• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم

جگمگاتی روشنیوں کا خاص انتظام بتا رہا تھا کہ گھر میں کوئی خاص تقریب ہے۔ مہمانوں کی آمد، خواتین، لڑکیوں بچیوں کے رنگ برنگے ملبوسات، لہراتے آنچل چمکتےاور کھلکھلاتے چہرے کسی اہم موقعے کی خبر دے رہے تھے ۔ اس اثناء میں آگے پیچھے چند گاڑیاں داخلی دروازے کے پاس آکر رکیں، کھٹ کھٹ دروازے کھلے، مہمانوں کا استقبال بڑے شاندار طریقے سے کیا گیا اور انہیں نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا ان میں ایک شخص کی زیادہ ہی آؤ بھگت کی جا رہی تھی، وہ بھی جیسے راجہ اندر بنا بیٹھا تھا۔

مہمانوں کے بیٹھتےہی ان کی تواضع مشرو بات سے کی گئی، مہکتے ماحول میں ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد جھلملاتے لباس میں بنی سنوری دلہن، بہنوں اور سہیلیوں کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرے میں مرد و خواتین سب ہی موجود تھے۔ انتظار اب مولوی صاحب کا تھا۔ دلہن کے بھائی نے جھنجھلا تے ہوئے یہ تیسرا فون کیا تھا۔’’کوئی وی آ ئی پی موومنٹ ہورہی ہے، ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں‘‘ ۔بےبسی سےفون بند کرتے ہوئے اس نے والد کو بتایا ۔ 

’’ کوئی بات نہیں بھائی صاحب ، آپ پریشان نہ ہوں ، آپ بھی یہیں ہیں اور ہم بھی، اسی بہانے آپ کی میزبانی سے مزید لطف اندوز ہو لیں گے ۔‘‘ لڑکے کے والد نے ماحول کا بوجھل پن کم کرتے ہوئے کہا ۔ ہلکی پھلکی گفتگو چل رہی تھی کہ دلہن کی بہن نے ماں کو ٹہوکا دیا ،’’امی یہ موقع مناسب ہے آپ بات کر لیں ۔ ’’ اس نے سرگوشی کی ۔ ’’بولیں نا۔‘‘ اس نے ماں پر دوبارہ زور دیا ۔اور ساتھ بیٹھی سمدھن کی طرف اشارہ کیا ۔ امی نے آہستہ سے سر ہلا یااور پھر برابر بیٹھی سمدھن سے آہستہ آہستہ کچھہ کہنے لگیں۔ 

امی کے ہلتے لبوں سے برابر بیٹھی خاتون کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی آتی جا رہی تھی، انہوں نے تحمل سے بات سنی پھر جواباً کچھ کہا لیکن شاید دلہن کی والدہ اپنی بات پر قائم تھیں۔ پریشانی کے عالم میں اُٹھیں، اشارے سے شوہر کو بلایا اور دلہن کی والدہ کے مطالبات گوش گزار کیے ۔’’سارے معاملات توطے ہو چکے تھے یہ کون سا وقت ہے، اس ساری بات چیت کا‘‘....؟والد صاحب جزبز ہوئے ۔’’ بھائی صاحب ، مہر کی بات اور دوسرے چند معاملات پر بات نہ صرف ہوگئ تھی بلکہ ختم بھی ہوگئی تھی، پھر یہ کون سا وقت ہے دوبارہ اس طرح کے معاملات پر بات کرنے کا؟ 

’’دولہا کے والد کے لہجہ میں ناراضی اور غصہ عیاں تھا ۔ ’’مہر ہمارا حق ہے۔‘‘( اور پھر یہی تو وقت ہوتا ہے، جب اگلا مجبور ہو جاتا ہے) ’’اس سے کون انکاری ہے ، تین لاکھ مہر مناسب ہے، پھر یہ پانچ لاکھ۔!!‘‘کوئی خاص فرق تو نہیں، تین اور پانچ میں،اس کے علاوہ صرف ایک علیحدہ گاڑی کی فرمائش ہی تو کی ہے۔ ’’ بحث کا آغاز ہو چکا تھا۔ تو دوسری طرف ماحول میں تناؤ کی چادر تن چکی تھی ۔ جو چہرے کچھ دیر قبل چمک رہے تھے ، اب فکر مند سے تھے ۔ ہنستی مسکراتی محفل پر مادیت کی تہہ اور تعلق میں زر پرستی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ۔ اور یہ تہہ اب ہر رشتے اور تعلق سے نتھی ہورہی تھی ۔ سب سے پہلے تو ہم یہ تعین کریں کہ نکاح ہے کیا؟؟ ، ایک معاہدہ یا بندھن ۔۔۔!! یاد رہے یہ بزنس ڈیل نہیں۔ بلکہ دو خاندانوں کے مابین ایک پاکیزہ رشتے کو قائم و دائم رکھنے کا اعلان ہے۔ 

رشتہ کاغذی ضرور ہے ، کاغذ کے ذریعے جڑا اور کاغذ کے توسط سے ہی ختم، لیکن یہی رشتہ، دنیا کا سب سے خوبصورت اور مضبوط رشتہ بھی کہلاتا ہے۔ ریشم کی ڈور سا نازک، رنگین ، ملائم اور جاندار ، کیونکہ اس کی جڑوں میں محبت ، وفا، خلوص ، ایثار، قربانی اور امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ دنیا کے اکثر رشتے کچھ لو اور دو کے اصول پر قائم ہیں ، ماسوائے چند رشتوں کے ، جس میں اگر دینے کا جذبہ حاوی رہے تو دنیا کی کوئی طاقت نہ اسے کمزور کر سکتی ہے اور نہ ختم ، یہ تو صبر ، برداشت اور درگزر سے جڑا تعلق ہے۔ 

