• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں ’’شہید‘‘ کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ

مولانا نعمان نعیم

اسلام میں’’ شہید ‘‘کے مقام اور شہادت کی عظمت کے حوالے سے امام الانبیاءﷺ کا یہ ارشاد سند کادرجہ رکھتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:جو شخص بھی جنت میں داخل ہو تا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (اس کا معاملہ یہ ہے)کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ واپس لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ (راہِ خدا میں بار بار شہید کیا جائے) (صحیح بخاری، صحیح مسلم، بیہقی)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید) کیاجائوں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیاجائوں، پھر شہید کیا جائوں، پھر زندہ کیاجائوں اور پھر شہیدکیا جائوں‘‘۔(صحیح بخاری،مشکوٰۃ المصابیح)

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جان لو! کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔(صحیح بخاری)

شہید کی عظمت اور شہادت کے مقام کے حوالے سے ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادہوا:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتا ہے‘‘۔(سورئہ آل عمران)

’’ سورۃ النساء ‘‘ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل وکرم اور انعام و اکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم اور سیدھے راستے کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔

چناںچہ ارشادِخداوندی ہے:’’جوکوئی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺکی(ایمان اورصدقِ دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے، پس وہ(روزِقیامت) ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پراللہ تعالیٰ نے (اپناخاص ) انعام فرمایا ہے، جوکہ انبیاءؑ، صدیقین، شہداء اورصالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں‘‘۔(سورۃ النساء)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا : شہدائے کرام جنت کے دروازے پر نہر بارق پر سبز قبے میں ہیں اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہنچتا ہے۔(مسند احمد،مستدرک ،طبرانی)

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی۔ (طبرانی۔ مجمع الزوائد)

حضرت مسروق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:ترجمہ:اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کردئیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرّب ہیں، انہیں رزق بھی ملتا ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو – اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی۔ (صحیح بخاری ومسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہید کو (راہِ خدا میں) قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ (ترمذی،نسائی، دارمی)

شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اﷲ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے، لہٰذا ایک مومن کی تو دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔

ارشاد ِربانی ہے:ترجمہ:تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء ، صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ (سورۃ النساء)اس آیت کریمہ میں راہِ خدا کے جاں باز شہیدوں کو انبیاءؑ و صدیقین کے بعد تیسرا مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔ شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے۔اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں ،جو احکام القرآن جصاص، احکام القرآن قرطبی اور دیگر مستند تفاسیر میں مذکور ہیں۔

(1) کیونکہ شہید کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دی گئی ہے کہ وہ یقیناً جنتی ہے …( 2 ) کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد یعنی حاضر رہتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، جب کہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی۔ نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے…( 3) ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی المقتول یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا…( 4) کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں…( 5) جب اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی۔ اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی، شہادت کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے۔( 6) ابن انبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دیتے ہیں، اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے…( 7) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں…( 8) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد یعنی حاضر ہوتے ہیں…(9) اس کے پاس ایک شاہد گواہ ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون، کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا۔

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں ( 1) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے۔ ( 2) اور اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ (3) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے۔ (4) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔ (5) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (6 ) بہتّر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ( 7) اور اپنے اقارب میں ستّر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ ( مسند احمد )

ماہِ محرم ہمیں نواسۂ رسولؐ،شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ اوران کے عظیم جاں نثاروں کی یاد دلاتا ہے ،جنہوں نے کربلا میں ظلم اور باطل نظام کے خلاف کلمۂ حق بلند کرتے ہوئے راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کیں۔ شہدائے کربلا کے سالارسیدنا حضرت حسینؓ کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدائے اسلام کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے…( آمین یا رب العالمین)

برائی کے خلاف جہاد…!

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں اسے برا جانے۔ یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم)