پاکستان اور چین کے تعلقات عصری بین الاقوامی تعلقات کا ایک منفرد اور غیر معمولی پہلو ہیں، جہاں ایک طویل عرصے کے دوران، جب دنیا اور خود یہ دونوں ممالک بدل چکے ہیں، اس قدر قریبی دوستی اور یکجہتی کی شاید کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
’’ہر موسم کی تزویراتی شراکت داری‘‘ سے لے کر ’’آہنی بھائی چارہ‘‘ ہونے تک، جون 2022 میں ایک ہفتے کے اندر تین الگ الگ پیش رفتوں سے پاک۔چین قربت کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ سے قبل ہی، چین پہلا ملک تھا جس نے معاشی بحران کا سامنا کرتے پاکستان کو 2.3ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی شکل میں مالی امداد کی پیشکش کی اور پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر مستحکم کرنے میں مدد ملی۔
پاکستان کا نام FATF سے اس لیے نکالا جا سکا کیونکہ چین ان ٹھوس ممالک میں سے ایک تھا جو پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے مخالف تھے۔ اور جب ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ G-20 سربراہی اجلاس کی میزبانی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرے گا، تو G-20 ممالک میں چین پہلی آواز تھا جس نے اس فیصلے کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ جموں و کشمیر کا علاقہ بین الاقوامی قانون کے تحت متنازعہ ہے اور وہاں اقوام متحدہ کی حقِ رائے دہی کی قراردادوں کا نفاذ زیرِ التواء ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران، مارچ سے مئی 2020 کے دوران اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان 50 پروازوںکے ذریعے وینٹی لیٹرز، ذاتی حفاظتی سازوسامان (پی پی ای) اور کووِڈ ٹیسٹنگ کٹس پاکستان لائی گئیں اور اس طرح لاکھوں پاکستانیوں کی جانیں بچائی گئیں۔ اس کے علاوہ پاکستان وہ پہلا ملک تھا جسے چین نے ویکسین عطیہ کیں، یہاں تک کہ زندگی بچانے والی کووِڈ ویکسین کی مقامی مشترکہ پیداوار کی اجازت بھی دی۔
یہ تعلقات کیسے منفرد ہیں
پاک چین تعلقات نہ موقع پرستی پر مبنی ہیں، نہ عارضی ہیں اور نہ ہی ان کی بنیاد کچھ لو کچھ دو پر ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان مارچ 1963 کے سرحدی معاہدے کے بعد سے، گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران، عالمی، علاقائی اور داخلی تبدیلیوں سے قطع نظر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں۔ مشترکہ عالمی نظریہ، اقدار اور باہمی مفادات کا سنگم اس رشتے کو باندھتا ہے۔ خصوصاً چھ واقعات اس 60 سالہ تزویراتی تعلق کو مضبوط کرنے کا باعث ہیں۔ 1963 کا سرحدی معاہدہ، جس پر وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے چینی ہم منصب مارشل چن یی کے ساتھ دستخط کیے، تعلقات میں خلا کو دور کرنے کا باعث بنا اور تعلقات ہموار ہوئے۔
1965 کی جنگ میں بھارتی جارحیت کے سامنے چین، پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا جبکہ ہمارے ظاہری اتحادی امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ وہ وقت تھا، جب چین نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر چین نے بھارت کو چین ۔ بھارت سرحد پر بھارتی فوج کی ’دراندازی‘ کے حوالے سے انتباہ بھی کیا۔1969میں، پاکستان نے چین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر چین مخالف ’’ایشین کلیکٹیو سیکیورٹی‘‘ معاہدہ میں شامل ہونے کی سوویت یونین کی پیشکش کو مسترد کردیا۔ اس طرح پاکستان نے اپنے تزویراتی انتخاب کو سب پر عیاں کردیا۔
1971میں 3 اہم پیش رفت نے تعلق کو مزید توانا بنایا
پاکستان نے چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر کسنجر کی اسلام آباد سے بیجنگ خفیہ پرواز نے چین کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جائز کردار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے بدلے میں، ڈھاکا میں افواجِ پاکستان کی جانب سے ہتھیار ڈال دینے کے بعد، چین نے امریکا کے ساتھ مل کر بھارت کی مغربی پاکستان پر قبضے کی کوشش کو ناکام بنایا۔
اس کے بعد بھی چین نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ’’نئے پاکستان‘‘ کی حمایت اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔1978 میں، قراقرم فرینڈ شپ ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا، جو پاکستان کو چین سے زمینی راستے سے منسلک کرتی ہے۔اور مارچ2013 میں، پاکستان نے چین سے گوادر پورٹ چلانےکی درخواست کی، جس کے بعد ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘انیشیٹو (BRI) کے اہم منصوبے کے طور پر سی پیک کا آغاز کیا گیا۔
پاکستان ہمیشہ چین کے بنیادی مفادات کے ساتھ کھڑا رہا ہے جس میں چین کی یکجہتی اور علاقائی سالمیت، چین کا پرامن عروج، چین کے سیاسی نظام میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا بنیادی کردار، تائیوان، تبت، سنکیانگ، ہانگ کانگ اور جنوبی چین سمندر کے معاملے پر پر چین کے مؤقف کی حمایت شامل ہے۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ اِنیشیٹو(BRI) کا بھی حامی ہے، جس کا چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اہم حصہ اور محور ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے ہمیشہ چین مخالف کسی بھی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے۔
اسی طرح چین نے بھی پاکستان کی یکجہتی، علاقائی سالمیت اور خودمختاری سمیت اس کے بنیادی مفادات کے تحفظ اور فروغ، جوہری اور میزائل صلاحیت سمیت مقامی دفاعی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی کوششوں، کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف اور بھارتی بالادستی کی سخت مخالفت، افغانستان پر اور دہشت گردی کے شکار ملک کے طور پر پاکستان کا مؤقف، اور سی پیک کے ذریعے اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔ درحقیقت چین، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، نیوکلیئر سپلائرز گروپ، ایف اے ٹی ایف اور جی 20 سمیت مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کو سفارتی ’’ایئر کور‘‘ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان بھی1960 کی دہائی میں اس وقت چین کے ساتھ کھڑا تھا جب چین ایک کم آمدنی والا، کمزور اور دنیا سے الگ تھلگ ملک تھا اور 1964میں پی آئی اے کے ذریعے چین کے ساتھ فضائی روابط کھول کر اپنے شمالی پڑوسی کے لیے بیرونی دنیا کو ایک کھڑکی فراہم کی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ، پاکستان، چین کے سنکیانگ اور تبت جیسے صوبوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جہاں بیرونی قوتیں نسلی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔
امریکی طاقت میں کمی اور چین کے پرامن عروج کے نئے جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر، آج دونوں ممالک کے لیے تعلقات اور بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کے مفادات مشترک ہیں۔ بی آر آئی ، 21ویں صدی کا غالباً سب سے اہم سفارتی اور ترقیاتی اقدام ہے، پاک چین تعلقات میں سی پیک کو آج مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جبکہ یہ اب تک 75,000ملازمتیں پیدا کرنے کے ساتھ پہلے ہی کامیاب منصوبہ ثابت ہوچکا ہے، ساتھ ہی آج 28,000پاکستانی چین کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں، لہٰذا آج سی پیک کے ذریعے معیشت، توانائی اور تعلیم پاک چین تعلقات کو 21ویں صدی میں لے جا رہے ہیں، جبکہ دفاع اور سفارت کاری میں ہمارا تعاون مضبوط ہے۔
پاک چین تعلقات کا جغرافیائی سیاسی تناظر
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) میں پاکستان کی شرکت اور پاک چین تعلقات کی موجودہ سمت نئی جغرافیائی سیاسی اور علاقائی حقیقتوں کا حصہ ہے، جو دنیا پر اثرڈالتی ہے۔ ایسی تین حقیقتیں واضح ہیں۔سب سے پہلے، معاشی اور سیاسی طاقت کے عالمی توازن میں مغرب سے مشرق کی طرف قابلِ ادراک تبدیلی ایک اُبھرتی ہوئی حقیقت ہے، جس کے ساتھ 21ویں صدی کو اب ’’ایشیائی صدی‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یورپ کے سیاسی غلبہ میں کمی اور ریاستہائے متحدہ امریکا کی طاقت میں کمی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کثیر قطبی دنیا میں تیزی سے طاقت کے نئے مراکز اُبھر رہے ہیں۔
دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ اپنی وسیع اقتصادی صلاحیت، بڑھتے سیاسی غلبہ اور تیزی سے پروان چڑھتی تکنیکی صلاحیتوں کے عالمی اثر کے باعث چین علاقائی طاقت سے عالمی طاقت بن چکا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور یوایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی ’’ چین بمقابلہ امریکا، عظیم ٹیکنالوجی رقابت‘‘ کے نام سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بنیادی بات یہ اخذ کی گئی ہے: ’’چین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عظیم طاقت بن چکا ہے یا بننے کے دہانے پر ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے اہم میدانوں میں چین، امریکا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
تیسری نئی حقیقت، روابط کے جغرافیائی۔معاشی پہلو کا اُبھرنا ہے جس کا مرکز پاکستان ہے، یعنی ایک '’عظیم تر جنوبی ایشیا‘ جس میں نا صرف جنوبی ایشیائی برصغیر بلکہ چین، ایران، افغانستان، میانمار، اور قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان پر مشتمل وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ معیشت اور توانائی کے بل بوتے پر پروان چڑھنے والے اس عظیم تر جنوبی ایشیا کو بندرگاہوں اور پائپ لائنوں، سڑکوں اور ریلوے اور زمینی اور نقل و حمل کے نئے رابطوں کے ذریعے جوڑا جارہا ہے، جسے ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی سے مزید تقویت ملی ہے۔
پاک۔ چین تزویراتی تعلقات میں سی پیک ایک نئی بلندی کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی آر آئی میں اس وقت 140ممالک شامل ہیں، جو عالمی آبادی کا 70فی صد، عالمی جی ڈی پی کا 55فی صد اور عالمی تجارت کا تقریباً 25فی صد ہیں۔
بی آر آئی کی مقبولیت کی دوہری وجوہات ہیں۔ اول بات یہ کہ،1980 کے بعد سے چین نے اقتصادی ترقی کے میدان میں کامیاب کہانی کے طور پر800 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، جو شاید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل ذکر سماجی ترقی ہے۔
دوسرا، بی آر آئی کے تین اہم اجزاء ہیں جو اسے آنے والے وقتوں کے لیے مقبول بناتے ہیں: یہ جامع ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ کسی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ تمام ممالک کو شمولیت کی دعوت دیتا ہے، یہ سب کے لیے جیت کا منصوبہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کسی کی شکست نہیں ہے اور اس میں سب کی جیت ہے اور سب کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا ہے، یہ قدیمی سلک روڈ کی بحالی کے ذریعے رابطوں سے متعلق ہے جو زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے براعظموں، ملکوں اور ثقافتوں کو جوڑتا ہے۔پندرہ دن میں لندن سے چین آنے والی ٹرین بین الاقوامی رابطوں کی اس نئی حقیقت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ پاکستان خوش قسمت ہے کہ چین اس کا بہترین دوست ہےاور سی پیک کے لیے پاکستان کے عوام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جوکہ بی آر آئی انیشیٹو کا پرچم بردار منصوبہ ہے اور گوادر کو سی پیک میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اس طرح سی پیک ایک نئی علاقائیت کو فروغ دے رہا ہےاور اس میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اسٹریٹجک پلس ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کیلئے کس طرح مفید ہے:
1- ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو مغرب، بالخصوص امریکا سے دباؤ کا سامنا تھا، سی پیک نے پاکستان کو مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی کے آپشنز فراہم کیے۔
2- چین کی مدد سے یہ پاکستان کو بھارتی دباؤ کے خلاف مؤثر جوابی وزن فراہم کرتا ہے۔
