• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب سے گزر رہے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات ملکی اقتصادی و سماجی ترقی کی ضامن ہیں ۔ اعلیٰ تکنیکی بر آمدات کثیر آمدنی والی اشیاء میں شمار ہوتی ہیں اور ان کی برآمدات سے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کو پچھلی کئی دہائیوں سے درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہماری برآمدات کم آمدنی والی اشیا تک محدود ہیں جبکہ ترقی کے بڑے مواقع اعلیٰ تکنیکی کثیر آمدنی والی اشیا کی برآمدات میں ہیں۔ پاکستان کی سب سےزیادہ برآمدات کپاس اورکپڑا سازی کی مصنوعات، چاول، پھل اور سبزیاں، کھیلوں کے سامان اور چمڑے کی مصنوعات ہیں۔ ہماری برآمدات کاتقریباً ٪90 فیصد حصہ ان کم آمدنی والی اشیا پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں کوریا کی برآمدات مربوط سرکٹس،موٹر گاڑیوں ، مسافر بردار اور سامان برداربحری جہازوں اور ان کے پرزہ جات پر مشتمل ہے۔اسی طرح تائیوان کی بڑی برآمدات برقیات، بنیادی دھاتیں اور دھاتی مصنوعات، پلاسٹک اور ربڑ، کیمیائی مرکبات اور مشینری ہیں۔ بھارت کی بھی زیادہ تر برآمدات میںزیادہ آمدنی والی اشیا ء انجینئرنگ کا سامان، پیٹرولیم مصنوعات، جواہرات اور زیورات، نامیاتی اور غیر نامیاتی کیمیائی مرکبات ، ادویات اور دواسازی، برقی مصنوعات اور سافٹ ویئر شامل ہیں ۔ اس سے ظاہر ہو تا کہ ہم قومی سطح پر درست راستے پر نہیں اور ہمیں اپنی سمت کو تبدیل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئےکہ پاکستان تکنیکی مصنوعات بنانے والا اور برآمد کنندہ ملک بن سکے۔ ا س سلسلے میں ایک نئی شروعات کی فوری ضرورت ہے۔ماضی میں کچھ انتہائی پر بصیرت دستاویز تیار کی گئی تھیں جس میں وژن 2010، وژن 2030اور میری سرپرستی میں تیار کردہ ’’ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی وژن، اور پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئےحکمت عملی‘‘ جو کابینہ سے منظوربھی ہوئی شامل ہیں ۔یہ سب بہترین دستاویزات ہیں لیکن افسوس کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں میں ان پر عمل درآمد کیلئے عزم کا فقدان رہا۔ علمی معیشت کی طرف لے جانے والی قومی ترجیحات کا حکومتی قیادت کی جانب سے کبھی مربوط و مضبوط تعین نہیں کیا گیا نتیجتاً محدود مالی وسائل کی وجہ سے ہم تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ، ملک کی زبوں حالی کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 2.5فیصدتعلیم پر اور 0.3ٖفیصدسے بھی کم سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتا ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ جی ڈی پی 2007 میں 0.63فیصد تک پہنچی تھی لیکن بعد میں اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی گئی ۔

پاکستان کو غربت اور جہالت سے نکالنے کیلئےاہم فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے واضح طور پرنئی سمت کا احساس اور مضبوط سیاسی ارادے کی ضرورت ہے۔ وسیع پیمانے پر خواندگی کے حصول کیلئے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، اچھے تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت کے اسکول قائم کرنا ہوں گے، اچھے کالج اور اعلیٰ معیار کی جامعات قائم کرنی ہوں گی جن میں منتخب شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کے مراکزموجود ہوں ۔ اس کے علاوہ ہمیں صنعت کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے،اور جدت طرازی کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ صنعتی ادارے کلیدی شعبوں میں قائم کرنے کی ضرورت ہے، جیسے صنعتی بائیو ٹیکنالوجی، دواسازی ، انجینئرنگ کا سامان ، برقیات، معدنیات نکالنے اور صفائی کی ٹیکنالوجی اور دیگر اعلی تکنیکی شعبے۔

واضح قومی پالیسیوں اور مثبت حکمت عملیوں کے تحت ، سنگاپور، کوریا، تائیوان، بھارت اور جاپان نے کم ٹیکنالوجی کی اشیاء جیسے کہ کپڑا سازی کے بجائے اعلیٰ ٹیکنالوجی کی منتخب صنعتوں پر توجہ مرکوز کی تھی ۔ اس کے نتیجے میں ان کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا اور انہیں ایک مضبوط مسابقتی برتری حاصل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ کووِڈ وبائی مرض کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسینز کا سب سے بڑا عالمی برآمد کنندہ ہندوستان ہے، جس نے پچھلی کئی دہائیوں میں ویکسین سمیت دواسازی کی بنیادی تیاری میں اپنی صلاحیتوں کو منظم طریقے سے مضبوط کیا ہے۔ پاکستان کو درپیش ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً تمام تحقیق و ترقی ،سرکاری شعبے کے تحت اداروں کے ذریعے کی جاتی ہے، جب کہ نجی شعبہ کی جانب سے تحقیق و ترقی میں انتہائی معمولی شراکت کی جاتی ہے۔ اس معاملے پر گہری توجہ کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں نجی شعبہ کے تحقیق و ترقی کے اخراجات سرکاری شعبے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے حکومت ایسی اسکیمیںمتعارف کر سکتی ہے جس کے تحت صنعتی کمپنیاں اگر تحقیق و ترقی کی لیبارٹریاں قائم کریں اور اپنی کمپنیوں میں تحقیق پر اخراجات کریں تو ان کو 300فیصدٹیکس کی چھوٹ دی جائے ۔ چین، ہندوستان اور کچھ مشرقی ایشیائی ممالک نے اس طرح کی پالیسیوں کو نافذ کیا اور جدت طرازی کو متحرک کرنے کیلئےفرم کی سطح پر تحقیق و تربیت کو فروغ دیا۔ ہنر مند انجینئرز اور محققین کی خدمات حاصل کرنے کیلئے نجی کمپنیوں کو سرکاری مراعات دی گئیں۔ اعلی تکنیکی صنعتوں کے قیام کیلئے ٹیکس مراعات کی پیشکش کی گئی۔ خصوصی تجارتی عدالتوں کے ذریعے تنازعات کا فوری حل متعارف کرایا گیا تاکہ عدالتی مقدمات کا تیزی سے تصفیہ ہو سکے۔ مسابقت کے مناسب قوانین کے نفاذ نے جدت طرازی کو فروغ دینے اور برآمدات اور درآمدی متبادل پروگرام دونوں کیلئے مسابقت کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد کی۔تحقیق و کاروبار کیلئے فنڈز کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ اس وقت پاکستان میں جامعات کے اساتذہ کو صنعتوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسے تبدیل کیا جانا چاہئے، جیسا کہ جاپان، کوریا اور بہت سے دوسرے تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں کیا گیا ہے جہاں جامعات کےاساتذہ کیلئےصنعت کے مشیر کے طور پر کام کرنا عام ہے۔غربت دور کرنے کیلئے جدت طرازی کی پالیسیوں پر خاص توجہ دی جانی چاہئے۔ پاکستان میں تیز ترین ترقی کیلئے ہمیں اپنا راستہ فوری طور پر تبدیل کرنا چاہئے اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔یہ وہ راستے ہیں جو چوتھے صنعتی انقلاب نے ہمارے لئے کھولے ہیں ۔

تازہ ترین