پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت نیدر لینڈ میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لئے موجود ہے جبکہ پاکستان میں قومی انڈر19کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہوچکا ہے اور دیگر ٹورنامنٹ کا شیڈول جاری ہوچکا ہے اور ٹیموں کی تشکیل جاری ہے۔حیران کن طور پر اس وقت نئے سسٹم میں ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوچز کو اس قدر اختیارات مل چکے ہیں کہ ان کے انڈر میں کام کرنے والے دیگر کوچز بے بس ہیں اور کوچز کے اختیارات کے سامنے کھلاڑی بے بس ہیں۔ کئی کھلاڑی انصاف کے حصول کے لئے پریشان ہیں۔
شاید سندھ اس لحاظ سے بدقسمت ہے جہاں کوچز کے خلاف کھلاڑیوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا میں بڑا کوچ وہ سمجھا جاتا ہے جو ڈریسنگ روم کے ماحول کو نارمل رکھے اور کھلاڑیوں کو ریلکس رکھیں۔ لیکن اس وقت کھلاڑی یہی بتاتے ہیں کہ کوچز راجا اندر بنے بیٹھے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو بڑے سے بڑے کھلاڑی کو بھی ٹارچر کرنے سے گریز نہیں کرتے اس لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام اور خاص طور پر رمیز راجا کو کوچز کی جانب داری اور کردار کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ کھلاڑی کی وجہ سے سسٹم میں پیسہ آتا ہے لیکن اگر کھلاڑی ہی سسٹم میں بے یار و مدد گار ہوجائیں تو پھر سسٹم کو چلانا مشکل ہے۔
پاکستانی سسٹم میں کھلاڑیوں کو ہم ہیروز کا درجہ دیتے ہیں لیکن بعض دفعہ یہی ہیروز زیرو بن جاتے ہیں۔ حکام کو چاہیے کہ کھلاڑیوں کووہ مقام اور مرتبہ دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز میں نوح دستگیر بٹ اور ارشد ندیم نے جس طرح پاکستان کا نام روشن کیا ان کی تعریف کرتے ہوئےبابر اعظم اور شاہین آفریدی نے بھی زمین آسمان ایک کردیا۔ 22ویں کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے والے پاکستانی ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے اپنے والد کی ایک خواہش پوری کر دی مگر اب اُن کی نظریں اولمپک اور ورلڈ گولڈ میڈل پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ ان کے والد بھی اسی کی خواہش رکھتے ہیں۔
گوجرانوالہ کے نوح دستگیر بٹ کے والد غلام دستگیر بٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ نوح نے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ لیکن ہمیں اس میڈل کو سر پہ سوار نہیں کرنا کیونکہ ہم نے ابھی سے ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپیئن شپ اور 2024 میں پیرس میں ہونے والے اولمپکس کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا ان دو مقابلوں میں کامیابی حاصل کرے۔ نوح کے والد غلام دستگیر بٹ کہتے ہیں ’نوح کو ابتدا میں ویٹ لفٹنگ کا شوق نہیں تھا لیکن چونکہ میں اور میرے چھوٹے بھائی ویٹ لفٹر تھے، لہذا میں نے اسے اس کھیل کی طرف راغب کیا اس وقت اس کی عمر آٹھ برس تھی۔
پہلے یہ نوح کا شوق بنا اور اب یہ جنون بن چکا ہے۔ نوح دستگیر کے بعد ارشد ندیم نے طلائی تمغہ جیت لیا۔ پاکستان کے سپورٹس کلچر میں جہاں ہر گفتگو کرکٹ سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہو اور کرکٹرز ہی کو سٹارز کا درجہ حاصل ہو، وہاں دوسرے کھیل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ہاکی میں اب حسن سردار اور شہباز احمد نہیں رہے جن کے طلسماتی کھیل کی دنیا دیوانی تھی اور سکواش کورٹ سے جہانگیر خان اور جان شیر خان کی فتوحات کی خبریں بھی آنا بند ہو گئیں۔
ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ایتھلیٹکس بھی ہیں، جس میں عبدالخالق، محمداقبال، محمد نواز، غلام رازق، مبارک شاہ اور محمد یونس کے کارنامے سن کر دل خوش ہو جایا کرتا تھا لیکن اب پاکستان کی ایتھلیکٹس کو ایک نیا چہرہ مل گیا ہے جس نے ٹریک اینڈ فیلڈ کی دنیا میں پاکستان کو ایک نئے انداز سے متعارف کر ادیا ہے۔ ارشد ندیم آج پاکستان کے ہر گھر میں موضوع گفتگو ہیں۔ ہر گھر میں انہی کے چرچے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ان کے چرچے دوسرے ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ پانے والے کھلاڑی ہیں جن کی دنیا مداح ہے لیکن سوچیے کہ ارشد ندیم کا کارنامہ کتنا بڑا ہے کہ بابر اعظم بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
امن ویلتھ گیمز میں پاکستانی ایتھلیٹس اور کھلاڑیوں کا سفر اختتام کو پہنچ گیا ہے اور 68 کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس پر مشتمل دستے نے توقعات سے بہت بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں دو طلائی، تین چاندی اور تین کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔ ان میں پاکستانی ویٹ لفٹر محمد نوح دستگیر بٹ اور جیولن تھروئر ارشد ندیم نے طلائی، پہلوان زمان انور، محمد انعام اور محمد شریف طاہر نے چاندی جبکہ پہلوان عنایت اللہ اور علی اسد اور جوڈوکا میں شاہ حسین شاہ نے کانسی کے تمغے حاصل کیے۔
22 ویں کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لینے والے پاکستانی باکسنگ اسکواڈ میں شامل دو باکسرز غائب ہو گئے ہیں۔ ان دو باکسرز کے نام سلیمان بلوچ اور نذیر اللہ بتائے گئے ہیں۔ دونوں باکسر یقینی طور پر معاش کی تلاش میں انگلینڈ میں غائب ہوگئے۔ باکسرز کا غائب ہونا ہمارے سسٹم پر بڑا سوالیہ نشان ہے جہاں ڈپارٹمنٹل اسپورٹس بند ہوگئی ہے اور کھلاڑیوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات ہیں۔ حکومت کو کھلاڑیوں کو ملازمتیں دینے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی ایتھلیٹس کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ ہے لیکن سہولتوں کا فقدان ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