3- اس نے پاکستان کے امیج کو ایک سرمایہ کاری دوست ملک میں بدل دیا ہے۔چونکہ دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک چین پاکستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے اس لیے دیگر بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے۔ سی پیک ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا تھاجب نہ مغرب اور ناہی ہمارے مسلمان برادر ممالک اس پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار تھے۔
4- 1970کے عشرے میں وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی جانب سے سانحہ ڈھاکا کے بعد 1972میں معاشی حکمت عملی کے تحت پاکستانی افرادی قوت کو مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کے منصوبے کے اعلان اور 1974میں جوہری بم بنانے کا اہم ترین تزویراتی منصوبہ شروع کرنے کے بعد، سی پیک پاکستان کے قومی تزویراتی مفاد میں سب سے اہم منصوبہ ہے۔
5- سی پیک پاکستان پر اعتماد کا ووٹ ہے اور اس نے پاکستان کے عوام اور صوبوں کو نئی امید دی ہے۔ یہ پاکستان کے مستقبل کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔
6- سی پیک، جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے ساتھ ساتھ ایران اور افغانستان کے ساتھ علاقائی رابطہ کاری میں پاکستان کے کلیدی کردار کو فروغ دیتا ہے۔ علاقائی تعاون کے نقطہ نظر سے، پاکستان ایک طرح سے پل کا کردار ادا کررہا ہے۔
7- 10ہزار میگاواٹ استعداد کے بجلی گھروں کی تعمیر کے ذریعے سی پیک پاکستان کا توانائی بحران حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے جس سے ملک میں معاشی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔
8-سی پیک نے مردہ لیکن تزویراتی اہمیت کے حامل اہم منصوبوں جیسے تھرکول اور گوادر پورٹ کو بحال کیا، جن کے بارے میں عشروں سے باتیں ہورہی تھیں لیکن کبھی بھی شروع نہیں ہوسکے تھے۔ سی پیک کی بدولت اب یہ منصوبے نہ صرف زندہ ہوگئے ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر فنکشنل بھی ہوچکے ہیں۔
9- سی پیک میں وفاق کو متحد رکھنے کی صلاحیت ہے اور اس کے ذریعے گوادر سے لے کر گلگت تک سڑکوں اور ریلوے کے ذریعے ملک کے مختلف علاقے ایک دوسرے سے جوڑے جارہے ہیں۔ ML-I پاکستان کی تاریخ کا سب سے بلند نظر منصوبہ ہے، جس کی لاگت کا تخمینہ 9 ارب ڈالر ہے جو کراچی تا پشاور 1872کلومیٹر ریلوے لائن کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دور دراز علاقوں کو مرکزی دھارے میں لائے گا۔
10- گلگت بلتستان کے لیے جو منصوبے تیار کیے جارہے ہیں وہ اس خطے کو بدل کر رکھ دیں گے جوکہ چین کے لیے سی پیک کا انٹری پوائنٹ ہے۔
11- سی پیک، چین سے پاکستان میں صنعتوں کی منتقلی کے ذریعے پاکستان میں خاص طور پر بلوچستان، کے پی، گلگت بلتستان اور فاٹا جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں میں انفراسٹرکچر، توانائی اور خصوصی صنعتی زونز کے ذریعے بڑے پیمانے پر انڈسٹریلائزیشن کے امکانات پیش کرتا ہے، جہاں چین سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے، توانائی اور مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا۔
12- چین سے کاشغر کے راستے اسلام آباد تک فائبر آپٹک کیبل پاکستان میں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو بہتر بنائے گی۔
پاکستان۔چین تعلقات ، آگے کا راستہ
اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ آج سی پیک پاکستان کے لیے ایک ایسے اہم اور ناگزیر منصوبے کی حیثیت رکھتا ہے، جو اس ملک کو اکیسویں صدی میں صف اول کی اُبھرتی ہوئی معیشتوںمیں شامل کروا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں، آگے کا راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ تین اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، پاکستانی پالیسی سازوں، سول اور عسکری، دونوں کو اس بات کی تزویراتی وضاحت کی ضرورت ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں اور ایک قومی سلامتی والی ریاست سے علاقائی رابطوں کے ذریعے انسانی سلامتی کو فروغ دینے والی ریاست کی طرف ہمارے سفر اور منتقلی کی بنیاد ہے۔ ملے جلے پیغامات سے گریز کیا جانا چاہیے اور مغرب کی طرف سے کسی بھی چین مخالف گروہ میں شامل ہونے کے لیے آنے والے دباؤ یا ’توازن‘ کے نام پر چین کے ساتھ روابط میں ڈھیلے پن کو ہر قیمت پر رد کرنا چاہیے۔ چین کو روکنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے کسی بھی تصور یا کسی نئی سرد جنگ کی سختی سے مزاحمت کرنی ہوگی۔
