• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر۔۔ لیسٹر
حالیہ بارشوں نے ملک میں جو تباہی پھیلائی ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور شخص کو ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی خبریں پل بھر میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچ جاتی ہیں، لیکن دور دراز کی خبریں عموماً تاخیر سے منظرِ عام پر آتی ہیں۔ ویسے بھی بلوچوں کا نوحہ سننے والا کوئی نہیں۔ بدقسمتی سے جو تباہی اس دفعہ بلوچستان میں ہوئی ہے اس کا اندازہ عام پاکستانیوں کو نہیں ہے۔ بلوچستان سیلابی ریلوں سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ 34 میں سے 26 اضلاع میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے وہ تباہی مچائی ہے جسے سن کر آدمی کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے بیلا ڈیم ٹوٹنے سے نشیبی علاقے زیرِآب آئے۔ جس میں کئی لوگ ڈوب کر ہلاک ہوگئے، پھر زہری میں بھی بند ٹوٹ گیا۔ رفتہ رفتہ پورا بلوچستان سیلابی ریلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ لوگ ڈوب رہے ہیں ان کے مال مویشی بہہ چکے ہیں۔ مکانات ختم ہو گئے ہیں،رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔ کچھ اپنے بیوی بچوں کو لے کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔ جہاں انسان ہیں وہیں سانپوں کا بسیرا ہے۔ سانپ بھی انہیں ڈس رہے ہیں، کچھ بے بس درختوں پر چڑھ کر اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں۔ عمر رسیدہ، معذور اور علیل انسان کہاں جائیں۔ بلوچستان کی حالت اس قدر خستہ اور ناگفتہ ہے کہ سیکڑوں میل کے فاصلوں تک اسپتال نہیں ہیں۔ فریاد کناں مریض کہاں جائیں؟ جلد کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اسی طرح ملیریا اور دیگر وباؤں کے پھیلنے کا بھی شدید خطرہ ہے۔ یہاں کے باشندے عام حالات میں صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔اب یہ یکا یک ہنگامی صورت حال سے دوچار ہو نگے ہیں۔ جہاں سیکڑوں انسان بہہ گئے ہیں۔ ہزاروں مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔ سڑکیں اکھڑی ہوئی اور پل ٹوٹ چکے ہیں۔ بجلی کے کھمبے سیکڑوں کی تعداد میں گر چکے ہیں۔ بلوچستان کے لوگ کہتے ہیں کہ بارشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن قیامت خیز ریلے اس طرح کے کبھی نہیں دیکھےتھے۔ جن لوگوں نے لاچار اور بے بس انسانوں کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتے دیکھا ہے وہ شاید زندگی بھر اس المیے کو نہ بھلا سکیں۔ چند روز قبل اخبارات میں ایک ایسے لا چار شخص کی لاش کی تصویر دکھائی دی جس میں وہ درخت پر اٹکا ہوا تھا۔ معلوم نہیں وہ کن حالات سے دوچار ہونے کے بعد اس حالت کو پہنچا تھا۔ عموماً غریبوں کے مکانات ویسے بھی مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ یہ جھونپڑیوں کے مکیں ہیں، ان میں وہ سہولتیں نہیں ہوتی جو اسلام آباد کے باشندوں کو حاصل ہیں۔ انہیں ہر طرف پانی دکھائی دیتا ہے لیکن پینے کا پانی میسر نہیں۔ ان کے بستر اور برتن تک بہہ چکے ہیں۔ بچے بھوک و پیاس سے بلک رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں کے مالک سیاست دان اور حکمران ان کی زندگیاں بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھتے ان میں غریبوں کے لیے کوئی احساس نہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر صرف سیاست دانوں کے جلسوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کی آمد ورفت کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ غریب ڈوبتے ہیں تو ڈوبتے رہیں۔ البتہ فوج مدد کر رہی ہے۔ کچھ لوگ دو تین روز مسلسل سفر کر کے کہیں محفوظ جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سیلاب کے متاثرین امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ حکومت مدد تو کر رہی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ اسی طرح کچھ رفاعی ادارے اور امدادی تنظیمیں ان کی مدد کو پہنچی ہیں۔ جن میں الخدمت پیش پیش ہے۔ الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور نے عوام اور مخیر حضرات سے درد مندانہ اپیل کی ہے کہ لوگ ان کی مدد کیلئے بڑھ چڑھ کر عطیات دیں۔ کئی دوسری تنظیمیں بھی مدد کر رہی ہیں۔ الخیر اور اسلامک ریلیف وغیرہ ہیں۔ لیکن یہ مدد ناکافی ہے۔ جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں خاندان متاثر ہو جائیں۔ وہاں ان کی بحالی کیلئے بے تحاشہ فنڈز کی ضرورت ہوگی۔ اس میں پوری قوم کو آگے بڑھنا چاہیے۔ خوشی ہوتی ہے جب کچھ درد مند اپنی جانوں پر کھیل کر بے بسوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ ان میں لورا لائی کے ٹھیکے دار عطاء الرحمن کا کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے جس نے جان پر کھیل کر کئی لوگوں کی جان بچائیں۔ ایک طرف بارشوں کی وجہ سے ملک پانی میں ڈوب چکا ہے اور دوسری طرف ملک قرضوں میں ڈوبنے کے قریب ہے لیکن ہمارے سیاست دان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ انہیں اس کی فکر نہیں کہ انجامِ گلستان کیا ہو گا وہ اپنی ہٹ دھرمی پر جمے ہوئے ہیں روم کے شہنشاہ نیرو کے متعلق یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو سکھ اور چین کی بانسری بجا رہا تھا ہمارے سیاست دانوں کا حال اس سے مختلف نہیں، یہ بھی ان کٹھن حالات میں بانسری بجا رہے ہیں۔
یورپ سے سے مزید