• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیشن کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ ایک بلائنڈ کینوس ہے اس پہ ڈیزائنر جو لکھناچاہے لکھ دے جو بنانا چاہے بنا دے۔اسی لئے اس شعبے کو فائن آرٹس کا نام دیا جاتا ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں فیشن ڈیزائننگ ایک پر کشش،گلیمرس اور منافع بخش فیلڈ سمجھی جاتی ہے ۔تخلیقی ذہن رکھنے والے حضرات کے لئےفیشن ڈیزائننگ اور اسٹائلنگ سے بہتر اور کوئی فیلڈ نہیں سمجھی جا تی۔اکیسویں صدی میں فیشن ڈیزائننگ کا شعبہ ایک آرٹ کے طور پر تسلیم کیا جاچکاہےجو قدرتی حسن کو نکھارنے کے ساتھ افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافے اور وسائل کو ترقی دینے کے لئے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔

پاکستان میں 100سے زائد دیگر شعبہ جات مثلاً(پرنٹ میڈیایعنی اخبارات ورسائل،الیکٹرانک میڈیا،ریڈیو،ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ فوٹو گرافی کی صنعت اورمینوفیکچرنگ انڈسٹری)بھی فیشن ڈیزائننگ سے منسلک کئے جاتے ہیں جس کے باعث لاکھوں افرادکے لئے روزگار کا حصول بھی اس شعبے میں آسان ہوگیا ہے۔اب وہ دور گیا جب ٹیلر ایک فرد واحد کے طور پر گارمنٹ تیار کرتا تھا اب لباس کی تیاری کے لئے بہت سے ماہرین کی مہارتوں کو بروئے کار لایاجاتا ہے۔اب لباس مختلف فیشن ہاؤسراور بے شمار ماہرین کی مدد سے تیار کرواتے ہیں۔

ان ماہرین میں فیشن ڈیزائنر، ٹیکنیکل ڈیزائنر، پیٹرن میکر، ٹیلر، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اسٹائلسٹ، پینٹر یا فوٹو گرافر، فیشن فورکارسٹر، ماڈلز اور فیشن جرنلسٹس شامل ہیں جن کا اس شعبے کی ترویج میں اپنا اپنا اور اہم کردار ہے۔

فیشن انڈسٹری کی شروعات انیسویں صدی میں ہوئی جہاں چارلس فریڈرک ورتھ وہ پہلا ڈیزائنر مانا جاتا ہے جس نے اپنا برانڈ متعارف کروایا۔ ورتھ نے ہی سب سے پہلے اپنے کسٹمرز کو لباس کے انتخاب کے لیے رہنمائی دینا شروع کی۔جس کے بعد دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ڈیزائنر ملبوسات کے بڑ ھتے ہوئے رجحان نے فیشن ڈیزائننگ کے شعبے کو فروغ دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔

پاکستانی فیشن کے 75سال، ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں

آج دنیا بھر میں اس شعبہ نےایک اکیڈمی کی حیثیت حاصل کر لی ہےجہاں روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے اس شعبہ کے ماہرین تیار کیے جارہے ہیں۔ہمارے یہاں بھی کئی ادارے فیشن ڈیزائننگ میں ڈگری اور سرٹیفکیٹ کورسز کے ساتھ ساتھ نئے ڈیزائنرز کو متعارف کروانے اوربین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ معروف جامعات اور کالجز سمیت پبلک سیکٹر اور نجی تعلیمی اداروں میں فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں بیچلرز اور ماسٹرز لیول کے کورسز متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ان اداروں میں طلبہ کو پیٹرن میکنگ، سیونگ، ٹیکسٹائل ڈیزائن ،فائونڈیشن ڈیزائننگ، لباس کی تاریخ، ڈیزائن تھیوری،ٹیکسٹائل تھیوری،ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی سے متعلق تربیت فراہم کرتے ہیں ۔

مغربی ممالک کی طرح پاکستانی عوام بھی روایتی ٹیلرنگ سے ہٹ کرفیشن برانڈز قبول کرنے میں پیش پیش ہیں، جس کے باعث فیشن ڈیزائننگ کا شعبہ یہاں بھی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کررہا ہے۔گزشتہ برسوں میں پاکستان کو ایشیا میں ایک فیشن مرکز کے طور پر قبول کیا گیا۔ آج پاکستان فیشن کی دنیا میں بہت بڑے بڑے نام پیدا کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے آج ہمارے ڈیزائنر نہ صرف پاکستان بلکہ مغربی ممالک میں بھی مقبول ہورہے ہیں۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے فیشن برانڈز کے صارفین کی اچھی خاصی تعداد ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں آنے والوں کو کامیابیاں بھی مل رہی ہیں اور آئے روز نت نئے برانڈز مارکیٹ میں متعارف بھی ہو رہے ہیں۔

فیشن ڈیزائننگ سے منسلک شعبوں میں سے چھوٹے پیمانے پر قائم کئے گئے بوتیک بھی اس صنعت کا ایک اہم جُز اور گھریلو معاشیات کے شعبے میں فروغ کا بھی حصہ ہیں جو خواتین ڈیزائننگ اور اسٹائلنگ میں دلچسپی نہیں رکھتیں وہ اس شعبے میں رہتے ہوئے عام طور سے لان اور کاٹن کے اوسط درجے کے برانڈڈ سوٹ فروخت کرکے اپنے حالات میں بہتری کے ذریعے وسائل میں اضافہ کررہی ہیں۔

فیشن انڈسٹری سے وابستہ مشہور برانڈز قیام پاکستان سے لے کر اب تک، ملک میں فیشن کے بدلتے تقاضوں اور ہر عمر کے ذوق کو ملحوظ رکھتے ہوے فیشن ڈیزائننگ کرتے آئے ہیں، وہ بھی کیا وقت تھا جب جہیز کے کپڑوں میں ڈیزائن کردہ ساڑھیاں شامل کرنا فیشن کا اولین تقاضہ سمجھا جاتا تھا، فیبرک اس وقت کے ڈیزائنرز اپنی تخلیقات کی شان بڑھانے کے لئے استعمال کرتے تھے، شوخ رنگوں سے سجے گوٹا کناری اور کلابت کے کام والے ملبوسات شادیوں میں ان ہوا کرتے تھے، زیادہ تر شادی شدہ خواتین کو فیشن کرنے کی اجازت تھی، ایک جیسے رنگ یا پرنٹ والے تھان گھر بھر کی دیگر لڑکیوں کے لئے خرید لیے جاتے اور انہیں ایک ہی تراش خراش پر تیار کرنے کا فریضہ کسی جان پہچان والے ٹیلر ماسٹر کی زیر نگرانی دے دیا جاتا تھا، عید بقر عید کی رونقیں بھی ایسی ہی معصومانہ فیشن سرگرمیوں سے عبارت تھیں،یہ وہ زمانہ تھا جب فیشن کی دلدادہ خواتین کی الماریوں میں ساڑھی ایک لازمی جزو تھا۔

ان دلفریب ریشمی اور شیفون والی ساڑھیوں کے ساتھ ساتھ اونچی ایڑی والےجوتے بھی مقبول ہوئے۔50 کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان، پاکستانی خواتین کی رول ماڈل تھیں جو اپنی اکثر تصاویر میں سفید غراروں میں ملبوس نظر آتی تھیں۔ اُس دور کے فیشن میں برِصغیر کے مسلم کلچر والے ملبوسات کو سراہا جاتا تھا جن میں مَلمَل کے کرتے اور چکن کاری کے ملبوسات بہت مقبول تھے۔اداکارہ زیبا، شبنم اور میڈم نور جہاں جیسی ڈریسنگ کرنا اس دور کی فیشن ایبل خواتین کا طرح امتیاز ہوتا تھا،پاکستانی فیشن میں ہمیشہ سے ایک وقار کو مد نظر رکھا جاتا رہا تھا،ہمارا فیشن اپنےاندر کچھ شوخ و چنچل انداز بھی لایا جس کا آغاز بھی 50 کی دہائی کے اواخر سے ہوا ،جو 60 اور 70 کی دہائی تک جاری رہا۔ اس فیشن میں پھولوں سے مزین چست لباس (ٹیڈیز) شامل ہیں۔

