• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ہارون مرزا۔۔۔۔۔راچڈیل
سوشل میڈیا کی موجودہ اہمیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں، سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، آج انٹرنیٹ کی بدولت چند سیکنڈوں میں پوری دنیا کا احوال سے آشنا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں رہی مگر بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا منفی استعمال نہ صرف نوجوان نسل کی رگوں میں زہر بن کر اتر رہا ہے بلکہ مذہبی منافرت جیسی سرگرمیوں کے لیے بھی اس کا استعمال بدامنی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتا ہے، انسان اپنی تمام ضروریات اپنے آپ پوری نہیں کرسکتا اسے اپنی خواہش ، اپنی ضرورت اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچنانا پڑتا ہے پہنچانے کے عمل کوابلاغ کہتے ہیں، ابلاغ کے لئے انسان کو دو قدرتی ذرائع مہیا کئے گئے ہیں، ایک زبان جس کے ذریعہ آپ قریب کے لوگوں تک اپنی بات پہنچاسکتے ہیں دوسرے قلم جس کے ذریعہ آپ کوئی بات لکھ سکتے ہیں اور اسے کسی ذریعہ سے دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں قلم کی طاقت سے آپ اپنے جذبات دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، سوشل میڈیا اس دور کا سب سے جدید اور موثر ترین ذریعہ بن چکا ہے جس کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہے دنیا کی تمام چیزوں میں شر و خیر کا پہلو چھپا ہوتا ہے اب یہ ہماری استعداد پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پہلو اختیار کرتے ہیں اگر کسی چیز کا استعمال صحیح اور جائز کاموں کے لئے کیا جائے جس سے دنیائے انسانیت فیض یاب ہوتی ہوتو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے فیوض و برکات اور ثمرات بہت فائدے مند ہوں گے یہی حال سوشل میڈیا کے استعمال کا بھی ہے، سوشل میڈیا ایک ایسی ایجاد ہے جس کی افادیت و نقصانات دونوں ہیں یہ دو دھاری تلوار ہے حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو اس کے نقصانات اس کی افادیت سے زیادہ ہیں، چاہے وہ مذہبی ہوں، جسمانی ہوں یا معاشرتی و سماجی اب یہ استفادہ کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیسے مستفید ہوتے ہیں سوشل میڈیا کا جائز استعمال کرنے والے بھی ناجائز چیزوں سے اپنی حفاظت نہیں کرپاتے جدید نیٹ ورک ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا جیسے آزاد پلیٹ فارمز بڑی آسانی سے مہیا ہوجاتے ہیں، فی زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں اور عورتوں تک سب گرفتار ہیں ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ذرائع کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان تمام ذرائع کا استعمال ایک نشہ بن چکا سوشل میڈیا جہاں اپنے آپ میں مفید ہے وہیں حد درجہ مضر و خطرناک بھی ہیزندگی میں جو کام سوشل میڈیا سے باہر کرنا مرد و زن پر حرام و ناجائز ہے وہ سوشل میڈیا پر کرنا بھی حرام و ناجائز ہی ہیں اور جو کام جائز ہیں وہ سوشل میڈیا پر بھی جائز ہو جاتا ہے چونکہ سوشل میڈیا کی اس لہر سے بچنا آج کل کے دور میں انتہائی مشکل ہے تو ایسے حالات اس فتنہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اگر بہت زیادہ ضرورت ہوتو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے گریز،اس کے مثبت استعمال کی طرف رہنمائی اور اصلاحی امور کی انجام دہی کے لیے اس کا استعمال کرنے کی کوشش کریں کیونکہ موجودہ دور میں اصلاحی کوششوں کی شدید ضرورت ہے سوشل میڈیا نے جہاں مردوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے وہیں خواتین بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو رہی ہیں، ایک وقت تھا جب صرف مرد حضرات انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتے نظر آتے تھے ایک محتاط عوامی سروے کے مطابق سوشل میڈیا کا منفی استعمال گھروں کے ٹوٹنے کی بڑی وجہ بھی سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہے حالات و تجربات شاہد ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے امت کی بیٹیوں اور لڑکیوں میں بے شرمی، بے باکی، بے حجابی، بے حیائی، فحاشی و عریانیت وجود میں ارہی ہے اور غیرت و حمیت شرم و حیا کا جنازہ نکلتا جارہا ہے ٹک ٹاک اور دیگر کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بار بار اس وجہ سے بین کیا جاتا رہا ہے اس کے ذریعے فحاشی کو فروغ حاصل ہونیکی شکایات عام ہونے لگی تھیں مگر بدقسمتی سے آج ایک بار پھر سوشل میڈیا کا منفی استعمال بڑھتا جا رہا ہے جو معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتاہے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی دیگر اقسام شامل ہیں خواتین کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر کبھی نہ کبھی گالم گلوچ، نازیبا الفاظ اور ٹرولنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے فیس بک جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار ہی رہتا ہے اور اس تنہائی کا احساس مردوں سے زیادہ خواتین شدت سے محسوس کرتی ہیں،سروے بتا رہے ہیں کہ فیس بک کے ذریعے دوستی اور جنسی تشدد کا تناسب دنیا میں 39فیصد، انسٹاگرام23 فیصد، واٹس ایپ 14 فیصد جیسے دیگر ٹولز، انسانی مواصلات کے لئے غیر معمولی چیزیں بن گئیں ہیں ان کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ سنگین خطرات کا اصل ذریعہ ہیں جو بعد میں دوسری خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں ایک سروے کے مطابق % 34خواتین مردوں کے ہاتھوں آن لائن ہراساں ہورہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ منفی استعمال روکا جائے۔
یورپ سے سے مزید