اس رشتے میں بھلا شرائط ومطالبات کہاں سے آگئے ۔؟؟چاہے وہ کسی بھی فریق کی جانب سے ہو۔!!پچھلے دنوں پڑوسی ملک میں ایک جوڑے نے ، نکاح کے معاہدہ کو بھرتے ہوئے دولہے نے ، دلہن کی طرف سے چند شرائط قبول کرنے کی ہامی بھری ، جس میں ہر اتوار ناشتہ بنا نا، پندرہ روزہ شاپنگ ، اور ماہانہ باہر کھانا کھلانا شامل ہے ۔ بظاہر یہ دلچسپ صحیح، لیکن نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے ایک نئی راہ کھول دی گئی، یہ راہ کس سمت اور کس منزل پر جا کر ٹھہرے گی، اس کا اندازہ آپ اور ہم بخوبی کر سکتے ہیں۔ 

آج اگر شاپنگ اور ہفتہ واری ناشتہ پر معاہدہ طے پایا ہے تو کل کوئی اور اس میں ہفتہ میں تین دن ہوٹلنگ ، گھریلو کاموں میں تقسیم اور شاپنگ کے اخراجات کا تعین ، تفریحات کی تفصیل اور دوسرے دیگر معاملات کا بھی اضافہ کرے گا ، پھر یہی بڑھتے بڑھتے، نوبت یہاں پہنچے گی کہ لڑکی کون کون سے کام انجام دے گی، اس کو ماہانہ جیب خرچ کتنا دیا جائے گا ، وہ اپنی مرضی کی مالک ہوگی، کسی کی پابند نہیں ، کیا ایسی شرائط کے بعد ہم توقع رکھیں کہ گھر کامیابی سے بس سکتے ہیں ؟؟ یقیناً جہاں بنیاد درست نہ ہو، اس کی عمارت کمزور رہتی ہے ۔ یہاں یہ نہ سوچا جائے کہ ہم ان معمولی شرائط ، جو پڑوسی ملک کی دلہن نے اپنے دولہے سے کیں، پر بے جا اعتراض کررہے ہیں۔ 

یہ اعتراض نہ ہوتے اگر چہ تو ساری دنیا کے سامنے نہ کیے جاتے ۔ آپس میں ہی میاں بیوی ، شادی کے بعد یا قبل از نکاح کرتے، جس میں پیار بھی ہوتا تو، ناز اور مان بھی ، لیکن اس طرح تو ایک شہہ دی جارہی ہے ، منفی سمت نئی راہ سجھائی جارہی ہے کہ شادی سے پہلے ہی سب کے سامنے اپنے مطالبات منوالو، تا کہ بعد میں مکر نہ جائے ۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ ضروری نہیں کہ یہ شرائط صرف دلہن والوں کی طرف سے ہوں، اکثر مطالبات لڑکے والوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں ، اور بڑی حد تک غلط ہوتے ہیں، ہماری شادی بیاہ کی تقریبات پہلے ہی رسم و رواج کی اونچی فصیلوں میں قید ہیں، یہ مطالبات اور شرائط اس تعلق کو مزید کمزور کر دے گا۔ 

مادیت پرستی نے نکاح کے بندھن کو اتنا ارزاں اور تکلیف دہ بنا دیا ہے ، جس مذہب اور معاشرے میں نکاح حد درجے آسان ، کامیاب اور مضبوط بندھن سمجھا جاتا تھا اب وہ اتنا ہی دشوار ، پیچیدہ ،گراں ہوگیا۔ جو رشتہ ایثار و خلوص کی چاشنی پر استوار ہوتا تھا اب وہ معاہدہ بن کر شرائط کا محتاج بن چکا ہے ۔ چونکہ ہم بھیڑ چال کے شیدائی ہیں۔ لہٰذا وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہاں بھی یہ رواج عام ہو جائے گا۔ ابتدا میں تو اس کو ہنسی اور مذاق کا نام دے کر نظر انداز کیا جائے گا، پھر رفتہ رفتہ اس کو سنجیدگی سے لیا جانے لگے گا، جس معاشرے میں عدم برداشت ، کی وجہ سے پہلے ہی ٹوٹتے گھروں کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہو۔ وہاں ایسی شرائط ہر گز قابلِ قبول نہیں۔

یہ غلط فہمی بھی فریقین دور کرلیں کہ نکاح کے ساتھ شرائط لکھواکر یا مہر کی کثیر رقم لکھوا کر وہ اپنی بیٹی کا مستقبل محفوظ کرلیں گے، پیسہ کسی بھی رشتے کے استحکام کا باعث نہیں ہوتا ، اور نہ ہی شرائط اس رشتے کی ضامن ہیں ، صرف سمجھداری و شعور ہی اس تعلق کو پائیدار بنا سکتی ہے، جس تیزی سے ہمارے ہاں مغربی چلن عام ہو رہا ہے تو اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ کچھ عرصے بعد نکاح نامے میں ، لڑکی ، لڑکے کی طرف سے شرائط کے خانے کا اضافہ نہ ہو جائے ، جہاں من مانے مطالبات کا اندراج کیا جا سکے۔اگرچہ یہ صرف اندازہ ہے، لیکن اندازے ، حقیقت بنتے دیر نہیں لگتی۔