یہ تنگ قمیضیں شلواروں کے ساتھ پہنی جاتی تھیں جن کی موریاں ٹخنوں پر سےبھی اتنی ہی تنگ ہوتی تھی جن کو بند کرنے کے لیے ٹچ بٹن کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں قمیضیں تو چست ہی ہوتی تھیں لیکن شلواریں قدرے ڈھیلی ہوتی تھیں ۔آج کے دور کی فیشن آئیکون سمجھی جانے والی فوزیہ کھوڑو، فوزیہ حئی، رخشندہ خٹک اور ماہین خان خود بھی ٹیڈی دور کی ماڈلز رہی ہیں۔ لیکن ان کے تیار کردہ ڈیزائن ملک میں جدید فیشن بھی لے کر آئے جن میں گھٹنے تک کی پتلونیں، میکسی اور پھر کھلے پائنچوں کی پتلونیں (بیل باٹم) اورا سکرٹ نما ڈریس (فلیپر) بھی شامل تھے۔

اس دور میں تنویر جمشید نے بھی اپنے مردانہ اور زنانہ ڈریس ڈیزائینز کے باعث بھرپور شہرت حاصل کی ان کے تیار کردہ ملبوسات ٹی ڈراموں کے ذریعے انتہائی مقبول ہوئے،1980 کی دہائی میں پاکستانی فیشن کے ارتقاء میں میڈم نورجہاں کی فرانسیسی بہو فلورنس ویلیرز اور ماہین خان نے اہم کردار ادا کیا۔ فلورنس نے کراچی میں ایک بوتیک کھولی اور فرانسیسی ودیگر مغربی انداز کو خواتین کے لباس میں لے کر آئیں۔ماہین خان جنھوں نے فرانسیسی ڈیزائنروں سے تربیت حاصل کی تھی، نے اپنے کپڑوں میں ایک بین الاقوامی انداز کو نمایاں کیا۔ اس انداز کو فیشن کہا جانے لگا۔

اس دہائی میں فیشن کے لیے معاشرے کی اعلیٰ طبقے کی خواتین کے بجائے سپرماڈلز کی طرف دیکھا جانے لگا جن میں عطیہ خان، نیشمیا، فریحہ الطاف، بی بی، عالیہ زیدی، لولو، اور زوئیلا وہ نام ہیں جنھوں نے پاکستان میں فیشن ماڈلنگ کا آغاز کیا۔ پاکستان کا پہلا فیشن شو 1990 میں ہوا۔ اس وقت پاکستان میں فیشن انڈسٹری نے نیا جنم لیا، ماہین خان، رضوان بیگ، نیلوفر شاہد، شمائل، ثنا سفیناز، امیر عدنان وہ ڈیزائنرز ہیں جنہوں نے پاکستان کے فیشن کو پھر سے زندہ کرنے کی بنیاد رکھی اور پاکستانی فیشن میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

ملبوسات میں مغربی طرز واپس آنا شروع ہوگیا،اس کے ساتھ ہی ڈیزائنرز کی ایک نئی کھیپ سامنےآئی جن میں ایمان احمد (باڈی فوکس میوزیم)، دیپک پروانی اور سونیا باٹلہ شامل ہیں۔ انقلابی نوجوان جن میں حسن شہریار یاسین، ماہین کاردار، کامیار روکنی، نومی انصاری اور ثانیہ مسکتیہ شامل ہیں فیشن کا مستقبل تھے۔ اگر نورجہاں بلگرامی نے ہاتھ سے بنی کاٹن یا لٹھے کو عام کردیا تھا تو آج شمعون سلطان نے اس ہی کپڑے کو کھاڈی برانڈ کا نام دے کر اسے عوامی ترین بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ سوت، کپڑا اور اعلیٰ سوتی کپڑے بنانے کے حوالے سے مشہور ٹیکسائل ملوں نے بھی بڑے پیمانے پر سلے سلائے کپڑوں کی دکانیں کھول لیں۔

فیشن اور ماڈلنگ کا نام ذہن میں آتے ہی ، خوبصورت ماڈلز کا تصور ابھر کر سامنے آ جاتا ہے، لہراتی، بل کھاتی، حسینائیں، فیشن ریمپ پر کیٹ واک کرتی دکھائی دینے لگتی ہیں، جدید طرز کے ملبوسات آنکھوں کے سامنے کسی دلکش منظر کی طرح گھومنا شروع ہو جاتے ہیں، کسی بڑے پنج ستارہ ہوٹل میں، مہنگے برانڈز کی نئی فیشن رینج کی لانچنگ تقریب کا نقشہ گھومنے لگتا ہے، جہاں جگمگاتی روشنیاں، جا بجا ماحول کو سحر انگیز بنا رہی ہیںان سب لوازمات کا ہونا ہی، فیشن انڈسٹری کی پہچان ہے۔

پاکستان میں جس تیزی سے کسی زمانے میں فلمی صنعت نے عروج حاصل کیا، اسی طرح آج کے دور میں فیشن اور ماڈلنگ کی صنعت ترقی کر رہی ہے، پاکستان میں ٹی وی کی آمد کے کچھ ہی عرصہ بعد، فلموں کی مقبولیت کا گراف نیچے آنا شروع ہوگیا، ڈرامے زیادہ ذوق و شوق سے دیکھے جانے لگے، مگر بڑے پردے پر فلمی ہیروئیز کا گلیمر ہمیشہ اپنی جگہ برقرار رہا، ٹی وی کی ہیروئین نے چھوٹے پردے کے اعتبار سے اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھی، فلموں یا ٹی وی سے شہرت حاصل کرنے والی اداکاراوں نے ہر دور میں ماڈلنگ کی مگر یہ بات بھی ثابت ہوتی رہی کہ، فیشن ماڈلنگ ایک بالکل علیحدہ شعبہ ہے، اس کے لئے ایک مخصوص جسامت، قد کاٹھ، باڈی لینگویج، رکھ رکھاؤ اور ٹائمنگ درکار ہوتی ہے، نخرے اور ایٹی ٹیوڈ سے عاری لڑکیوں کو ماڈل کی مروجہ تعریف میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ 

یہی وجہ ہے کہ ماڈلنگ سے شہرت حاصل کرنے والی مشہور ترین لڑکیاں بھی جب فلموں یا ڈراموں میں قسمت آزمانے کے لئے آئیں تو انہیں متوقع شہرت نا مل سکی، انیتا ایوب، امبر ایوب، متہیرا اروا حسین ، ماورا حسین اور نادیہ حسین اس سلسلے کی مثالیں ہیں ، یہ بطور ماڈل تو کامیاب رہیں، کیٹ واک کے دوران ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا، ٹی وی کے چند سیکنڈ والے اشتہار میں بھی یہ بہترین انداز سے مذکورہ پروڈکٹ کو بیچنے میں لاثانی قرار پائیں، مگر جب فلم یا ٹی وی میں ان سے اداکاری کروائی گئی تو یہ خاطر خواہ نتائج نہ دے سکیں۔ 

متعدد تجربات یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ فلموں اور ڈراموں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے والی اداکارائیں اکثر ناکام ماڈلز ثابت ہوئی ہیں، پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر نے اس مشکل کا حل نکالتے ہوئے اب اداکاراوں کی ایک ایسی کھیپ ڈویلپ کرنا شروع کر دی ہے جو بیک وقت فلم ٹی وی اور ماڈلنگ میں یکسر کارگر ہوتی ہیں، اشنا شاہ، مہوش حیات، مایا علی، ماریہ واسطی اور ایسی کئی پرفارمرز گزشتہ چند سالوں میں منظرعام پر آئی ہیں جو فلم، ٹی وی اور فیشن ریمپ سے لے کر ٹی وی کمرشل تک یکساں مہارت سے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرسکیں۔

دراصل فیشن ماڈلنگ از خود فن کی ایک مکمل صنف ہے، جس طرح ایک شاعر سے آپ افسانہ نگاری، کالم نویسی یا ڈرامہ نگاری کی توقع نہیں رکھ سکتے اسی طرح کسی ماڈل سے بھی اصولی طور پر اداکاری کی امید رکھنا غلط ہے، مگر بدقسمتی سے ایک تو شارٹ کٹ شہرت کا حصول اور ہر فن مولا بننے کی دھن میں ماڈلز کے ساتھ ساتھ پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز بھی ریٹنگ کی دوڑ میں پڑ کر یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ کس سے کیا کام لینا ہے اور کون کس کام کے لئے موزوں ہے، انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور۔

ان دنوں پاکستان کی ٹاپ فیشن ماڈلز شو بزنس میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والی سلیبریٹیز میں شمار ہوتی ہیں، عموماً” لوگ سمجھتے ہیں کہ چند سیکنڈ کے اشتہار میں جلوہ دکھانے، یا دو چار مرتبہ مختلف ڈریسز پہن کر فیشن ریمپ پر ادھر سے ادھر گھوم جانے کا اتنا معاوضہ کیوں، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک اداکارہ جو پیغام تین گھنٹے کی فلم یا پچاس منٹ کے اشتہار میں دیتی ہے، وہی پیغام کسی پروڈکٹ کو بیچنے کے لئے اس ماڈل کو صرف چند سیکنڈ میں دینا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ہماری ماڈلز بھی دنیا بھر کی ماڈلز کی طرح سمندر کو کو کوزے میں بند کرنے کا معاوضہ لیتی ہیں۔

