• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: اکثر مساجد ومدارس میں امام ، مؤذّن اور مدرسین کو سال میں ایک بونس دیاجاتا ہے، ہم بھی اپنی مسجد میں یہ سلسلہ رائج کرنا چاہتے ہیں، ہماری مسجد کی آمدنی بھی معقول ہے ،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ (عبدالکریم ، کراچی)

جواب: مسجد انتظامیہ اپنے صوابدیدی اختیارات سے مسجد عملے کے مشاہرہ میں اضافہ کرسکتی ہے ، اسی طرح وسائل موجود ہوں تو سالانہ اضافی مشاہرہ بھی دے سکتی ہے۔ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ وقف سے امام کی جو تنخواہ مقرر ہے ،اگر وہ ناکافی ہے اور امام مُتقی عالم ہے ، تو قاضی اس میں اضافہ کرسکتا ہے ،(جلد13، ص:659، دمشق ) ‘‘۔اب اسلامی حکومت تو ہے نہیں ، اس لیے قاضی یا حاکم کی جگہ مُتولّی ِ وقف نے لے لی ہے اوربعض جگہ مساجد کی انتظامی کمیٹی ہوتی ہے۔ 

بعض کمپنیاں ، ادارے اور دفاتر کے ذمہ داران اپنے ملازمین کو سال میں ایک اور بعض اداروں میں اس سے بھی زائد اضافی تنخواہ بطور بونس دیتے ہیں، یہ تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ کمپنی کی طرف سے تبرع اور فضل واحسان کے طورپر ہوتا ہے ، یہ بونس دینا اور ملازمین کے لیے اسے لینا اور اپنے استعمال میں لانا شرعاً جائز ودرست ہے، تاہم اگرکوئی کمپنی یا ادارہ بونس نہ دے تودباؤ ڈال کر اس کامطالبہ نہیں کیا جاسکتا ،لیکن ملازمت سے متعلق جو اجارہ ہوتا ہے، اس میں اُسے شامل کیاجاسکتا ہے۔

مساجد میں باصلاحیت افراد کاتقرر اور ان کی علمی قابلیت وصلاحیت، معاشی ضروریات اور ضروریات زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اَئمۂ مساجد، موذنین ،مدرّسین اور خدام کے وظائف میں وقتا فوقتاً مہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومتیں غیر ہنرمند مزدوروں اور ملازمین کے لیے کم ازکم مشاہرے کا تعین کرتی ہیں۔ آپ اَئمہ وخُطَباء اور مُدرّسین ودیگر ملازمین کے اجارے میں یہ رعایت شامل کرسکتے ہیں، بعض جگہ یہ عُرف رائج ہے اور فقہی قاعدہ ہے: ’’ اَلْمَعرُوفُ کَالمَشرُوط‘‘ یعنی جہاں کوئی عرف رائج ہوتو وہ مشروط ہی کی طرح ہے۔