پاکستان نے کرکٹ کی تاریخ میں جو غیرمعمولی فتوحات حاصل کی ہیں ان کی فہرست نہ صرف طویل ہے بلکہ چند الفاظ میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔یہ فیصلہ کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کس فتح یا کس یادگار لمحے کو نمایاں جگہ دی جائے اور کسے نہیں کیونکہ ہر فتح اپنے طور پر اہم ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا شمار دنیا کی صف اول کی ٹیموں میں ہوتا ہے۔ ورلڈ کپ،ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ، آئی سی سی چیمپینز ٹرافی، ایشیا کپ کے علاوہ پاکستان نے دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کو شکست دی ہے1952میں پاکستان نے اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں بھارت کو لکھنوء میں شکست دے کر تہلکہ مچا دیا۔
ہم نے ورلڈ کپ جیتا، ٹی ٹوئنٹی کے عالمی چیمپیئن بنے، بہترین کھلاڑی دیے، حیران کن ریکارڈز بنائے، ساتھ ہی اسپاٹ فکسنگ کیس میں بدنامی بھی ’’کمائی‘‘
پاکستان کی فتوحات میں عبدالحفیظ کاردار،حنیف محمد، فضل محمود، امتیاز احمد، عمران خان، وسیم باری جاوید میاں داد،وسیم اکرم ،وقار یونس، شعیب اختر،عبدالقادر،اقبال قاسم،ثقلین مشتاق،سلیم ملک، انضمام الحق، یونس خان،شاہد خان آفریدی ،بابر اعظم اور لاتعداد کھلاڑیوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔پاکستان کے 75سالوں کے سفر میں کرکٹ نے قوم کو خوشی دی۔
کرکٹ وہ کھیل ہے جن میں پاکستان عالمی چیمپین بنا اور کھلاڑیوں کے کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ ملنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم نے پہلا دورہ بھارت کا کیا تھاجس میں کھیلی گئی پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز بھارت نے دو ایک سے جیتی۔ بھارت نے دہلی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ اننگز اور 70 رنز سے جیتا لیکن پاکستان نے لکھنؤ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں اننگز اور 43 رنز کی جیت سے حساب بے باق کردیا۔یہ میچ نذر محمد کی ناقابل شکست سنچری اور فضل محمود کی شاندار بولنگ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔
نذر محمد نے پاکستان کی واحد اننگز میں حنیف محمد کے ساتھ بیٹنگ کا آغاز کیا اور آخری بیٹسمین امیرالہی کے آؤٹ ہونے تک 124 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے اس طرح انہوں نے بیٹ کیری کیا۔ فضل محمود نے بھارت کی پہلی اننگز میں 52 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری اننگز میں وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئے اور 42 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں۔ کرکٹ میں جب ورلڈ کپ شروع ہوا تو ابتدائی تین ٹورنامنٹ میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر پاکستانی ٹیم عالمی چیمپئن بھی بنی لیکن جس انداز سے یہ سب کچھ ہوا وہ ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔
ابتدائی میچوں میں اس کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی تھی اور وہ پہلے پانچ میچوں میں سے تین ہارچکی تھی لیکن بعد میں اس نے آسٹریلیا۔سری لنکا اور نیوزی لینڈ کو شکست دی تاہم انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ میں ملنے والا ایک پوائنٹ ہی اسے سیمی فائنل تک لے گیا۔ سیمی فائنل میں اس نے نیوزی لینڈ کو زیر کیا اور پھر میلبورن کے فائنل میں پاکستان نے انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دی۔ وسیم اکرم فائنل کے ہیرو تھے جن کی لگاتار دو گیندیں امر ہوچکی ہیں جن پر انہوں نے ایلن لیمب اورکرس لوئس کو بولڈ کیا تھا۔ اس ورلڈ کپ میں نوجوان انضمام الحق ایک زبردست دریافت کے طور پر سامنے آئے۔ سیمی فائنل میں انہوں نے صرف سنتیس گیندوں پر ساٹھ رنز کی اننگز کھیلی جبکہ فائنل میں وہ پنتیس گیندوں پر بیالیس رنز بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