پاکستانی فیشن پوری دنیا میں مقبول ہے ہمارے فیشن میں ایک خاص نفاست اور شائستگی نمایاں ہے، یہ کہیں سے بھی کسی ایک کلچر یا کسی تہذیب کی نقل نہیں لگتا ، دیگر ممالک کے لوگ جب ہمارے فیشن کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں لڑکیاں برقعے میں گھوم رہی ہیں، وہاں گولیاں چل رہی ہیں، لہٰذا ہمارا فیشن اور اس صنعت سے وابستہ افراد ایسے تاثر کو زائل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرر رہے ہیں، پاکستانی فیشن ڈیزائنر ز کی عمومی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی ڈیزائن بنائیں وہ صرف پاکستان کی مقامی مارکیٹ تک محدود نہ ہو بلکہ اسے لندن، امریکہ، پیرس ہر جگہ پہنا جائے، وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی اور بھارتی ہی نہیں ہر ملک کے صارفین ہماری فیشن مصنوعات کے بڑے خریداروں میں شامل ہیں، شاید اسی لیے پاکستانی ڈیزائنر ز زیادہ تر یونیورسل ڈیزائنز تخلیق کرتے ہیں، خاص طور پر برائیڈل ڈریسز میں نفاست بہت زیادہ ہے، کمال کی فنشنگ ہوتی ہے اور اگر ہم انڈیا کے برائیڈل کی بات کریں تو ان کے برائیڈل میں فنشنگ نظر نہیں آتی۔ ہمارے رنگ آنکھوں کو بھاتے ہیں جبکہ بھارتی ڈیزائنرز چیختے چنگھاڑتے رنگوں کا انتخاب کرتے ہیں، اسی طرح ان کے اور ہمارے ہاتھ کے کام میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔

پاکستانی مردانہ ملبوسات کو بھی پوری دنیا میں ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے۔ دیدہ زیب ڈیزائنز اور رنگوں کے خوبصورت امتزاج کی وجہ سے پاکستان کی برائیڈل ویئر کلیکشن خاصی مقبول اور اپنی مثال آپ ہے ،اگر پاکستانی مائینڈ سیٹ کی بات کی جاےتو ہر ڈیزائنر کی اپنی پسند ہوتی ہے، جو صارفین کے مزاج سےہم آہنگ ہوتی ہےکچھ ڈیزائنرز لال رنگ کے برائیڈل ڈریس بناتے ہیں اور کچھ ہر طرح کے رنگ میں بناتے ہیں۔ کچھ روایتی ڈریسز بھی بناتے ہیں تو کچھ جدت کا تڑکہ لگاتے ہیں ،یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وقت کے ساتھ اب فیشن میں بہت زیادہ جدت آ چکی ہے، ’لڑکے جو رنگ پہلے نہیں پہنتے تھے اب وہ پہن رہے ہیں جیسے گلابی، پیلا،جامنی وغیرہ، اسی طرح کُرتا پاجامہ، شارٹ شرٹ، تنگ جیکٹ اور پگڑیاں پہن رہے ہیں۔

کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستانی ڈیزائنر ز ملبوسات بہت مہنگے ہوتے ہیں ، لیکن ہماری فیشن انڈسٹری میں بہت آپشن موجود ہیں، اگر کسی کو ڈیزائنر جوڑا مہنگا لگتا ہے تو وہ اس کی نقل یا فرسٹ کاپی خریدلیتا ہے، لیکن جو ڈیزائنر اپنا نام اپنا ذہن لڑائے گا وہ پیسے تو لے گا۔ ڈیزائنرز کی کلیکشن ادھر مارکیٹ میں آتی ہے اُدھر اس کی نقل آ جاتی ہے جس کا ڈیزائنرز کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ پاکستانی فیشن کو کووڈ کی وجہ سے بھی بہت بڑا جھٹکا لگا ہے، بہت سے فیشن ہاؤسز اور ریٹیل فیشن کی دکانیں بند ہو چکی ہیں، کافی ڈیزائنرز نے کام روک دیا ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں فیشن انڈسٹری بھی مشکل حالت کا شکار ہے۔

