ڈاکٹر الماس روحی
پیارے بچو! دریا کے کنارے مچھیروں کی ایک بستی تھی۔ صبح سویرے مچھیرے دریا پرجاتے اور شام تک ڈھیروں مچھلیاں پکڑ کر لاتے۔ فرصت کے وقت وہ دریا کے کنارے بیٹھے کشتیاں بھی بناتے۔ ان ہی میں یعقوب مچھیرا بھی تھا،اس کا ایک بیٹا توصیف جو ابھی چھوٹا تھا ،اپنے میلے کپڑوں اور الجھے بالوں کے ساتھ ننگے پیر اپنے بابا کو کشتیاں بناتے دیکھتا رہتا۔
نیند آتی تو گیلی ریت پر ہی سو جاتا۔ سوتے ہوئے وہ ایک ہی خواب دیکھتا سب سے بڑی کشتی بنانے کا ، پھر اس کشتی میں ڈھیر ساری چھوٹی بڑی مچھلیاں پکڑ کر لانے کا۔ رات کو جب سب لوگ اکٹھے کھانا کھاتے اور لالٹین کی مدہم روشنی میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے، اس وقت وہ اپنا خواب سناتا۔
بہن بھائی اس کا خواب سن کر اس پر ہنستے اور مذاق اڑاتے، لیکن اسے کسی کی پروا نہ تھی۔ گھر میں آئے دن اماں مچھلی کا سالن اور ابلے چاول پکا تی تھی۔ اسے مچھلی پسند تھی لیکن روز روز مچھلی کھاتے کھاتے اس کا جی بھر گیا تھا۔وہ سوچتا تھا کہ، بڑے ہو کر جب وہ بہت ساری مچھلیاں پکڑ کرانہیں بیچے گا توبہت سارے پیسے ملیں گے، پھر اماں طرح طرح کے کھانے بنایا کریں گی اور یہ چھونپڑی جس میں ہم سب رہتے ہیں، یہاں پکا گھر بنائے گا۔ توصیف صبح سویرے ہی اٹھ جاتا تھا۔
اماں چولہے پر چائے کا پانی رکھ کر پھونکنی سے پھونکیں مارتی تھیں، جس سے انہیں کھانسی ہو جاتی، آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے۔ وہ گلاس بھر کے پانی دیتا۔ کاش وہ اماں کو لوہے کا چولہا دے سکتا۔ کس مشکل سے اماں کو ہمارے لئے کھانا پکاناپڑتا ہے ۔ وہ اپنے اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتا۔ پھر ابا کے ساتھ ناشتہ کرتا اور سورج چڑھتے ہی دریا پر چلا جاتا۔
چاچا خیرو جو اس کے ابا کے دوست تھے، وہ پہلے سے موجود ہوتے، وہ ابا کے ساتھ کشتی میں بیٹھتے پورے دریا کا دن میں چار بار چکر لگاتے۔ مچھلیاں کبھی بہت کم ملتیں اور کبھی زیادہ، لیکن اس روز ابا پر اللہ نے مہربانی کی چاروں بار ہر چکر میں جال پھینکتے دریا سے بے شمار مچھلیاں آ گئیں۔ ابا اور چاچا خیرو بہت خوش ہوئے۔ یعقوب یہ سب تیرے محنتی بیٹے کا کمال ہے میں دیکھ رہا تھا۔ کشتی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگی تھی۔
وہ ابا کا بڑا چہیتا بیٹا تھا۔ ابا نے اسے پیار کیا۔وقت گزرنے کے ساتھ توصیف بڑا ہو رہا تھا۔ کشتی بنانے کا ہنر سیکھ چکا تھا۔ایک دن جب پیسے اچھے خاصے جمع ہوگئے تو وہ ابا کے ساتھ بازار گیا۔ شیشم کی لکڑی انہیں بڑی مشکل سے ملی۔ ایک بوڑھے دکاندار سے اس نے کیلیں خریدیں۔ ’’کیا بناؤ گے بیٹا ‘‘انہوں نے شفقت سے پوچھا، میں ایک بہت بڑی کشتی بنانا چاہتا ہوں ’’اچھالو یہ وہ میخیں ہیں جس سے تمہاری کشتی بہت مضبوط بنے گی۔‘‘ وہ بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن ابا کے ساتھ دریا کنارے گیا چھ ماہی گیر کاریگر ساتھ لگائے اور شیشم کی لکڑی کے بڑے بڑے تختے کاٹے ،جن کو ایک دوسرے سے جوڑنےکے لیے اس نے چچا خیرو کے پاس قریب ہی کیلیں رکھ دی تھیں۔ کچھ دیر بعد دیکھا کیلیں وہاں نہیں ہیں۔