سیمی فائنل میں انضمام الحق نے صرف 37 گیندوں پر 60 رنز کی اننگز کھیلی جبکہ فائنل میں وہ 35گیندوں پر 42 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ورلڈ کپ جیتنے کے بعدکپتان عمران خان کا سر کالن کاؤڈرے کے ہاتھ سے کرسٹل ٹرافی لینا پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ سمجھاجاتا ہے۔ 1992کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کو ایک بڑی کامیابی یونس خان کی کپتانی میں لارڈزکے تاریخی میدان میں ملی۔2007 ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل دلچسپ مقابلے کے بعد بھارت سے ہاری تھی لیکن دو سال بعد اس نے یونس خان کی قیادت میں ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
ناٹنگھم میں پاکستان نے سیمی فائنل میں جنوبی افریقا کو سات رنز سے ہرایا جس میں شاہد آفریدی کی نصف سنچری اور دو وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کا عمل دخل نمایاں تھا۔ فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی ۔ شاہد آفریدی نے ایک بار پھر فتح گر کا کردار ادا کیا اور ناقابل شکست نصف سنچری بناکر مسلسل دوسرے میچ میں مین آف دی میچ رہے۔اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی بولرز کی کارکردگی بہت عمدہ رہی ۔ عمرگل 13وکٹوں کے ساتھ سرفہرست رہے جبکہ سعید اجمل نے بارہ اور شاہد آفریدی نے 11,11 وکٹیں حاصل کیں۔
پھر لندن ہی کے اوول میدان میں پاکستان نے آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کی تاریخی جیت کی صورت میں ملی۔یہ ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جسے پاکستانی ٹیم انیس سال سے جیتنے کی کوشش کررہی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوپارہی تھی۔ سرفراز احمد کی قیادت میں اس کی یہ کامیابی اتار چڑھاؤ کے بعد ممکن ہو سکی۔ سری لنکا کے خلاف تین وکٹوں کی جیت نے اسے سیمی فائنل میں پہنچایا جہاں اس نے انگلینڈ کو آٹھ وکٹوں سے ہرایا۔ فائنل میں پاکستانی ٹیم کا مقابلہ بھارت سے تھا جس سے وہ پہلا میچ ہاری تھی لیکن فائنل میں اس نے 180 رنز کی بھاری جیت سے روایتی حریف کو آؤٹ کلاس کردیا۔فخر زمان کی سنچری نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
بھارت کے خلاف فائنل میں فخرزمان کی سنچری اور محمد عامر کی تین وکٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔پاکستان کی تاریخی فتوحات بنگلور ٹیسٹ کی جیت کے بغیر نامکمل رہیں گی۔مارچ 1987 میں پاکستان نے بنگلور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں حاصل کی تھی۔ اس جیت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن اس کا نتیجہ یہ تھا کہ 16 رنز کی اس ڈرامائی جیت کے بل پر پاکستان نے انڈین سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد اس جیت کے ہیرو تھے۔اکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی لیکن پوری ٹیم صرف 116 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس میں سب سے بڑا انفرادی سکور سلیم ملک کے 33 رنز تھے۔
