• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرہ تکنیکی ترقی کے دہانے پر ہے، ایسے میں ہمیں مستقبل کے سائنس دانوں، ریاضی دانوں، انجینئروں، کاروباری رہنماؤں، وغیرہ میں ایک مضبوط اخلاقی بنیاد تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ آنے والی نسلوں کی اخلاقی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ وقت کے لحاظ سے یا اپنے اسکول کے نظام کے موجودہ ڈھانچے کی وجہ سے خود کو محدود محسوس کر سکتے ہیں، ایک مضبوط اخلاقی بنیاد کو استوار کرتے ہوئے طلبہ کو تعلیم دینا ممکن ہے۔ اس کے لیے طالب علموں کی فکری عاجزی پیدا کرنے میں مدد کرنا ہے، یہ ایک ایسا معیار ہے جو ہمیں انسانیت کی قدر کرنے میں مدد کرتا ہے۔

فکری عاجزی بطور اخلاقی ترقی

فکری عاجزی ’دانشورانہ خوبیوں‘ جیسے تجسس اور کھلے ذہن کے ایک مجموعہ کا حصہ ہے، جو تعلیمی کامیابی میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ ایک فلسفی جیسن بیہر کے مطابق، یہ خوبیاں طلبہ کو ’تحقیق، سیکھنے اور استدلال کے تناظر میں عمل کرنے، سوچنے اور اچھا محسوس کرنے‘ کی ترغیب دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک ایسے کلاس روم کا تصور کریں جہاں طلبہ جو کچھ سیکھ رہے ہیں، اس میں وہ پوری طرح مشغول ہوں، سوالات پوچھنے، خیالات اور آراء شیئر کرنے، اور مواد کے ساتھ خطرہ مول لینے میں خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہوں۔ یہی کلاس روم کی ثقافت ہے، جسے فکری خوبیاں تخلیق کر سکتی ہیں۔

فکری عاجزی، خاص طور پر، طالب علموں کو یہ تسلیم کرنے میں مدد کرتی ہے کہ کسی تصور کے بارے میں ان کے عقائد یا سمجھ غلط ہو سکتی ہے۔ یہ انھیں دوسرے لوگوں کے خیالات کے لیے مزید اوپن بھی بنا سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ طلبہ جو فکری عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ اس بحث میں شامل ہونے میں تحفظ محسوس کرتے ہیں جس میں وہ اپنے خیالات کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیالات ناقص یا غلط ہو سکتے ہیں، تو وہ اسے ذاتی طور پر نہیں لیتے۔ وہ صرف اپنی سوچ بدلیں اور آگے بڑھیں۔ علمی ترقی پر زور دینے کی وجہ سے علمی خوبیاں طلبہ میں اخلاقی بنیاد پیدا کرتی نظر نہیں آتیں۔

اس کا اخلاقیات سے کیا تعلق ہے؟ ایک مختلف تحقیق میں، سائنسدانوں نے پایا کہ جو لوگ سماجی چوکسی میں اعلیٰ اسکور کرتے ہیں وہ زبانی طور پر ایسے لوگوں کی توہین کرتے ہیں جو اِن سے متفق نہیں۔

کلاس میں فکری عاجزی پیدا کرنا

اساتذہ فکری عاجزی کی حوصلہ افزائی کیسے کر سکتے ہیں، خاص طور پر جن کو یہ نہیں معلوم کہ وقت کہاں سے نکالا جائے یا اپنے پڑھائے جانے والے مضامین میں انھیں کیسے فٹ کیا جائے؟ عاجزی کی مشق کرنا تازہ ہوا کے سانس کی طرح ہے۔ یہ دوسروں کے ساتھ آپ کے روابط کو زیادہ بھروسہ مند، اوپن اور واضح طور پر زیادہ پرلطف بناتا ہے۔

عاجزی پر عمل کرنے کا ایک اور طریقہ جو طلبہ کے ساتھ اپنے تعاملات کو انسانی بنانے میں اساتذہ کی مدد کر سکتا ہے ، وہ جیکی برائنٹ کی طرف سے آتا ہے، جو انٹلیکچوئل ورچوئس اکیڈمی (IVA) کے بانی پرنسپل ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہر سال ان کی اکیڈمی کے اساتذہ خود پر کام کرنے کے لیے ایک فکری خوبی کا انتخاب کرتے ہیں، جیسا کہ فکری عاجزی۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا اصول یا تعلیمی ماحول نہیں ہے جو فکری عاجزی کی حمایت کرتا ہو تو پھر بھی آپ طالب علموں کے ساتھ کوشش کرنے سے پہلے یہ دریافت کرنے کے لیے ایک ساتھی تلاش کر سکتے ہیں کہ کلاس روم میں یہ کیسا نظر آتا ہے۔ 

