• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ عمران

شادی کے شروع کے ماہ تھے۔ کسی بات پر میاں ناراض ہو گئے۔ کھانا سامنے رکھتی نہ کھاتے۔ میں بھی نہ کھاتی کہ جب شوہر بھوکا ہے میں کیسے کھا سکتی ہوں۔ دو دن گذر گئے کمزوری سے نڈھال ہو رہی تھی۔ کسی کام سے چھت پر گئی، باہر کی جانب دیکھا تو میاں جی ایک ٹھیلے والے کے پاس بیٹھے کڑی چاول کھا رہےتھے۔فورا نیچے آئی کھانا پلیٹ میں ڈال لیا اور پیٹ بھر کر کھایا۔ وہ دن اور آج کا دن پھر ناراضگی چاہے کیسی ہی ہو کھانا نہ چھوڑا۔یہ واقعہ بتاتے ہوئے صوفیہ ہنس رہی تھیں۔

میں نے پوچھا میاں تو ناراض تھے آپ کیا سوچ کر نہیں کھا رہی تھیں۔ کہنے لگیں کہ جب میاں نہیں کھا رہے تھے تو میں کیسے کھاتی۔ ان سے پہلی ملاقات اس دن ہوئی جب وہ رشتہ لینے آئیں۔ لڑکی کی بڑی بہن ہونے کے ناتے میرا سوال بھی معاشرے کے عام لوگوں جیسا ہی تھا۔ لڑکا کیا کرتا ہے ؟ تنخواہ کتنی ہے ؟ان کے جواب نے لاجواب کر دیا۔ کہنے لگیں بیٹا ڈی ایچ اے میں ہے ،مگر یہ رزق کی گارنٹی میں نہیں دے سکتی، کیوںکہ اس کا ذمہ تو اللہ نے لیا ہے۔ ہم جیسے انسانوں کی کیا اوقات کہ وہ کسی کو کھلا پلا سکیں۔

وہی ہے جو کائنات میں کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ ہر نیا آنے والا گھر میں اپنا نصیب ساتھ لاتا ہے۔ دوسرے دن ان کے گھر گئے۔ مانشاء اللہ اچھا صاف ستھرا بڑا سا گھر تھا۔ لیکن سامان ندارد ،خود ہی کہنے لگیں جس نے گھر دیا ہے، اس کی رضا ہوئی تو بھرے گا بھی اولاد سے، برکت سے، رحمت سے، چھ بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی گزاری ہے۔

اللہ نے دل میں وسعت دے رکھی ہے۔ رشتہ داریاں، تعلق داریاں نبھانے کا سامان بھی ہوتا رہا۔ کبھی مہمان زیادہ آ جاتے تو سونے کی جگہ نہیں بچتی تھی۔ کہیں بھی سر ٹکا کر رات سکون سے گزر جاتی۔ میاں سیزن کے حساب سے ٹھیلہ لگاتے ان کے ساتھ ہاتھ بٹایا کرتی۔ دین جتنا جانتی تھی۔ بچوں میں منتقلی کی کوشش کی۔وہ بغیر ہچکچاہٹ زندگی کے اتار چڑھاؤ بتا رہی تھیں۔

بہن شادی کے بعد گھر آئیں تو بہت خوش تھی۔ سسرال میں اپنائیت ،عزت اور محبت تھی۔ اس کے سوا عورت کو چاہیے بھی کیا ہوتا ہے۔ سب سے خاص بات یہ لگی کہ الگ پورشن کچن کی سیٹنگ پہلے سے تھی۔ لیکن کھانا سب کو ایک ساتھ دسترخوان پر کھانا ہوتا۔نماز سب ہی مرد باجماعت پڑھتے۔

نماز کے لئے ساس سب کو خود اٹھاتیں۔ بہن پردہ کرتی تھی اس کا پہلے دن سے ہی خیال رکھا گیا۔وہ آنا جانا گھلنا ملنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ انھوں نے بہت محبت سے رشتہ داریاں نبھانا سکھایا۔ تہجد گزار اور صبح صبح کام کرنے والی فجر کی برکتیں سمیٹنے والی خاتون ہیں۔

خلوص کا اظہار کرنا، تحائف دینا انھوں نے ان سے سیکھا کہ وہ گھر کے کام کاج کے بعد سلائی کرتیں۔ بچوں کی فراکیں اور سوٹ سی دیتیں۔ میں نے بہن سے پوچھا اتنے کپڑوں کا کیا کرتی ہیں۔ مسکراکر کہنے لگیں ماشااللہ! نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں ہیں ان کے لیے سیتی ہیں۔ خاندان میں بھی ہرآنے والےبچے کو بڑے اہتما م اور عاجزی سے دیتی ہیں۔

جب میرا بیٹا پیدا ہوا تو اپنے ہاتھ سے سلے سوٹ ،رومال اور ٹوپیاں لائیں۔ ہماری عادت رہی ہےکہ بہنوں کے پاس ان کے کمروں میں بیٹھنے کے بجائے ان کی ساس کے گرد بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ آج بھی تعلقات پہلے روز کی طرح قائم ہیں۔ کہیں کوئی بناوٹ دکھاوا نہیں۔ خاندان سے باہر بہن کی شادی کرتے ہم سب ہی خدشات کا شکار تھے۔ لیکن یہ ہمارے لئے ایک اچھا تجربہ تھا۔

انہوں نے بیٹوں کو محنت اور مشقت کا عادی بچپن سے بنایا۔ صفائی ستھرائی، سلیقہ سکھایا۔ احساس کی لازوال دولت تربیت کے ذریعے دی۔ اپنی بہو کو سلائی خود سکھائی۔ ان کے گھر میں بےانتہا برکت دیکھی۔ بہوئیں اس کا سبب اپنی ساس سسر کو قرار دیتیں، ذمہ داریوں میں گھر کو ترجیح دینا، آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا، وغیرہ ان کی تربیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ رشتوں کا احساس، دل کی کشادگی سبھی میں ان کی تربیت نظر آ تی ہے۔

گزشتہ تین سالوں میں جب میرے والد اور اکلوتے بھائی یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دے گئے، بغیر کہے سب کاموں کو سنبھال لیا،بیٹوں سے بڑھ کر خیال اس کا کریڈٹ بھی انہیں کو جاتا ہے جو کہا کرتیں تمہارے سسر کا گھر تمہارا دوسرا گھر ہے، اس کی خبر گیری لازم ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بہنیں جب بیاہ کر گئیں تو انہیں گھر گرہستی نہیں آتی تھی ،کیوں کہ تعلیم کے فوراً بعد شادیاں ہوگئیں۔

وہ گھر کے کچھ کام میں قدرے بہتر لیکن بہت سے معاملات میں نابلد تھیں۔ انھیں ساس نے غیر محسوس انداز میں سب سکھایا۔ برتن دھوتیں تو ساس صاحبہ بالکل روک ٹوک نہ کرتیں۔ ان کے کچن سے جانے کے بعد خاموشی سے دوبارہ دھو دیتیں۔

گھر میں مہمانوں کی آمد پر ہمیشہ انھیں خوش ہوتے دیکھا۔ دوسروں کی مدد بہت عاجزی سے کرتیں۔ میں نے ان سے بذات خود بہت کچھ سیکھا۔ وہ جو کوئی یونیورسٹی نہیں سکھا سکتی، گھر کی ساری برکتیں ان بزرگوں کے دم سے ہیں۔ اللہ ان کا سایہ سلامت رکھے۔ (آمین)