لیفٹ آرم سپنر منندر سنگھ نے صرف 27 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کیں۔ انڈیا نے اپنی پہلی اننگز میں 146 رنز بنائے۔ اقبال قاسم نے 48 اور توصیف احمد نے 54 رنز دے کر پانچ، پانچ وکٹیں حاصل کیں۔پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 249 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی، روی شاستری نے چار اور منندر سنگھ نے تین کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ بھارت کو جیت کے لیے 221 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن اقبال قاسم اور توصیف احمد کی چار، چار وکٹوں نے اس کے قدم 204 رنز پر روک دیے۔ اقبال قاسم نے نہ صرف 96 رنز بنانے والے گاواسکر کو پویلین کی راہ دکھائی بلکہ اپنی ہی گیندوں پر روی شاستری اور اظہر الدین کے غیر معمولی کیچز بھی لیے تھے۔ یہ ٹیسٹ میچ پاکستان جیتا۔ 9,9 وکٹیں اقبال قاسم اور توصیف احمد نے حاصل کیں لیکن حیران کن طور پر مین آف دی میچ ایوارڈ سنیل گاواسکر کو دیا گیا تھا۔ پاکستان کے ریکارڈز پر نظر ڈالی جائے تو سابق کپتان یونس خان نے پاکستان کی طرف سے بیٹنگ کے کئی ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔
انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز 10,099 بنائے ہیں وہ اپنے ملک کے لیے فارمیٹ میں 10,000 سے زیادہ رنز بنانے والے پہلے اور واحد کھلاڑی ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ سنچریوں 34 کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ڈبل سنچریوں کے حوالے سے جاوید میانداد کے ساتھ 6 کے ریکارڈ ہولڈر ہیں۔حنیف محمد کے 1958 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 337 رنز ایک پاکستانی کرکٹر کا سب سے بڑا انفرادی سکور ہے، جس نے امتیاز احمد کے 209 کے پچھلے بہترین ا سکور کو پیچھے چھوڑ دیا، جو 1955ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں آٹھویں سب سے زیادہ انفرادی ا سکور بھی ہے۔
حنیف محمد 337 انضمام الحق (329)، یونس خان (313) اور اظہر علی (302 ناٹ آؤٹ) وہ پاکستانی کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹرپل سنچریاں اسکور کیں۔بولنگ میں وسیم اکرم نے کئی ٹیسٹ ریکارڈز قائم ہیں۔ ان کے پاس سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں 414 کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ 5 وکٹیں فی اننگز 25 مرتبہ کا ریکارڈ بھی ہے۔ وسیم اکرم کے پاس ٹیسٹ کرکٹ میں 8ویں نمبر پر 257 ناٹ آؤٹ پر بیٹنگ کرتے ہوئے سب سے زیادہ انفرادی اسکور کا ریکارڈ بھی بنایا۔ یہ کارنامہ اس نے 1996ء میں زمبابوے کے خلاف کھیلتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ 1987ء میں قذافی اسٹیڈیم میں انگلینڈ کے خلاف عبدالقادر کی 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں کسی پاکستانی بولر کی ایک اننگز میں بہترین بولنگ کا ریکارڑ ہے اسی گراؤنڈ پر 1982ء میں عمران خان کی سری لنکا کے خلاف 116 رنز کے عوض 14 وکٹوں کا حصول کسی پاکستانی کھلاڑی کی ٹیسٹ میں بہترین بولنگ ہے۔
ان کے پاس 22.81 کے ساتھ پاکستان کے لیے بہترین بولنگ اوسط کا ریکارڈ بھی ہے۔ سابق کپتان یونس خان نے بطور فیلڈر 118 میچوں میں 139 کیچ لیے، جو کسی پاکستانی کی جانب سے سب سے زیادہ کیچز کا ریکارڈ ہے جبکہ عالمی کرکٹ میں مجموعی طور پر 12ویں نمبر پر ہیں۔وکٹ کیپنگ ریکارڑ میں وسیم باری پاکستان کے سب سے کامیاب وکٹ کیپر ہیں جنہوں نے وکٹوں کے پیچھے 228 آؤٹ کیے ہیں۔ تاہم انہیں عالمی فہرست میں وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ آؤٹ کرنے والوں میں 11ویں نمبر پر ہیں۔وسیم باری نے نیوزی لینڈ کے خلاف اننگز میں سات کیچ لئے جو طویل عرصے تک عالمی ریکارڈ رہا۔09-2008 میں پاکستان نے سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پہلی اننگز میں 765رنز پانچ وکٹ پر ڈکلیئر کی یہ ایک اننگز میں پاکستان کا سب سے زیادہ اسکور ہے۔
اس میچ میں یونس خان کے 568 گیندوں پر 27 چوکوں اور 4 چھکوں کی مدد سے بننے والے 313 رنز نمایاں اور کامران اکمل کے 158 رنز بنائے۔جبکہ کسی ایک اننگز میں سب سے زیادہ رنز کا عالمی ریکارڑ سری لنکا کے پاس ہے جس نے بھارت کے خلاف 6 وکٹوں پر 952 کا پہاڑ جیسا ہدف مقرر کیا تھا اس بڑے ا سکور میں سنتھ جے سوریا کے 340 روشن ماہنامہ 225 ارجنا راناتونگا 86 مہیلا جے وردھنے 66 رنز کی بڑی اننگز کھیلی۔
پاکستان کرکٹ کی تاریخ شاہد آفریدی کی 37گیندوں پر سنچری کے بغیر نامکمل رہے گی۔4 اکتوبر کو پاکستانی ٹیم ورلڈ چیمپئن سری لنکا کے مقابل تھی۔ نیروبی جم خانہ گراؤنڈ میں تماشائیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ آج وہ ایک ریکارڈ ساز اننگز دیکھنے والے خوش قسمت شائقین بننے والے ہیں۔ کپتان سعید انور اور سلیم الہی سکور کو 60 تک لے گئے۔
اس موقع پر سلیم الہی 23 رنز بنا کر دھرما سینا کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ کریز پر آنے والے نئے بیٹسمین شاہد آفریدی تھے۔شاہد آفریدی نے اپنی نصف سنچری 18 گیندوں پر مکمل کی۔ یوں وہ صرف ایک گیند کی کمی سے سنتھ جے سوریا کا 17 گیندوں پر نصف سنچری کا عالمی ریکارڈ برابر نہ کر سکے لیکن ابھی سنچری اور وہ بھی ورلڈ ریکارڈ سنچری مکمل ہونا باقی تھی۔ شاہد آفریدی جس بے رحمی سے ہر گیند کو کھیل رہے تھے ان کے ساتھ کریز پر موجود سعید انور ہر چھکے اور چوکے پر ان کے پاس آ کر حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ اس اننگز میں سعید انور نے بھی تین ہندسوں کی خوبصورت اننگز کھیلی تھی۔ شاہد آفریدی نے مرلی دھرن کی گیند پر لیگ سائیڈ پر چوکا لگا کر اپنی سنچری 37 گیندوں پر مکمل کی جس میں 6 چوکے اور بھرپور قوت والے 11 چھکے شامل تھے۔
وہ چالیس گیندوں پر 102 رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ شاہد آفریدی سے قبل ون ڈے انٹرنیشنل میں تیز ترین سنچری کا ریکارڈ سنتھ جے سوریا کا تھا جنھوں نے نیروبی کے اس ٹورنامنٹ سے چھ ماہ قبل سنگاپور میں پاکستان کے خلاف 48 گیندوں پر سنچری مکمل کی تھی۔ جہاں پاکستان کرکٹ کی تاریخ ریکارڈ ز اور کھلاڑیوں کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ وہیں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کو داغ دار کردیا۔ 2010میں سلمان بٹ،محمد عامر اور محمد آصف کے بدنام زمانہ اسکینڈل نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ پھر پاکستان سپر لیگ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیس کے مرکزی کردار ناصر جمشید بھی جیل میں سز کاٹنے کے بعد گمنامی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
انچسٹر کی عدالت نے ناصر جمشید کو 17ماہ، یوسف انور کو ساڑھے تین سال جبکہ اعجاز احمد کو ڈھائی سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹر عمر اکمل کی سزا 3سال سے کم کرکے ڈیڑھ سال کردی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام کھلاڑی پہلے اپنے جرم سے انکار کرتے رہے پھر انہوں نے جرم کا اقرار کر ہی لیا اور سزا پوری کرکے دوبارہ کرکٹ میں واپس آچکے ہیں۔ لکھنوء سے جیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ دور حاضر کے سپر اسٹار بابر اعظم کئی بیٹنگ ریکارڈز توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستانی کرکٹ کا پرچم بلند کر نے کی کوششوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
شعیب اختر عالمی ریکارڈ سے تیز ترین گیند تک
عالمی شہرت یافتہ فاسٹ بولر شعیب اختر واحد کھلاڑی ہے جو دو مرتبہ سو میل فی گھنٹہ (100) کی رفتار سے بولنگ کر چکے ہیں۔ لیکن تنازعات کی وجہ سے وہ اکثر ٹیم سے باہر نکالا جا چکا ہے۔ ان پر 2006 میں ممنوعہ قوت بخش ادویات کے استعمال کا الزام لگایا گیا جس کی وجہ سے اس پر کرکٹ کھیلنے کی پابندی عائد کر دی گئی جو بعد میں اٹھا لی گئی تھی۔ پھر دسمبر 2007ء میں محمد آصف کے ساتھ جھگڑے کی بنا پر اسے ٹیم سے باہر نکال دیا گیا اور اس کے بولنگ ایکشن پر متعدد بار سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ شعیب اختر نے انگلینڈ کے خلاف 2003ء کے ورلڈ کپ میںکیپ ٹاون میںیک گیند 100.2 میل فی گھنٹہ (161.4 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے پھینکی جو آج تک سب سے تیز ترین گیند بازی کی رفتار ہے۔
مصباح الحق مسٹر ٹک ٹک سے تیز ترین ٹیسٹ سنچری تک
مصباح الحق کو ان کے سست بیٹنگ انداز کی وجہ سے مسٹر ٹک ٹک کہا جاتا تھا۔پھر مصباح الحق نے وہ کارنامہ انجام دے دیا جس پر کچھ لوگوں کو یقین نہ آئے۔مصباح الحق نے نومبر 2014 میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں صرف 56 گیندوں پر سنچری مکمل کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں گیندوں کے اعتبار سے تیز ترین سنچری کا سرویوین رچرڈز کا عالمی ریکارڈ برابر کر دیا تھا تاہم فروری 2016 میں یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے برینڈن میک کالم نے 54 گیندوں پر قائم کر دیا تھا۔
مصباح الحق کہتے ہیں ’جب انھوں نے 21 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کر کےجیک کیلس کا ریکارڈ توڑا تو وہ شیخ زائد اسٹیڈیم کی ا سکرین پر آ گیا تھا لیکن اس وقت انھیں نہیں پتہ تھا کہ تیز ترین سنچری کا ریکارڈ کیا ہے؟ یہ بات انھیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ 80 رنز پر کھیل رہے تھے کہ ڈریسنگ روم سے انھیں پیغام آیا کہ سرویوین رچرڈز کا ریکارڈ توڑنے کے لیے آپ کے پاس دس گیندیں رہتی ہیں۔
ماجد خان لنچ سے پہلے سنچری
31 اگست 1974 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے ُاتری تو اسے اوپنر ڈیوڈ لائیڈ کے ناقابل شکست 116 اور اس اننگز کی بدولت بننے والے انگلینڈ کے 244 رنز کا جواب دینے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی اننگز کی ضرورت تھی۔ ماجد خان نے صرف 88 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے سنچری مکمل کرلی اور جب وہ 99 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 109 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو میچ پاکستان کی گرفت میں آچکا تھا۔
اس اننگز کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی پہلی سنچری تھی۔ اس وقت تک ون ڈے انٹرنیشنل میں بننے والی یہ محض چوتھی سنچری تھی۔ ان سے پہلے انگلینڈ کے ڈینس ایمس نیوزی لینڈ کے کین ورڈزورتھ اور انگلینڈ کے ڈیوڈ لائیڈ تین ہندسوں کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔30 اکتوبر سنہ 1976 میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ کے پہلے دن ماجد خان نے کھانے کے وقفے سے قبل ہی سنچری مکمل کرڈالی۔ وہ اس وقت تک دنیا کے چوتھے بیٹسمین تھے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ ان سے قبل یہ کارنامہ تین آسٹریلوی بیٹسمینوں وکٹر ٹرمپر، چارلس میکارٹنی اور سر ڈان بریڈمین نے انجام دیا تھا۔ ماجد خان کی سب سے بڑی خوبی جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے وہ ان کی سپورٹسمین شپ تھی۔
وکٹ کے پیچھے کیچ ہونے کے بعد وہ کریز چھوڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے تھے لیکن جنوری سنہ 1983 میں انڈیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں دنیا نے انھیں مختلف روپ میں دیکھا جب امپائر جاوید اختر نے انھیں صفر پر کپل دیو کی گیند پر وکٹ کیپر کرمانی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ دے دیا۔ماجد خان کو پتہ تھا کہ گیند نے بلے کو نہیں چھوا تھا لہٰذا وہ پہلی بار غصے میں بڑبڑاتے ہوئے پویلین جاتے ہوئے نظر آئے تھے۔ یہ ایک شاندار کریئر کا افسوسناک اختتام تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ٹیسٹ شروع ہوتے وقت ماجد خان سب سے زیادہ 3931 رنز بنانے والے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر تھے لیکن اسی اننگز میں جاوید میانداد 85 رنز بنا کر ان سے آگے نکل گئے تھے۔
انگلینڈ کے خلاف ایجبسٹن بر منگھم میں کراچی کے علاقے جہانگیر روڈ کے دبلے پتلے نوجوان نے274رنز کی اننگز کھیلی اس اننگز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔274 رنز کی اننگز کے بعد دنیا کو ظہیر عباس کی شکل میں دوسرا سر ڈان بریڈمین نظر آنے لگا تھا۔ مشہور کمنٹیٹر جان آرلٹ نے ظہیر عباس کو ایشیئن بریڈمین کہہ کر پکارا۔ چند ایک کا کہنا ہے کہ ای ڈبلیو سوانٹن نے یہ خطاب دیا۔کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں 1971 کے دورے میں نہیں بلکہ 1974 کے دورے میں ایشیئن بریڈمین کہا گیا جب انھوں نے اوول ٹیسٹ میں 240 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
خود ظہیر عباس کا اس بارے میں کہنا ہے ’274 رنزکی اننگز کے بعد انگلینڈ کے اخبار ٹائمز نے سرخی لگائی تھی۔ میٹ دا ایشین بریڈمین۔ظہیر عباس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 108 سنچریاں بنائی ہیں۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد ایشیائی بیٹسمین ہیں جنھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں سنچریوں کی سنچری مکمل کی ہے جبکہ غیر برطانوی کھلاڑیوں میں ان کے علاوہ صرف سر ڈان بریڈمین، سر ویوین رچرڈز اور گلین ٹرنر نے سنچریوں کی سنچری مکمل کر رکھی ہے۔
ظہیر عباس کے دو ریکارڈز ٹوٹنا آسان نہیں۔ ان میں سے ایک آٹھ مرتبہ کسی فرسٹ کلاس میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں سکور کرنا ہے جبکہ دوسرا ریکارڈ یہ ہے کہ ان آٹھ میں چار میچ ایسے ہیں جن میں ظہیر عباس نے ایک اننگز میں ڈبل سنچری اور دوسری میں سنچری ا سکور کی ہے۔
8 دسمبر 1959 کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین میچوں کی سیریز کے تیسرے اور آخری ٹیسٹ کا چوتھا دن تھا جب دنیا کو یہ خبر مل چکی تھی کہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر آئزن ہاور نیشنل سٹیڈیم آ کر کچھ دیر کے لیے ٹیسٹ میچ دیکھنے والے ہیں۔ یہ کسی امریکی صدر کے کرکٹ ٹیسٹ میچ دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔ آئزن ہاور خود گالف اور مچھلی کے شکار کے شوقین تھے۔ ان کی کرکٹ سے لاعلمی کے بارے میں لکھا جاتا رہا ہے تاہم ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ وہ کرکٹ کے مشہور کلب ایم سی سی کے ممبر بھی تھے۔
امریکی صدر کا دورہ پاکستان 19 روز میں 11 مختلف ممالک کے خیرسگالی دوروں کا حصہ تھا۔آئزن ہاور پاکستان کے صدرجنرل ایوب خان کے ساتھ صبح گیارہ بجکر چالیس منٹ پرا سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو اس وقت پاکستان کی دوسری اننگز جاری تھی لیکن مہمان کی آمد پر کھیل روک دیا گیا۔ پاکستان ایئرفورس کے بینڈ نے دونوں ملکوں کے قومی ترانوں کی دھنیں بجائیں اور اس کے بعد دونوں ٹیموں کو صدر آئزن ہاور سے تعارف کے لیے میدان میں کھڑا کر دیا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق اس روز سٹیڈیم میں چالیس ہزار کے لگ بھگ شائقین موجود تھے۔
کھلاڑیوں کے تعارف سے قبل صدر آئزن ہاور کو کرکٹ ٹائی اور ان کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ کرکٹ بلیزر (کوٹ) پیش کیا گیا جسے انھوں نے پہنا۔ بلیزر کا سائز امریکی صدر کی جسامت کے عین مطابق ہو۔ لہذا انھوں نے ان کے دورے سے قبل ہی وائٹ ہاؤس رابطہ کر کے پیمائش کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرلی تھیں جن کی بنیاد پر یہ بلیزر تیار کرایا گیا۔
صدر ایوب خان نے بعد میں اس بات پر حیرانی ظاہر کی تھی کہ صدر آئزن ہاور کرکٹ سے متعلق بہت کم جانتے تھے تاہم کتابوں میں درج ہے کہ جب آئزن ہاور سے دونوں ٹیموں کا تعارف کرایا جا رہا تھا تو انھوں نے پاکستانی بیٹسمین ڈنکن شارپ کو پہچان لیا تھا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ آپ وہی ہیں جنھوں نے ڈھاکا ٹیسٹ میں اچھی بیٹنگ کی تھی جس پر ڈنکن شارپ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
صدر آئزن ہاور نے اس موقع پر کرکٹ بیٹ اور گیند دیکھنے کی بھی فرمائش کی اور بیٹ پر اپنے دستخط بھی کیے۔دونوں سربراہان مملکت تقریباً آدھا گھنٹہ اسٹیڈیم میں رہے اور اس موقع پر آئزن ہاور کرکٹ کے بارے میں سوالات بھی کرتے رہے جن میں سے کچھ ایسے سوالات بھی تھے جن پر ایوب خان کو بازو کی مدد سے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دینا پڑے۔صدر آئزن ہاور نیشنل ا سٹیڈیم کے اس مختصر دورے پر بہت خوش تھے جس کا اظہار انھوں نے اسی روز پاکستان کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری ایس ایم حسین کو لکھے گئے خط میں کیا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک منفرد موقع تھا کہ انھوں نے دنیا کی دو اچھی ٹیموں کو مدمقابل ہوتے دیکھا ہے۔
سابق کپتان اور ماضی کے عظیم بیٹسمین حنیف محمد کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی سب سے طویل اننگز کھیلی، ان کی اننگز ریکارڈ بک کا حصہ ہے۔یہ بیرون ملک آج بھی ٹیسٹ پاکستانی کا سب سے بڑا اسکور ہےلٹل ماسٹر حنیف محمد نے یہ کارنامہ 23جنوری 1958کو ویسٹ انڈیز کیخلاف بارباڈوس میں 337 رنز کی اننگز کھیل کر انجام دیا تھا۔ حنیف محمد نے اس اننگز کے لیے 970منٹ وکٹ پر رکے رہے جو آج بھی ریکارڈ بک کا حصہ ہے۔
حنیف محمد کی یہ اننگز دنیا کی آٹھویں بڑی انفرادی ٹیسٹ اننگز بھی ہے۔ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاون ،بارباڈوس ٹیسٹ میں حنیف محمد کی یہ اننگز اس لیے بھی یاد گار ہے کہ انھوں نے 473 رنز کے خسارے میں فالو آن کا شکار ہونے کے باوجود اپنی ریکارڈ ساز پرفارمنس سے پاکستان کو یقینی شکست سے بچالیا۔ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں اولین ٹرپل سنچری بنانے کا ریکارڈ بھی حنیف محمد کے پاس ہے۔ انہوں نے 337 رنز کا انفرادی اسکور بنایا۔