دوپہر سے شام ہو گئی لیکن کیلیں نہ ملیں۔ لاتعداد چھوٹے بڑے دریا کے کنارے تختے پڑے تھے ہر تختہ اٹھا کر دیکھا لیکن کہیں نہیں دکھائی دیں۔ آخر چچا خیرو نے کہا کہ کیلیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہو گئی ہیں۔ دوسری کیلیں لانی پڑیں گی۔ توصیف پریشان ہو گیا۔ ابا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے اللہ سے مدد مانگنے لگا۔ رات جب لیٹا تو اداس تھا۔ ایک خواب دیکھا تھا بڑی سی کشتی بنانے کا۔ اب پیسے کہاں سے آئیں گے۔ اسے خیال آیا کہ ماہی گیر برکت جو ابا سے جلتا ہے۔
چاچا خیرو کے پاس وہ اس روز ملنے آیا تھا۔ کیلیں اسی نے نہ چرائی ہوں۔ اسی لئے تو ابا کو پریشان دیکھ کر وہ خوش ہو رہا تھا۔ دوسرے روز چچا خیرو اپنی جمع پونجی لے کر اس کے پاس آیا بولا بیٹا ! میں تمہاری کیلوں کی حفاظت نہ کر سکا، یہ کچھ پیسے میرے پاس ہیں۔ تم پھر سے کیلیں لے آئو ‘‘ وہ جانتا تھا چاچا خیرو خود ایک غریب مچھیرا ہے۔ یہ پیسے اس نے کتنی مشکل سے جمع کیے ہوں گے۔’’ نہیں چاچا یہ رہنے دو‘‘۔ میں اپنے اللہ سے مدد مانگ رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے، آج ہماری ضرور غیبی مدد ہو گی ‘‘ وہ جال لے کر چاچا خیرو اور ابا کے ساتھ دریا پہنچا۔
بیچ دریا میں جب اس نے جال ڈالاتوجال بہت بھاری ہو گیا، اُس سےکھینچا نہیں جا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے جال باہر نکالا جو کالا پاپلیٹ اور پلہ مچھی سے بھرا ہوا تھا۔ شام تک مچھلیاں فروخت ہوگئیں۔ آج وہ اماں کےلئے لوہے کا نیا چولہا لے آیا اور ساتھ کیلیں بھی۔ آج اسے مچھلی کا سالن اور اماں کےاُبلے ہوئے چاول بہت مزیدار لگ رہے تھے۔ محنت کا ایک اور دن ختم ہوا۔’’محنت میں عظمت ہے ابا‘‘اس نے بہت سارے پیسے ابا کے پاس رکھتے ہوئے کہا ’’ ہاں بیٹا ایک روز تم ضرور کامیاب ہو جائو گے ‘‘ چند ہی دنوں میں ایک بڑی کشتی تیار ہوگئی۔ یہ دریا کی سب سے بڑی کشتی تھی۔ جس کے چار حصے تھے۔
دیکھنے والے حیران تھے۔ کشتی شیشم کی مضبوط لکڑی سے بنی تھی۔ یہ واقعی تند وتیز موجوں کا سامنا آسانی سے کر سکتی تھی۔ اس نے کشتی میں پاکستان کا جھنڈا لگا یا۔ اللہ نے اس کشتی میں بڑی برکت دی تھی۔ دریا میں جاتےہی جال پلہ مچھی سے بھر جاتا تھا۔ ابا اور چاچا خیرو بہت خوش تھے۔ توصیف کی جھونپڑی پکے مکان میں بدل چکی تھی اس کے چھوٹے بہن بھائی اب اسکول جانے لگے تھے، وہ خود بھی پڑھتا تھا۔ دیکھا بچوں محنت میں کتنی عظمت ہے آپ بھی محنت سے پڑھیں، کام کریں،ایک دن آپ بھی کامیاب ہوجائیں گے۔