عرفان جاوید اُردو دنیا کے ایک موقر، ممتاز اور محبوب قلم کار ہیں۔ ان کا تخلیقی، تحریری سفر افسانوں سے شروع ہوا۔ بعد ازاں، شخصی خاکوں پرمشتمل خیال آفریں، فکر افروز تحریریں ’’دروازے‘‘ ، ’’سُرخاب‘‘ کے عنوانات سے اور تحقیقی و دانش افروز مضامین ’’عجائب خانہ‘‘ کے زیرِ عنوان شرمندۂ اشاعت ہوئے اور ان مضامین نے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سلسلے وار اشاعت کے بعد کُتب کی شکل میں بھی عوام و خواص میں بےحد مقبولیت حاصل کی۔
اب عرفان جاوید کی تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کا حامل یہ تازہ سلسلہ ’’آدمی‘‘ قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔ چند معروف، کم معروف، غیر معروف مگر نادر ونایاب شخصیات کے اِن خاکوں میں فاضل مصنّف کے مشاہدے کی توانائی اور بیان کی دل کشی بہ درجۂ کمال نظر آتی ہے۔ یہ کون، کہاں، کیوں اور کیسے، کیسے لوگ تھے۔ اس دل چسپ، زندگی آمیز سلسلے میں اِن اَن مول، ’’بے پناہ‘‘ صاحبان سے ملاقات کیجیے۔
پانچواں خاکہ، ’’مطیع الرحمان‘‘ ایک دست شناس و قصّہ طراز کا ہے کہ جس نے ایک زندگی میں کئی زندگیاں جینے کی خواہش کی تھی۔
سلسلے سے متعلق اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ آپ اِن ای میل آئی ڈیز پر اپنی ہر طرح کی رائے یا ذہن میں آنے والا کوئی بھی سوال شیئر کر سکتے ہیں۔
sundaymagazine@janggroup.com.pk
irfanjaved1001@gmail.com
(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)
مطیع الرحمان نے میری دونوں ہتھیلیوں میں غور سےجھانکا، سَر اُٹھایا اور بولا ’’یہ آپ کا چَھٹا جنم ہے۔‘‘ مَیں دَم بخود رہ گیا۔ کچھ اِسی طرح کی بات مجھے نہر کنارے بیٹھنے والی ایک معروف منجّمہ اور غیب دانی کی دعوےدار خاتون نےبھی قدرے جھجکتےہوئےکہی تھی۔ اُس شام ہم لاہور چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب گوگو ریستوران اور الائیڈ بینک کی بغل میں واقع مطیع کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے وسط میں ہونے والی مطیع سے یہ میری ابتدائی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات تھی۔ فربہی مائل بدن، چہرے پر متانت اوردانش ورانہ سنجیدگی، سرپرچھدرے بال، بات کرتے ہوئے مخاطب کا ہاتھ پکڑنے کی عادت، گال اور بازو یوں پھولے ہوئے جیسے ابھی بےبی فیٹ باقی ہو۔
اعلیٰ ادب کا شوق، عُمدہ کپڑوں کا ذوق، زیادہ تر سفاری سُوٹ میں، سلجھے اطوار اور زندہ دلی سے معمور، جَمی جمائی انشورنس کی نوکری چھوڑ کر دست شناسی کا رُخ کرنےوالا مطیع، مستنصرحسین تارڑ صاحب کےبچپن کا دوست بھی تھا۔ انھوں نے اپنی کئی تحریروں اور ایک آدھ سفر نامے میں اِس کا تذکرہ بھی کیا ہے، بلکہ ہتھیلیوں میں جھانکنےکے ذکر پر اُس کی جھانکنے کی عادت کےحوالے سے تارڑ صاحب نے اپنے ایک سفرنامے میں، ایک فضائی سفر کا بہت شگفتہ انداز میں تذکرہ بھی کیا ہے۔ کچھ چلبلے، کچھ مَن چلے، سخی مزاج، قصّہ گو، فسانہ طراز، خواب دیکھنے، دکھانے والے، قطرے میں قُلزم تصوّرکرنے، بلند بانگ قہقہے لگانے، اپنوں میں ہاتھ پہ ہاتھ مارکر ہنسنے ہنسانے، اجنبیوں میں بیر بہوٹی کی طرح سمِٹ جانے اور سنجیدہ چہرہ بنائےدل میں مُسکرانے والے، ٹھیٹھ دیسی گپ باز، مطیع الرحمان کو مَیں آغاز میں ایک دَست شناس، بعد ازاں ایک غم گسار دوست کے طور پر جانتا تھا۔
