• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آسٹریلوی مٹی سے پاکستان میں پچ بنانے کا تجربہ آسان نہیں

پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جس کی کر کٹ ٹیم نے ورلڈ کپ سمیت دنیا کے تمام بڑے ٹائیٹل جیتے ہیں لیکن آج بھی پاکستانی پچوں کے بارے میں پاکستانی بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ ہر ملک ہوم ایڈوانٹیج لینے کی کوشش کرتا ہے۔اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایڈ یلیڈ اوول کے کیوریٹر کو پاکستان بلایا ہے یہ فیصلہ کس قدر کامیاب رہتا ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے بڑی رقم خرچ کرکے غیر ملکی کیوریٹر کو پاکستان بلایا ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان سپر لیگ کے دوران دبئی اسٹیڈیم کے کیوریٹر بھی پاکستان آئے تھے۔

غیر ملکی کیوریٹر کو پہلی بار نہیں بلایا جارہا یہ تاریخ پرانی ہے۔1980کی دہائی میں جب ایئر مارشل نور خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔پی سی بی نے پہلی بار غیر ملکی کیوریٹر کو پاکستان بلاکر کراچی اور لاہور کی پچوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ واکا پرتھ کے کیوریٹر پاکستان مدعو کیا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ڈینس للی نے اپنی بولنگ سے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہوئی تھی۔ آسٹریلوی کیوریٹر پاکستان سے ہوکر چلے گئے لیکن پچوں کی حالت تبدیل نہیں ہوئی،پھرکئی سالوں شہر یار خان نے بھارت کی تاریخی سیریز کے لئے اینڈی اٹکنسن کو پاکستان بلایا تھا۔

ایڈیلیڈ اوول کے ہیڈ کیوریٹر، ڈیمیئن ہوف پاکستان ۔ وہ 28 جولائی تک پاکستان میں قیام کریں گے۔ اس دوران وہ کراچی، ملتان اور راولپنڈی بھی جائیں گے۔ ڈیمیئن ہوف کراچی اور لاہور کے علاوہ نیا ناظم آباد میں آسٹریلوی مٹی سے پاکستان میں پچ بنانے کا منفرد تجربہ کریں گے معروف ڈیمیئن ہوف اس فیلڈ میں 26 سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے ان چاروں شہروں میں موجود ٹیسٹ سینٹرز کی آؤٹ فیلڈ اور پچ اسکوائرز کا معائنہ کریں گے۔اس دوران وہ مقامی کیوریٹرز، کرکٹ ایسوسی ایشنز اور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز کو تینوں طرز کی کرکٹ کے لیے پچز کی تیاری پر خصوصی لیکچرز دیں گے۔

وہ ان کیوریٹرز اور کوچز کو ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچز کے لیے پچز کی تیاری پر بھی معلومات فراہم کریں گے۔ واضع رہے کہ ماضی میں بھی پی سی بی غیر کیو ریٹرز کو پاکستان بلاتا رہا ہے لیکن پچوں کی کوالٹی کا مستقل حل نہیں نکل سکا۔ 2004 میں بھارت کے خلاف سیریز کے لئے پی سی بی نے آئی سی سی کے پچ کنسلٹنٹ اینڈی اٹکنسن کو بلایا تھا۔ اینڈی اس کے بعد بھی پاکستان آئے لیکن پاکستان میں پچ کی تیاری کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔

رمیز راجانے ملک میں پچوں کی کوالٹی میں بہتری کے لئے بڑا منصوبہ بنایا ہے۔ حال ہی میں کراچی اور لاہور میں پچوں کا اسکوائر کھود کر نئی پچیں بنائی گئی ہیں تاہم پچ نمبر تین کو آسٹریلوی مٹی کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ رمیز راجا نے ملک کے چھوٹے گراونڈز میں بھی پچوں کا جال بچھانے کا دعوی کیا ہوا ہے۔ ایڈیلیڈ اوول کا شمار دنیا کے مشہور اور خوبصورت گراونڈز میں ہوتا ہے جہاں جدید سہولتیں موجود ہیں۔

ان کا پاکستان آکر پچوں میں جان ڈالنا واقعی مشکل کام ہے۔ رمیز راجہ کا پاکستان میں ڈراپ ان پچوں کا آئیڈیا ڈراپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ آسٹریلیا سے ڈراپ ان پچ کو پاکستان لانے کے لئے چارٹرڈ جہاز کا خرچہ ایک ارب روپے تک آسکتا ہے دنیا میں کوئی ایسا بڑا جہاز نہیں ہے جس پربڑے سائز کی پچ کو پاکستان لایا جائے پھر حکومت نے امپورٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ رمیز راجا نے ڈراپ ان پچوں کی بات کی تو کئی کرکٹرز ناراض ہوگئے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ دنیا میں اتنا بڑا جہاز نہیں ہے جس پر ڈراپ ان پچ آسٹریلیا سے پاکستان پہنچتی۔ چارٹرڈ فلائٹ پر اربوں روپے لگ سکتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نیت پر شک نہیں ہے لیکن اگر پچوں کے ساتھ پی سی بی پاکستان کرکٹ کے سسٹم کو ٹھیک کرنے پر توجہ دے تو بہتر ہے۔ غیر ملکی کیوریٹر کو یہاں بلانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے کیوریٹرز کی تربیت کا انتظام کریں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم دنیا کی صف اول کی ٹیم ہے اسے اوپر لے جانے کے لئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آسٹریلوی مٹی سے پاکستان میں پچ بنانے کا تجربہ آسان کام دکھائی نہیں دے رہا ہے اس لئے ہمیں پچوں پر بہت سرمایہ لگانے کے بجائے اپنے سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید