھیں لیکن اسی وقت سعد کی امی اور نیہا بھی وہاں آگئے۔
اپنی کاپی علی کے ہاتھ میں دیکھ کر نیہا تو آپے سے باہر ہو گئی۔ سعد کی امی نے کاپی لے کر دیکھی تو وہ بالکل صحیح حالت میں تھی، پھر وہ نیہا کے بیگ سے کاپی نکالتے کیوں ہیں؟سب کے ذہنوں میں یہی سوال تھا۔ سعد کی امی کے پوچھنے پر علی نے بتایا، ”ہم بھی سعد بھائی اور نیہا باجی کی طرح پڑھنا چاہتے ہیں۔
ایک دن ہم نے نیہا باجی سے کہا کہ وہ جو بھی اسکول میں پڑھ کر آتی ہیں، ہمیں بھی پڑھا دیا کریں تو انھوں نے کہا تم لوگ پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟ تمہارا جو کام ہے وہی کرو، یہ کہہ کر وہ ہمارا مذاق اُڑانے لگیں‘‘۔ علی کی بات پر سب نے نیہا کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔ ”پھر میں نے اور حسن نے سوچا کہ ہم دونوں خود ہی پڑھیں گے، اسی لیے ہم روز نیہا باجی کے بستے سے ایک کاپی لاتے اور اس میں جو بھی لکھا ہوتا تھا سلیٹ پر اس کی نقل کرتے لیکن ہم ان کی کاپی خراب نہیں کرتے تھے۔
مالی بابا اور ان کی بیوی شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ سعد کی امی نے آگے بڑھ کر علی اور حسن کو گلے سے لگایا،”نیہا بیٹا! ادھر آئیے، ہم نےکب یہ سکھایا کہ ہم مالک ہیں اور یہ ملازم؟ اللہ کے سب بندے برابر ہوتے ہیں، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ آپ نے علی اور حسن سے اس انداز میں بات کی ‘‘ ان کے لہجے میں خفگی تھی۔
”آئی ایم سوری امی!“ نیہا نے ان کی جانب دیکھ کر کہا۔”سوری، آپ ان دونوں سے کہیے اور آپ کی سزا یہ ہے کہ آج سے آپ ان دونوں کو پڑھائیں گی۔“ اس نے اثبات میں سر ہلا یا۔”غلط کام آپ دونوں نے بھی کیا ہے، کسی سے چھپ کر اس کی چیز لینا یا استعمال کرنا چوری کہلاتا ہے، جو بہت بُری بات ہے۔ آپ دونوں بھی نیہا سے سوری کہیے اور آپ کی سزا یہ ہے کہ کل سے آپ دونوں بھی اسکول جائیں گے۔“ ان کی بات پر علی اور حسن نے حیرت سے انھیں دیکھا اور خوشی سے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