اپنے ساتھی استاد کے ساتھ اکٹھے ہوں، اس بارے میں بات کریں کہ ایک کلاس روم کلچر کو کیسے ترتیب دیا جائے، جو زبردست خیالات (جو دوسروں کے لیے نقصان دہ نہ ہوں)، شاندار غلطیوں اور مضحکہ خیز سوالات کا خیرمقدم کرے۔ دوسرے لفظوں میں، آپ اس بات کو کیسے یقینی بنائیں گے کہ طلبہ خود کو اور ایک دوسرے کو نامکمل، خوبصورت انسانوں کے طور پر دیکھیں جو ایک دوسرے کی رائے، بصیرت اور سوالات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ فکری عاجزی کو تلاش کرنے اور آزمانے کے بعد، یہاں کچھ اور آسان چیزیں ہیں، جو اساتذہ اپنے طلبہ میں پیدا کر سکتے ہیں۔

1- ہمارے عقائد ہمارے وجود کے تانے بانے کا حصہ ہیں۔ جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو ان عقائد سے اتفاق نہیں کرتا تو یہ ایک ذاتی حملے کی طرح محسوس ہوتا ہے، جس سے ہم فکری عاجزی کے بجائے ایک ’سماجی چوکس‘ کی طرح جواب دیتے ہیں۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ’خود سے دوری‘ یعنی اپنے آپ کو باہر کے مبصر کی طرح دیکھنا، فکری عاجزی میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق خود سے دوری اختیار کرکے شرکاء باہمی چیلنجوں پر غور کرتے وقت فکری طور پر بہت زیادہ عاجز ہوگئے۔ یہ نہ صرف ہماری اپنی انسانیت سے جڑنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے، بلکہ یہ ہمیں دوسروں کو انسانوں کے طور پر دیکھنے میں بھی مدد دیتا ہے، جو اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

2- تعلیمی مواد کے انسانی پہلو پر زور دیں۔ اگرچہ بہت سے اساتذہ اپنے پڑھائے جانے والے تعلیمی مواد کو پسند کرتے ہیں، لیکن زندگی کا بہت کم تجربہ رکھنے والے طلبہ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے کہ یہ مواد کیوں اہم ہے۔ طلبہ کو یہ دریافت کرنے میں مدد کرنا کہ مواد اِن کے لیے ذاتی طور پر کس طرح معنی خیز ہے اور اس کا انسانوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، نصاب میں انسانیت کو فروغ دیتا ہے۔ اور اگر وہ ان خیالات کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو وہ تجربہ کریں گے کہ دوسرے لوگ دنیا کو ان سے مختلف طریقے سے کیسے دیکھ سکتے ہیں، یوں وہ فکری عاجزی کے اظہار کے لیے ایک قدم قریب ہوجاتے ہیں۔

3- مختلف تدریسی تکنیکوں کا استعمال کریں۔ کچھ تدریسی تکنیکوں میں کئی ایسی چیزیں شامل ہیں جو فکری عاجزی کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہیں، جیسے کہ 3-2-1برج اور ٹگ فار ٹچ۔ 3-2-1برج میں، طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نئے تعلیمی موضوع پر غور کریں جو وہ سیکھنے والے ہیں۔ خاص طور پر، وہ موضوع کے بارے میں تین خیالات، دو سوالات، اور ایک استعارہ یا تشبیہ لکھتے ہیں۔ جب نئے موضوع پر اسباق مکمل ہو جائیں، طلبہ وہی مشق کرتے ہیں۔ پھر ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے ساتھی کے ساتھ اشتراک کریں کہ کس طرح اس کی سوچ شروع سے تبدیل ہوئی۔ اس طرح، طالب علم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا علم اور خیالات نئی معلومات کے ساتھ کس طرح تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ فکری عاجزی کی ایک بہترین مثال ہے۔

ٹگ فار ٹروتھ میں، اساتذہ سچائی کے سوال کی نشاندہی کرتے ہیں اور طلبہ سے اس دعوے کے بارے میں رائے طلب کرتے ہیں۔ طلبہ اس کے بعد بورڈ پر ایک "ٹگ آف وار" ڈایاگرام میں اس کے بعد کا اضافہ کرتے اور دعوے کی پشت پناہی کرنے یا اس کی تردید کرنے کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ وہ سوالات کے جوابات کے ذریعے مزید معلومات فراہم کرتے ہیں۔

لیکن ایک آسان ترین طریقہ جو تحقیق نے عاجزی پیدا کرنے کے حوالے سے پایا، وہ یہ کہ طالب علم صرف ایک دوسرے کو سنیں اور یہ سمجھیں کہ دوسرے لوگوں کے پاس ہمیں سکھانے کے لیے کچھ ہے۔ ان خوبیوں پر عمل کرنا سیکھنے کو خوشگوار بنا سکتا ہے اور ہو سکتا ہے ہم ایک ساتھ، انسان ہونے میں ایک بار پھر خوشی حاصل کر سکیں۔