کراچی کے تمام مسائل میں اہم ترین مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا تھا جو نہ صرف شہریوں بلکہ انگریز فوج کیلئے صاف پانی کی فراہمی ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ فوج کو پانی کی سپلائی پر حکومت کے بھاری ا خراجات ہورہے تھے اور اس مسئلے کا فوری حل نکلنے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آرہے تھے۔
سرچارلس نیپیئر نے 1845ء میں پانی کی ایک اسکیم تیار کرائی اس کے لئے طویل سروے ہوا اور نیپیئر کوسروے رپورٹ پیش کی ،اس کی اصولی منظوری کے بعدبھی، پائپوں کے ذریعے شہر کو پانی کی سپلائی 1883ء تک ممکن نہ ہو سکی۔ وفاقی حکومت وسائل مہیا کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اور صوبائی حکومت کے پاس وسائل نہیں تھے اس لئے سرچارلس کی تیار کردہ پانی کی فراہمی کی فزیبلٹی پر عمل درآمد 38سال بعد ممکن ہوا جب بلدیہ کراچی مظبوط ادارہ ہو ا، اور اس منصوبے کے لئے اس کے پاس وسائل جمع ہوئے۔
آج بھی کراچی کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے تاہم فرق اتنا ہے کہ اس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی نہیں تھی بعد میں بلدیہ قائم ہوئی۔ اس ادارے نے کراچی کے لئے پانی کے عظیم منصوبے بنائے لیکن آج اگر شہر میں پانی کی کمی ہے تووہ بلدیہ کے کم زور ہونے کے سبب ہے۔ اسےکم زور کرنے کا آغاز تو 1947ء کے فوراً بعد ہو چکا تھا، مگر آخر ی کیل 1999ء میں ٹھونکی جب چند تاجروں کے کہنے اور اتفاق فائونڈری کے سامان پر آکٹرائے معاف کرانے کی غرض سے بلدیاتی اداروں کا سینکڑوں سال پرانا ضلعی آکٹرائے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار ختم کرکے ان اداروں کو وفاقی و صوبائی حکومتوں کا محتاج کر دیا گیا۔
بندر روڈ، کچہری روڈ اور میکلوڈ روڈ کا تکون کاروبار کا مرکز بن گیا
بہرحال 1845ء میں جدید کراچی کے سفر کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے مکینوں کے لئے صاف پانی کی فراہمی پرغور شروع ہو چکا تھا۔ معیاری سڑکیں، سیوریج کی نکاسی اور اسی طرح بہترین ٹاؤن پلاننگ کے لئے سوچا جانے لگا اور کچھ علاقوں میں کام شروع بھی ہوا، سڑکوں کی تعمیر، ہاؤسنگ اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بہتر بنانے پر توجہ دی جانے لگی۔
1845ء ہی میں فوجیوں کے لئے سول لائنز کا قیام عمل میں آیا اور مندرجہ ذیل راستے تعمیر ہوئےجو کچے تھے جن کو بعد میں پختہ سڑکوں میں ترقی دی گئی اور آج شہر کے مصروف ترین تجارتی مراکز ہیں۔
(1)میری ویدر ٹاور روڈ
(2)لیڈیز کلب روڈ
(3)برٹن روڈ
(4)کلب مائونٹ روڈ
(5)مینس فیلڈ روڈ
(6)ای اے روڈ
(7)بلیک ہاؤس روڈ۔ (بندر روڈ تا چڑیا گھر گارڈن)
(8)۔گارڈن روڈ (یہ سڑک انگریز فوجیوں اور سویلیز کو گارڈن تک پہنچانے کیلئے تعمیر ہوئی)
(9)اس سال دریا لیاری سے گزری تک ایک اور راستہ نکالا گیا،کرنل پریڈی کی کچہری کی مناسبت سے یہ کچہری روڈ کہلائی جو آج ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ ہے۔ آگے گلفٹن پل کے بعد چوہدری رحمت علی روڈ کہلاتی ہے۔
انگریزوں نے پوری توجہ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر مرکوز رکھی، 1845ء تک بندرگاہ سے شہر تک رسائی کے راستے تعمیر کرکے قلیل مدت میں شہر میں کامیاب تجارتی منڈی قائم کردی۔ چناں چہ بندر روڈ، کچہری روڈ اور میکلوڈ روڈ کاتکون کاروبار کا مرکز بن گیا۔
بلدیہ کراچی نے ان علاقوں میں گودام اور مسافر خانے قائم کئے جہاں دور دراز علاقوں سے لوگ سامان لاکر گوداموں میں جمع کراتے اور مسافر خانوں میں رہائش اختیار کرتے، سندھ مدرستہ السلام کی جگہ بلدیہ کراچی نے ایک وسیع گودام اور مسافر خانے کے طور پر تعمیر کی تھی جو بعد میں مدرسے کے لئے وقف کی گئی۔ اسی طرح کے مزید مسافر خانے اور گودام تعمیر کئے گئے جہاں بلدیہ اس کا کرایہ وصول کرتی ان سے لوگوں کو سہولت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملتا تھا۔
اس دوران انگریز اصل کراچی یعنی پرانے شہر (فصیل کے اندرونی علاقے) سے بالکل لاتعلق رہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھا۔ البتہ چاردیواری جو خستہ حال تھی اُسے آدھا میل تک پختہ کیا۔ کیوں کہ اس علاقے میں بمبئی اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے تاجر رہائش اختیار کئے ہوئے تھے اور ان کے سامان کے گودام بھی اسی علاقے میں تھے۔ اس منصوبے پر اس وقت 1198 روپے لاگت آئی۔ پرانے شہری حکومتی بے حسی کا شکار رہے اورگوروں کی اصلاحات سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ البتہ ان کے لئے روزگار کے وافر مواقع پیدا ہوئے اور پہلے کے مقابلے میں شہر میں زیادہ خوش حالی نظرآنے لگی۔
پرانے مقیم یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے زیرکنٹرول علاقوں سے ہٹ کر ایک نئی بستی آباد ہو رہی ہے جو خوب صورت ہی نہیں بلکہ کچھ کچھ پختہ بھی تھی۔ جس کا انہوں نے کبھی تصور تک نہ کیا تھا مگر اب وہ خود تبدیلی کے آثار دیکھ رہے تھے۔ یہ ان کے لئے بالکل نئی چیز تھی کہ اس سے قبل انہوں نے اس طرح کے شہرآباد ہوتے نہیں دیکھے تھے، جہاں حکومت سڑکیں بھی تعمیر کرے اور گھروں کی ترتیب بھی ،ظاہر ہے کہ اس صورت حال سے وہ خوش ہی ہوتے ہوں گے کہ صدیوں میں انہوں نے کیا ان کے آباؤ اجداد نے ایسی تبدیلیاں نہیں دیکھی ہوگی جو وہ دیکھ رہے تھے یہ کراچی کی شروعات تھی۔ انگریزچوں کہ ترقی یافتہ علاقوں سے آئے تھے اور اس کام کے لیے انہوں نے تجربے کار اور ماہر افسران انگلستان سے بلائے جو ٹاؤن پلاننگ اور شہروں کی منصوبہ بندی کے ماہر تھے۔