فرحی نعیم
گھر کے لان میں مخصوص شور اور ہنسی مذاق کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ بچوں کا شور، تو لڑکوں کے قہقہے ، لڑکیوں کی دھیمی دھیمی آوازیں بھی اسی میں مدغم تھیں۔ فضا میں کھانوں کی خوشبوئیں تو کوئلے دھکانے کی کوشش بھی جاری تھی ۔’’ارے بھئی بچوں! آخر تمھارا کام کب شروع ہوگا؟‘‘ ماموں جان ، بھانجے سے پوچھ رہے تھے جو سیخوں پر بوٹیاں لگا رہا تھا۔ ’’ابھی تو آغاز ہوا ہے ، دو گھنٹے تو لگے گے‘‘۔
دوسرا بولا جو کوئلوں پر پنکھا جھل کر کافی دیر سے انہیں جلانے کی کوشش میں مصروف تھا ۔’’اندر سب انتظار کر رہے ہیں ۔‘‘ کہ بار بی کیو کب شروع ہوگا، ماموں جان پھر گویا ہوئے ۔’’ ارے ماموں جان! یہ کوئلے ہیں، ہمارے رشتے دار تھوڑی جو اتنے جلدی جل جائیں گے ۔‘‘دوسری طرف سے اب طنزیہ انداز میں جواب آیا تھا۔
اس فقرے پر ارد گرد بیٹھے سب ہی بے ساختہ ہنس دیے اور ماموں جان تنبیہی نظروں سے سب کو دیکھ کر اندر چلے گئے ۔صاف لگ رہا تھا کہ انہیں یہ بات پسند نہیں آئی۔ پسند تو یہ جملہ ہمیں بھی نہیں آیا تھا لیکن یہ ایک چشم کشا حقیقت بھی ہے۔ آج رشتے داریاں اور تعلق داریوں میں کئی سو میل کی خلیج حائل ہو چکی ہے۔ جو وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ گئے دنوں میں جب وقت کی کمی نہ تھی ، یہ عزیز داریاں بھی دل سے قریب اور عزیز تھیں۔ وقت وخلوص، دونوں کی افراط تھی۔ دکھ سکھ میں شرکت کو فرض اولین سمجھا جاتا۔
دکھ میں دکھی اور خوشی میں مسرت کے اظہار کے لیے بنفس نفیس گھر آکر شرکت کی جاتی۔ تکلیف سن کر طویل مسافت طے کی جاتی ، ذاتی سواری نہ ہونے پر بسوں اور رکشوں میں سوار ہو کر ، موسم کی سختیاں جھیلتے ہوئے رشتے نبھائے جاتے۔ لیکن اب نئے زمانے کے نئے اطوار ہیں، اول تو رشتے داریاں ترجیحات میں ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی چھوڑ تی جارہی ہیں۔ تعلقات، بناوٹی اور مصنوعی بن رہے ہیں جن کو نبھانا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ زندگی اب جب کہ حد درجے مصروف ہو چکی ہے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ، گھر والوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نایاب ہو چکا ہے۔
بات میل جول سے کم ہو کر آہستہ آہستہ فون پر گئی ، پھر فون سے یہ سفر طے کرتی برقی پیغام پر آکر ٹھہر گئی ، جس سے آج سب مطمئن ہوگئے ہیں۔ آپ نے منٹ بھر کا پیغام ریکارڈ کر کے مطلوبہ شخص کو بھیجا اور بری الذمہ ہوگئے۔ شادی بیاہ، سالگرہ، عید، تہوار، رنج و غم، فوتگی، سب کو ایک ہی طرح سے ہم گھر بیٹھے نبھا رہے ہیں اور پورے اطمینان کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی سہولت کے ساتھ ہوگئی۔ حالاں کہ روبرو ملنے اور لہروں کے ذریعے رابطہ کرنے میں بہت فرق ہے۔
جو دل کی باتیں آمنے سامنے بیٹھ کر جذبات ،احساسات و تاثرات کے ذریعے ہوتی ہیں وہ تاروں کے ذریعے نہیں ہوتی۔ اگرچہ فون پر ملاقات کو کبھی آدھی ملاقات کا نام بھی دیا جاتا تھا، اور یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے، جس کی بہت ساری وجوہات ہیں، سخت و تلخ حالات آج رشتے داریوں کو استوار رکھنے میں بڑی رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ اگرچہ یہ پہلے بھی تھے ، لیکن دلوں کی دراڑوں نے اسے مزید پختہ کردیا۔ اب نہ ملنے کے کئی عوامل ہیں ، فاصلے، ٹرانسپورٹ کے مسائل، ہوشربا کرائے، حد درجے مصروفیت۔ یہ فاصلے اتنی دوریوں میں بدل گئے کہ اب یہ دلوں تک آن پہنچی ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس مشینی دور میں جس طرح احساسات اور رویوں کو مصنوعی انداز میں ڈھال دیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ درد ،لا دوا بن گیا ہے۔
اگر یہ فاصلے، دوریوں کی حد تک ہی رہتے تو بھی، اتنے پریشان کن نہ ہوتے، اصل مسئلہ دلوں میں تنگی سے شروع ہوا، تنگ دلی اور تنگ ذہنیت نے رہے سہے تعلقات میں بھی کدورتوں کا اضافہ کیا اور پوری شدت سے کیا ، قریبی رشتوں میں حسد اور جلن نے پہلے ناراضی ، غم، غصے کی بنیاد رکھی ، پھر اس پر کچی، پکی، دیواریں کھڑی کردیں، پھر عمارت کی تعمیر ہونی شروع ہوئی، جس پر آس پاس کے لوگوں نے کم و بیش، خوب حصہ ڈالنا شروع کیا، جس کا حصہ زیادہ ہوتا اس کے حصے کی دیوار میں دوری کے پتھر اور جلن کی سیمنٹ کی مقدار بھی اتنی ہی زائد ہوتی۔
ہر کوئی اپنی آزادی رائے کا اظہار دل کھول کر اور آنکھ ، کان بند کر کے کرتے ہیں ۔ ویسے بھی اب خاندان سمٹ گئے ہیں، مختصر فیملیز نے رشتے بھی کھو دیے ہیں ، ماضی کی طرح تایا، چچا ، پھوپی ، خالہ ، ماموں اب بڑے محدود ہو چکے ہیں ۔ یہ پیار بھرے رشتے، اور ان کے ناز و انداز اب کم کم ہی دکھائے دیتے ہیں ۔ ان کے درمیان بھی بدگمانی ، حسد، نفرت ،نے اپنا رنگ جما لیا ، آپس کی بد مزگی ، بد مزاجی اور عدم برداشت کی موجودگی نے رہے سہے رشتوں میں بھی کانچ کے برتنوں کی طرح بال ڈال دیے، جس کو بعد میں صرف ایک معمولی سی چوٹ کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ اور پھر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، کبھی نہ جڑنے کے لیے یا چٹخنے کی صورت میں جڑ بھی جائیں، انھیں درگزر کا سلوشن لگا بھی دیا جائے تو نہ وہ اپنی کھوئی حیثیت دوبارہ حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی مقام۔ آج یہ چلن عام ہو گیا ہے کہ دور و قریب کے رشتے دار وں کی خوشی، مسرت، کامیابی ، دوسرے رشتے داروں کو ہضم نہیں ہو پاتی۔
دوسروں کا آگے بڑھنا، کچھ حاصل کر لینا برداشت نہیں ہوتا۔ جلن اور حسد کی یہ چنگاری، شعلہ بن کر خود کو بھی جلاتی ہےاور دوسرے بھی اس سے غیر محفوظ رہتے ہیں۔ رشتےکی پائیداری اور بقا اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب دلوں میں گنجائش رکھی جائے۔ ہماری تعلیمات ہمیں کیا سکھاتی ہیں اور ہم ان تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر کے، اس کے برعکس اپنا رویہ پیش کرتے ہیں۔ اور کبھی تو اس رویے میں حد سے تجاوز کر نے میں بھی نہیں ہچکچاتے، ایسے ایسے ردعمل ظاہر ہوتے ہیں کہ سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں۔
دین سے دوری، رشتوں کے کھنچاؤ نے ہمیں حقیقی مسرت سے دور کردیا ہے، ہم دوسروں کے جذبے حسدو جلن کی وجہ سے اپنی بہت سی خوشیاں چوری چھپے منا رہے ہوتے ہیں۔ اظہار کرتے ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ کہیں نقصان نہ ہو جائے یا خوشیاں ہم سے چھن نہ جائے ، ہمارا آنا جانا کہیں رُک نہ جائےیا بیماری ، پریشانی ہم پر حملہ نہ کردے ۔ کچھہ لوگوں کے بے رحمانہ سلوک نے سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گیہوں کے ساتھ گھن پیسنے کی مثال کچھ یہاں بھی صادق آتی ہے۔
برے رویوں نے اچھے روایوں کو نگل لیا ۔ چمکتی ریتوں کو بجھا دیا اور مہکتی رسوم کو مرجھا دیا۔ اب اپنے، اپنے نہیں رہے، پرائے اور غیر ہو چکے، جن سے اندیشہ زوال کا خیال، خوفزدہ کر دیتا ہے۔ چھوٹی بڑی خوشی کی خبر اس لیے نہیں بانٹیں جاتیں کہ کہیں کسی کا ناروا سلوک اور نگاہ اسے نہ لے ڈوبے۔یہ خوف ہمیں اپنے دائرے میں محدود کر رہا ہے ۔ ہم ہر ایک کو ایک ہی لکڑی سے ہانک رہے ہیں۔ دوسرے کی خوشی میں خوشی کا اظہار اور دکھ میں مداوا، دلوں کو فتح کرتا ہے۔
اپنے اوپر سے اس منفی رویےکے نقاب کو اتاریں ، پوزیٹو رہیں۔ اندھیرے میں جگنو کا استعارہ کوئی معمولی اور آسان نہیں ، یہ جلن اور حسد ، دوسروں سے پہلے آپ کو متاثر کرے گی۔ آگ اور لکڑی کی مثال ہمارے پاس ہے۔ ہم اپنے اوپر سے چسپاں یہ لیبل اتارنے کی کوشش کریں، تقسیم کرنے والے بنیں، دعا کیجئے، دعا میں بڑی طاقت ہے ، نیکی کریں گے، تو ماحول بھی سازگار بن جائے گا۔