نائلہ گوہر
’’باجی! مجھے تنخواہ چاہیے۔‘‘
’’ کیا؟ بیگم سراج کو جیسے جھٹکا لگا۔‘‘ تجھے آئے ہوئے صرف 13دن ہوئے ہیں۔ پورے مہینے کی تنخواہ کیسے تیرے حضور پیش کر دوں؟ تم لوگوں کے دین ایمان کا کچھ پتا نہیں۔ آج ادھر کام کیا تو کل کہیں اور۔ ضمانت تمہارا باپ دے گا؟‘‘
شمو نے اپنے مرحوم باپ کا یوں تذکرہ سُنا تو اندر تک ہل کر رہ گئی۔ لیکن مزدوری کا تلخ گھونٹ سمجھ کر یہ وار برداشت کرنا پڑا۔ ’’باجی! کل خوشیوں بھرا دن ہے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کچھ چیزیں لینی ہیں۔‘‘
بیگم سراج نے بھنویں سکیڑتے ہوئے تشویش ناک انداز میں سوچا! ’’کیا ان غریبوں کے لیے بھی دن مختص ہونا شروع ہو چکے؟‘‘ ابھی وہ اپنی سوچوں کو الفاظ کے رُوپ میں ڈھالنے ہی لگی تھی کہ شمو بول پڑی ’’باجی! کل 14؍ اگست ہے؟‘‘
’’اوہ۔‘‘ ماسک زدہ چہرے کے عقب سے آواز برآمد ہوئی۔
’’باجی! ابّا زندہ تھا تو ہر سال ہم 14؍ اگست خوب مناتے جھنڈیاں لگاتے، گھر کے باہر بڑا جھنڈا لہراتے اور پاکستان زندہ باد کے اسٹیکر چپکاتے تھے۔‘‘
’’کہاں…؟ اپنی جھگی میں؟؟‘‘ بیگم سراج کی حقارت سوا نیزے پر تھی۔
’’اب ابّا تو چلا گیا، لیکن میرے بہن بھائی یہ نہ سوچیں کہ ابّا تھا تو آزادی کی بہاریں تھیں۔ میں آپ سےوعدہ کرتی ہوں، پورا مہینہ، میں دُگنا کام کروں گی۔‘‘
’’اوہ! تو یہ کہانی ہے۔ قربان جائوں تم لوگوں کے نخروں پر۔ ایک طرف تو دہائی دیتے ہو کہ گھر میں فاقہ ہے، تنخواہ پوری نہیں پڑتی۔ دُوسری طرف عیاشی کا یہ حال! صرف اپنے چونچلوں کے لیے پیسے مانگ رہی ہو۔ اگر میں اپنے شوہر کے خون پسینے کی کمائی یوں لٹانے لگی تو پھر بن گیا کام ہمارا۔‘‘ (خون پسینے کی یہ کمائی جناب سراج کے وفاقی عہدے اور اس سے ملنے والی مراعات کی مرہون منت تھی۔)
’’میرا دماغ نہ خراب کرو اور جائو کام کرو۔ فضول میں میرا ماسک خراب کر دیا۔‘‘
’’مم۔ مم‘‘ ان کی بیٹی ’’ہاں ہنی بیٹا! کیا بات ہے؟‘‘
’’مم! آج شام ہوٹل میں انڈین سنگر سونونگم کا کنسرٹ ہے۔ ٹکٹ اور ڈنر کے لیے کچھ…‘‘
’’یو ناٹی گرل!‘‘ بیگم سراج اُس کا مطلب بھانپتے ہوئے مسکرائیں‘‘ یہ لو دس ہزار۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔
’’جے ماتا جی‘ کی!‘ ہنی نے زوردار نعرہ لگایا اور ماں سے لپٹ گئی۔
شمو نے ماں بیٹی کی گفتگو سنی، تو غصے میں جل کر کوئلہ ہو گئی۔ اپنا حق لینا اُسے بھیک مانگنے کے مترادف لگ رہا تھا۔ صرف1200 روپے میں پگلی اپنے گھرانے کو جشن آزادی کی خوشیاں دینے پر مصر تھی۔ کیا قناعت کا شاہکار تھی یہ یتیم بچی!
’’خالد او خالد! کدھر مر گیا۔‘‘
’’جی بیگم صاحب!‘‘
’’شام کو سراج صاحب کے کچھ مہمان آئیں گے۔ شمو سے اُوپر نیچے کی منزل اور باہر برآمدے کی صفائی کروا لو۔ دیکھو کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’لیکن بیگم صاحب! شمو تو کہہ رہی تھی کہ وہ آج جلدی جائے گی۔‘‘
’’کیا؟ بلوائو اُسے۔‘‘ بیگم سراج چنگھاڑی۔
’’شمو! کان کھول کرسن لو، آج تمہیں رات سے پہلے چھٹی نہیں ملے گی۔‘‘
اُس کی جلد چٹھی لینے کی حسرت دل ہی میں گھٹ کر دَم توڑ گئی۔ ’’جی۔ اچھا‘‘ کہہ کر وہ دوبارہ کام میں جُت گئی۔
برآمدے دھوتے ہوئے بار بار رانی، وحید اور ناصر کے منتظر چہرے اُس کی نگاہوں میں گھوم رہے تھے۔ ابّا کی وفات کے بعد تو زندگی میں مسکراہٹیں ڈھونڈنا بھی مزدور کی مشقت کے مترادف ہوگیا۔ ابّا زندہ تھا تو اُسے باہر کی دُنیا کا کچھ علم نہ تھا۔ جو مانگا، ابّا نے فوراً پورا کر دیا۔ ابّا کےنزدیک تو 14؍ اگست کا دن دو عیدوں کے ساتھ تیسری عید کے برابر تھا۔ ابّا کے بیمار سراپے میں نہ جانے اتنی توانائی کہاں سے آ جاتی کہ صبح دورکعت شکرانے کے نفل ادا کرنے کے وہ انہیں فیصل مسجد، شکرپڑیاں لے جاتا۔ پچھلے سال وہ انہیں ایٹم بم والےڈاکٹر کے گھر بھی لے کر گیا اورکہا: ’’بچّو! یہ ہمارے محسن کا گھر ہے۔ اس نے ہمیں دُنیا کے سامنے سر اُٹھا کر چلنے کا ہتھیار دیا ہے۔‘‘
’’لیکن ، ابّا، یہاں تو پولیس بیٹھی ہے۔‘‘ شمو نےفکرمندی سے سوال داغا۔
’’ہاں بیٹی! قوم کے پہرے دار، پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔‘‘
شمو ابّا کی بات تو نہ سمجھ سکی لیکن اس کی پُرنم آنکھیں اُسے کچھ کچھ سمجھا گئیں۔
ابّا نے آٹھویں تک تعلیم پائی تھی۔ بعد میں گھر کے حالات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپڈا کے محکمے میں لائن مین کی نوکری اختیار کر لی۔ دوران ملازم کھمبے سے گر کر ابّا کے بازوئوں میں جان نہ رہی تو زندگی مزید تلخ ہوگئی۔ ملازمت سے مزدوری کرنے اور مکان سے جھگی تک کی نوبت آ گئی۔ ستم بالائے ستم امّاں بھی گھر چھوڑ کر میکے جا بیٹھی۔ یوں سارا بوجھ ابّا کےکمزور کندھوں پر آ پڑا۔ بہت سے لوگوں نے ابّا کو مشورہ دیا کہ تیرہ چودہ سالہ شمو کو صفائی پر لگوا دے، لیکن ابّا کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ آخر مشقت کرتے کرتے ابّا دُنیا چھوڑ گیا۔
’’شمو اے شمو! سارا پانی باہر سڑک تک پہنچ گیا۔ لگتا ہے چھٹی نہ ملنے کے غم میں صاحب لوگوں کا چالان کرائے گی۔‘‘ رحمو چوکیدار کی آواز آئی۔
شمو فوراً حواسوں کی دُنیا میں آ گئی۔ اُسے پتا ہی نہ چلا کہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑے تپتی دُھوپ میں ماضی کی گرد پونچھتے پونچھتے وہ کیچڑ میں لت پت ہو چکی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے بار بار اپنے سراپے پر نظر ڈالی۔ ہر سال ابّا 14 اگست پر نئے کپڑے، جوتے اور چوڑیاں لے کر دیتا تھا۔ لیکن اب کیا تھا؟ ملگجے کپڑے، مرمت شدہ پرانی جوتی اور چوڑیوں سے خالی کلائیاں! اُسے یتیمی کا احساس اتنی شدت سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ لیکن دفعتاً اُس کا خیال اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرف گیا۔
اُن کی ضروریات اور خوشی پوری نہ کرنے کا غم اُسے مایوسی کےگہرے گڑھے میں دھکیل رہا تھا۔ وہ جو اُمنگ کے ساتھ آئی تھی، اب مجبوری اور بے بسی کی تپتی دوپہر میں آچکی تھی۔ لیکن ایک خیال نے جیسے اُس کی تمام اُلجھنیں رفع کر دیں۔
’’مسز سراج! کیا خوب صورت نیکلس (ہار) ہے؟ اِز اِٹ ڈائمنڈ (کیا یہ ہیروں کاہے)؟‘‘ بیگم اظہر نے قدرے تجسس سے دریافت کیا۔
بیگم سراج نے فخر سے اپنی صراحی دارگردن اور اُونچی کرتے ہوئےکہا۔ ’’سراج صاحب امریکا کے دورے سے واپسی پر میرے لیے لائے تھے۔ ان دوروں سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، یہ ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ شوہر صاحب کی محبت جوان ہونے لگی ہے۔ ہر دورے سے واپسی پر کوئی نہ کوئی چیز لے آتےہیں۔ بھئی میں نےتو سراج سے صاف کہہ دیا ہے کہ میں جلد از جلد یو کے سیٹل ہونا چاہتی ہوں۔ پاکستان کے حالات اب رہنے کےقابل نہیں رہے۔ نو ایجوکیشن، سیکورٹی رسک اور مہنگائی نے تو جینا حرام کر رکھا ہے۔ ابھی یہ جو امپورٹڈ گاڑی سراج نے منگوائی ہے، اس کا پیٹرول خرچ ہی ماہانہ بیس ہزار روپے ہے۔ لیکن کیا کریں، مجبوری ہے۔‘‘
’’ہاں مسز سراج! بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے
شمو اور باقی ملازمین مستعدی سےکام میں مصروف تھے۔ مسٹر سراج الدین کے ہاں 14اگست کے سلسلے میں رات کے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تقریباً تمام بڑی سرکاری شخصیات مدعو تھیں۔
’’مسز سراج ہنی نظر نہیں آ رہی۔‘‘
’’وہ آج سونونگم کے کنسرٹ پر گئی ہے۔‘‘
’’اچھا میرا ٹوٹو بھی وہیں گیا ہے۔‘‘ بیگم اظہر نے فخر سے جتایا۔
’’واقعی لگتا ہے کہ خدا نے سارا سوز و ساز اس سنگر کے گلے میں اُتار دیا ہے۔ کیا گاتا ہے۔ دیکھئے مسز اظہر ہماری گورنمنٹ اب یہ چاہتی ہے کہ لکیریں ختم ہوں۔ ہم صدیوں سے پڑوسی ہیں۔ ہمارا رسم و رواج ، تہذیب ، تاریخ، زبان، سب کچھ مشترک ہے۔ یہ ثقافتی طائفے اور مشترکہ فلم سازی گورنمنٹ ڈپلومسی کا حصہ ہی ہے اور مجھے فخر ہےکہ یہ سب ہمارے دور میں ہوا۔
شمو بڑی اضطرابی نگاہوں سے بار بار اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں جلی حروف میں لکھا تھا۔ ’’تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔ جشن آزادی مبارک۔‘‘ مقررین باری باری آتے اور جشن آزادی اورہماری ذمہ داریاں، عنوان سے لمبی لمبی تقریریں جھاڑ کر کے جذبۂ حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ پیش کر رہے تھے۔ آخر بیگم سراج اپنی ساڑھی سنبھالتے مائیک پکڑ کر گویا ہوئیں۔
’’آزادی کی یہ شام آپ کو مبارک ہو۔ آپ سب کو بلانے کا مقصد اپنے وطن کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ آج کا دن ہمارے لیے قیمتی ہے۔ اس دن کی خوشی میں غریب بھائیوں کو بھی ضروریاد رکھیے گا۔ یہ دن ہمارے اندر عمل کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے وطن کا نام بلند کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں۔ اپنا وقت، آرام، پیسہ، سب کچھ مملکت پاکستان کی سربلندی کے لئے وقف کر دیں کہ یہی ہماری پناہ گاہ ہے۔