ٹاپ ٹین فیشن ڈیزائنر، جنہوں نے فیشن کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا

پاکستان میں فیشن کی نئی جہتوں کو متعارف کروانے والے دیپک پروانی کا شمار بھی ان چند فیشن ڈیزائنرز میں ہوتا ہے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی فیشن انڈسٹری کو متعارف کرایا۔ دنیا میں فیشن کا مرکز سمجھے جانے والے میلان شو میں شرکت ہو یا بلغارین فیشن ایوارڈ میں دنیا کے چھٹے بہترین ڈیزائنر کی فہرست میں اپنا نام شامل کرانا، دیپک پروانی نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی۔ حال ہی میں انہیں دنیا بھر کے بہترین ڈیزائنرز کے کام کو یکجا کرنے والے گزٹ ’اٹلس آف فیشن ڈیزائنرز‘ میں سراہا گیا ہے اور دس صفحات میں ان کے کام کو پیش کیا گیا۔

* نومی انصاری 2001 سے کراچی میں اپنا فیشن آوٹ لیٹ چلا رہے ہیں، ان کی وجہ شہرت ان کے بولڈ رنگوں سے مرصع ملبوسات اور ان پر موجود کرسٹل اور زردوزی کا تخلیقی امتزاج قرار پاتا ہے، پاکستان انسٹیٹوٹ آف فیشن ڈیزائننگ سے فارغ التحصیل نومی کا تعلق قالین بافی کے بزنس سے رہا، فیشن کے حلقوں میں وہ شہنشاہ رنگ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

* حسن شہریار یاسین بھی فیشن گریجویٹ ہیں وہ سن 2000سے فیشن ڈیزائننگ کر رہے ہیں ، ان کا خاصہ عروسی ملبوسات ہیں، مگر اپنے برانڈ ایچ ایس وائی کے بینر تلے وہ مہنگی ترین اسٹائل جیولری اور لائف اسٹائل کی رینج بھی متعارف کرواتے ہیں ۔

* لاہور سے تعلق رکھنے والی خاتون ماریہ بٹ المعروف ماریہ بی، ایک ایسی نامی گرامی ڈیزائنر ہیں جو عوامی پہنچ میں رہتے ہوے عمدہ کوالٹی کے جدید فیشن ملبوسات تیار کرتی ہیں ،ملک بھر میں ان کے دو درجن سے زیادہ آوٹ لیٹس ہیں۔

* کامیار روکنی اورماہین کاردار 2001سے کرما کے بینر تلے ساؤتھ ایشین اور ویسٹرن کا امتزاج پیش کر تے رہے ہیں ان کے ایوننگ گاونز آر کاک ٹیل ڈریسز نے زبردست شہرت حاصل کی2006 سے کامیاب اور ماہین نے اپنے الگ الگ برانڈز کا اجراء کیا لیکن ان کی مقبولیت کے گراف میں کوئی کمی نہ آئی۔

* ثناء سفیناز پاکستان کے مشہور کپڑوں کے برانڈز میں سے ایک ہے۔ یہ دونوں بہترین دوست تھیں، اب نند بھاوج ہیں، انہوں نے کپڑوں کے برانڈ کی شروعات کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے کئی برانڈز کے ساتھ کام کیا ہے ،ان سے بہت کچھ سیکھا ،کاروبار کی شروعات کے وقت ان کے پاس صرف ایک درزی اور ایک کاریگر تھا۔ لیکن محنت لگن اور حوصلے کی بدولت آج 500 کاریگر اور ہزاروں ملازمین ہیں۔

* محمود بھٹی فرانس میں بیٹھ کر پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے فیشن ڈیزائننگ کرتے ہیں، ان کا تعلق لاہور کے ایک غریب گھرانے سے تھا، وہ روزگار کی تلاش میں پیرس گئے وہاں ایک درزی کی دکان پر صفائی ستھرائی کا کام کرتے کرتے ترقی کی اور اب دنیا بھر میں گیشن ڈیزائینگ کے حوالے سے پاکستان کی پہچان مانے جاتے ہیں وہ اپنے جدید ملبوسات کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔

* عاصم جوفا بھی پاکستان کے نامی گرامی فیشن ڈیزائنر ہیں ان کا فیملی بیک گرواونڈ جیولری ڈیزائینرز کا ہے، وہ بھی 1993سے اپنے بھائی کے ساتھ یہی کام کرتے تھے۔ 2009 میں انہیں ڈریس ڈیزائینگ کا خیال آیا، وہ لندن سے فیشن ڈیزائننگ کی تربیت لے کر آئے، پاکستان آ کر اپنا لان کلیکشن جاری کیا، ان کی وجہ شہرت، عروسی ملبوسات ہیں۔

* عمر سعید پاکستان میں تیس سال سے فیشن ڈیزائننگ کی پہچان بنے ہوئے ہیں ، انہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ مردانہ ڈریسز اور شلوار قمیض کی سیمبرائڈرڈ رینج متعارف کروائی،بنٹو کاظمی کا نام لئے بغیر بھی پاکستان میں فیشن ڈیزائننگ کی تاریخ ادھوری رہ جائے گی ، خصوصاً دلکش ترین عروسی ملبوسات کی تیاری ان کا خاصہ رہا ہے، وہ انور مقصود اور بجیا کی بہن ہیں، اور بڑی بڑی شادیوں کے لئے ان کے تیار کردہ برائیڈل ڈریسز کی مانگ نا صرف پاکستان اور بھارت میں بلکہ، دنیا بھر میں ہے۔

* لاہور سے تعلق رکھنے والی بی جی کا شمار بھی ملک کی نامور فیشن ڈیزائنرز میں ہوتا ہے انہوں نے نوے کی دہائی میں بننے والی فلموں کے لئے ہیروئین کے ملبوسات ڈیزائن کرکے زیادہ شہرت حاصل کی-ان کے علاوہ ،محسن علی، نوشابہ بروہی، سلیمان جاوید، میاں احد اور شہلا چتور بھی پاکستان کے ٹاپ فیشن ڈیزائنرز میں شمار ہوتے ہیں،زینب چھوٹانی، زارا شاہجہاں، ثانیہ مسقطیہ، معظم بیگ، رضوان احمد، رضوان بیگ،ایسے ہی بے شمار ڈیزائنرز پاکستانی فیشن سین کی جان بنے ہوئے ہیں۔

فیشن کی ملکائیں ، پاکستانی فلمی اداکارائیں

پاکستان میں جب بھی فیشن انڈسٹری کی تاریخ کا ذکر آے گا تو اس کی پروموشن میں پاکستانی فلموں کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ قیام پاکستان سے سن نوے کی دہائی تک، پاکستانی فلمی اداکاراوں نے فلموں میں جو کچھ پہنا وہی فیشن قرار پایا، انہوں نے جیسی ہیئر اسٹائلنگ کی وہی فیشن ہو گئی، وہ دور کیونکہ سینما میں جا کر فلمیں دیکھے جانے کا تھا اس لئے اس دور کے عوام کی رول ماڈلز بھی فلمی سلیبریٹیز ہوتی تھیں، روائتی ملبوسات مثلاً غرارے، شرارے، ساڑھیاں اور آڑھے پاجاموں کو رواج دینے میں زیبا، شمیم آرا، نئیر سلطانہ ، اور صبیحہ خانم نے اہم کردار ادا کیا، جس طرح مردوں میں وحید مراد جیسا ہئیر اسٹائل اور ڈریسنگ مشہور ہوتی تھی، ندیم اور محمد علی جیسی چال ڈھال، شاہد جیسا گلیمر اس دور کے نوجوانوں میں ان تھا اسی طرح مختلف فلموں میں شمیم آرا، زیبا، دیبا ، رانی، نئیر سلطانہ اور صبیحہ خانم کو فالو کیا جاتا تھا۔

شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جانے کے لئے اس دور کی خواتین ان کی جیسی ڈریسنگ کرتی تھیں درزیوں کو ان فلمی اداکاراوں کی تصاویر دکھا کر ان کے جیسے ڈریسز ڈیزائن کرواے جاتے تھے، اس دور میں اگر آزاد خیال لڑکیوں کو مغربی ڈریسز زیب تن کرنا ہوتے تو وہ کویتا، اور بابرہ شریف، کی فلموں کو فالو کرتی تھیں، اس دور میں بھی فلمی ضرورت کے تحت بولڈ ڈریسز استعمال ہوتے تھے ،مگر فلمساز یہ ثابت کر دیتا تھا کہ ایسے کپڑے پہننا ہماری معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔

یہ ایسا دور تھا کہ اگر کالج جانے والی ہیروئین نے دو چوٹیاں باندھ لی ہیں۔ لڑکیاں راتوں رات اسی فیشن ٹرینڈ کے پیچھے دوڑتی نظر آتی تھیں، چھوٹے پائنچےکی شلوار یا بیل باٹم کسی ہیروئین کو فلموں میں پہنے دیکھ لیا جاتا تو وہی اس دور کا فیشن ٹرینڈ بن جاتا تھا، مگر نوے کی دہائی میں گنڈا سہ کلچر آنے کے بعد فلمسازوں نے ہیروئین کو جس قسم کی ڈریسنگ کروائی وہ کبھی فیشن ٹرینڈ نا بن سکی کیونکہ وہ پنجاب سمیت ہمارے کسی بھی صوبے یا معاشرتی روایات کا عکس نہیں تھی۔

فیشن پروموشن میں پیش پیش مرد ماڈلز اور ایونٹس مینجمنٹ کے ادارے

پاکستانی فیشن انڈسٹری کو پروموٹ کرنے میں جو کردار خواتین ماڈلز نے ادا کیا وہی مرد ماڈلز کا بھی ہے۔ایک زمانے میں جب صرف سرکاری ٹی وی چینل کا بول بالا تھا تنویر جمشید کے ڈیزائن کئے ہوے مردانہ اور زنانہ فیشن ملبوسات نے بہت شہرت حاصل کی، خصوصاً مرینہ خان اور شہناز شیخ نے ٹی جے کے ڈیزائنز کو خوب رواج دیا، ان کے بعد ایک لائن لگ گئی اور کوئی ڈرامہ، یا فلم ایسی نہیں ہوتی تھی جس کے ملبوسات کی ڈیزائننگ کے لئے کسی نہ کسی فیشن ڈیزائنر کی خدمات حاصل نہ کی جائیں۔ 

ٹی وی ڈراموں سے شہرت رکھنے والے مرد فنکار فلمی اداکاروں کے مقابلے میں فیشن ماڈلنگ میں زیادہ کامیاب مسافر قرار پائے۔ مردانہ ملبوسات کی پروموشن میں دور جدید کے تمام ہی بڑے اداکاروں اور گلوکاروں نے فیشن ریمپ پر ماڈلنگ بھی کی اور ٹی وی کمرشلز میں کام کر کے اپنی شہرت کو چار چاند لگائے، کئی مشہور کھلاڑیوں نے بھی فیشن ریمپ پر ماڈلنگ کر کے مزید شہرت کمائی۔ 

فیشن انڈسٹری کی مالی منفرت سے متاثر ہو کر مرحوم جنید جمشید سمیت بڑی تعداد میں مرد فنکاروں نے اپنے نام سے مردانہ فیشن ملبوسات کی رینج کا اجرا کیا۔مولانا طارق جمیل کے نام سے بھی ایک مردانہ فیشن برانڈ ہے، گلوکاروں میں عاطف اسلم سے لے کر راحت فتح علی خان تک کون ہے جس نے فیشن ریمپ پر کیٹ واک کر کے شہرت نہیں کمائی، نادیہ حسین سمیت کئی خواتین ماڈلز نے متبادل روزگار کے طور پر نا صرف بڑے بڑے بیوٹی سیلون کھولے بلکہ اب وہ اپنے نام سے موسوم کاسمیٹک اور پرفیومز کی پروڈکٹس بھی لانچ کر رکھی ہیں۔

پاکستان کی فیشن انڈسٹری کو آرگنائز رکھنے کے حوالے سے فریحہ الطاف کے علاوہ، عائشہ ٹیمی حق، تہمینہ خالد، اور شہناز رمزی وغیرہ نے وقتاً فوقتاً پاکستان میں فیشن ویکس کے انعقاد، لکس اسٹائل ایوارڈز کی ترویج ، فیشن برانڈز کی لانچنگ سمیت بڑے بڑے پاکستانی ایونٹس کو بین الاقوامی معیارات پر ملک میں اور بیرون ملک جا کر بھی آرگنائز کیا اور پاکستانی فنکاروں ، فیشن شوز ،ڈرامہ اور فلم ایوارڈز کو دیگر ممالک میں متعارف کروا کر پاکستانی فیشن انڈسٹری کی بڑی خدمت کی ہے۔