مزید برآں، جیسا کہ سی پیک کے ’اَرلی ہارویسٹ پراجیکٹس‘ تکمیل کے قریب پہنچ رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ پاکستان اور چین دونوں سی پیک کے ان سات ستونوں پر ہوم ورک کرتے ہوئے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کریں جو دسمبر 2017 میں منظر عام پر آنے والے طویل المدتی منصوبے میں ظاہر کیے گئے تھے۔ ان شعبہ جات میں کنیکٹیویٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی، تجارت، صنعتی پارک، زراعت کی ترقی اور تخفیفِ غربت، مقامی برادریوں اور غیرسرکاری سطح پر ثقافت، میڈیا، تعلیم، تھنک ٹینکس اور مالیاتی شعبہ میں تبادلے اور خصوصاً مقامی کرنسی میں تجارت، مالیاتی اداروں اور مالیاتی منڈیوں کے ساتھ ساتھ آزادانہ تجارت کے زون میں تعاون شامل ہے۔
سی پیک پاکستان کو ان شعبہ جات میں تیز رفتار ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے، جو کئی عشروں سے نظرانداز ہوتے آرہے ہیں۔ سی پیک پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد میں وفاق کو بھی یکجا کرسکتا ہے کیوں کہ گلگت سے لے کر گوادر تک کا علاقہ جنوب سے شمال کی طرف ایک فطری کوریڈور فراہم کرتا ہے اور اب سی پیک میں فاٹا اور چترال جیسے نظراندازہ شدہ علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر، پاکستان میں تین معاملات پر عوام اور سیاسی قوتوں میں جماعتی سوچ سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے: کشمیر، جوہری طاقت اور چین/سی پیک کے ساتھ مضبوط تعلقات۔
یہ پاکستان کو تیسرا تاریخی موقع ملا ہے کہ وہ خطہ میں اپنے کردار اور محل وقوعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی تعمیر کے ذریعے مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوجائے۔پہلا موقع اس وقت آیا جب پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے اور ملکی دفاع اور استحکام کے لیے نہ صرف عسکری قوت کو ناقابلِ تسخیر بنایا گیا بلکہ پاکستان عالمی نقشہ پر ایک اہم کردار کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔ دوسرا موقع، سانحہ 1971کے بعد اس وقت آیا، جب پاکستان نے افرادی قوت مشرق وسطیٰ کو برآمد کرنے کے لیے پیش کیا کیونکہ اس وقت تک وہ خطہ تیل کی آمدنی کے بل بوتے پر امیر بن چکا تھا اور پاکستان نے ایٹم بن بناکر اپنے قومی دفاع کو بھی فروغ دیا۔
اب 21ویں صدی میں، پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی پالیسی میں تزویراتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور خوش قسمتی سے سی پیک کے ذریعے چین۔ پاکستان تعلقات ہمیں یہ موقع فراہم کررہے ہیں۔ یہ ایک مضبوط اقتصادی بنیاد کے ساتھ انسانی سلامتی کو فروغ دے کر جامع ترقی کے ذریعے معاشرے اور ریاست کے مختلف شعبوں میں ملک گیر سطح پر تیز رفتار ترقی کا ایک تاریخی موقع ہے۔
1948میں امریکی ’لائف‘ جریدے نے سرورق پر تصویر کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کا انٹرویو شایع کیا تھا، جس میں ان سے ایک سوال پاکستان کے مستقبل سے متعلق کیا گیا تھا۔ عظیم رہنما کے 75برس قبل ادا کیے گئے الفاظ آج کسی پیش گوئی کی طرح معلوم ہوتے ہیں: ’’پاکستان دنیا کا محور ہے اور ایسے محل وقوع پر ہے جس کے گرد دنیا کا مستقبل گھومتا ہے‘‘۔ 75برس بعد 2022 میں، خطے کی اور عالمی سیاست میں اہم کردار اور سی پیک کے ساتھ، جب پاکستان اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا ہے، قائد اعظم کا تصور دراصل، حقیقت کا روپ دھار رہا ہے، انشاء اللہ!