طالب علمی کے دَور میں میرے تین نمایاں شوق تھے، مجنونانہ مطالعہ، دل چسپ کرداروں اور ماورائی علوم سے وابستہ لوگوں سے ملاقاتیں اور ہفتوں مہینوں پر محیط سیاحت و جہاں گردی۔ انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور کا طالب علم تھا، جہاں طلبہ سیاست عروج پر تھی۔ سَو، معاملات باہمی تصادم اور خوں ریزی تک چلے جاتے، یونی ورسٹی کئی کئی ماہ کے لیے بند ہوجاتی۔ انتظامیہ پرطلبہ اس حد تک حاوی تھے کہ سردیوں کی آمد پر مختلف شہروں اور قصبات سے آنے والے طلبہ اعلان کرتے کہ وہ گرم ملبوسات لانے کے لیے اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں اورخُود ہی چند ہفتوں کی تعطیلات کا اعلان کر کے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہوجاتے۔
عموماً والدین اولاد کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا چاہتے،تو مُلک بھر میں واقع گنتی کے انجینئرنگ اورمیڈیکل کالجز اور یونی ورسٹیز میں داخلے کے لیے کڑا مقابلہ ہوتا۔ چوٹی کے طلبہ ہی داخلہ لے پاتےاور داخل ہونے والے طالب علم عموماً محنتی اور ذہین ہوتے۔ مگر یونی ورسٹیز پر طلبہ تنظیموں کے راج کےسبب تعلیم میں تعطّل عام تھا۔ چار برس کا کورس سات برس تک طُول پکڑ جاتا۔ سَو، میسّر فارغ وقت کے باعث بہت سے طالب علم اپنے مَن چاہے مشاغل میں طبع آزمائی کرتے۔ جنید جمشید، نجم شیراز، جوّاد احمد اور دیگر کئی گلوکار و اداکار اُس دَور میں انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم رہے۔ تب کئی طلبہ سیاست دانوں اور قبضہ گیروں کے آلۂ کار بنے، جرائم میں ملوث ہوئے اور بعدازاں چند ایک بیرونِ مُلک چلے گئے اور زیادہ تر بےچارگی اور گُم نامی کے گڑھوں میں زندہ دفن ہوگئے۔
وہ عجب دَور تھا۔ ضیاءالحق کو گزرے چند برس ہوچُکےتھے۔پاکستان آزاد معیشت یعنی لبرل اکانومی کے دَور میں داخل ہورہا تھا۔ بھارت چند برس بعد داخل ہوا۔ ایک نیاخوش حال طبقہ وجود میں آرہا تھا، سیاست پر جاگیردارانہ تسلّط ختم ہورہا تھا اور کاروباری طبقےسےبھی عوامی نمایندے سیاسی اُفق پر طلوع ہورہے تھے، جلد ہی چھوٹے کاروباری اور متوسّط تاجر برادری کے نمایندوں نے خاندانی اشرافیہ کی جگہ لے لینی تھی۔ لاہور سے مَری تک اور کراچی سے کوئٹہ تک آباد پنج ستارہ ہوٹل اور سیاحتی مقامات، جو کبھی اونچی ناک والے رؤسا کی آماج گاہ تھے، اب عام دکان دار اور تاجر طبقے کی بھی دست رس میں تھے۔ ایسے میں لوگوں کی اُمید بڑھ رہی تھی اور یہی پُراُمیدی بےیقینی کو جگہ دے رہی تھی۔
درگاہوں، عاملوں، نجومیوں اور دست شناسوں کی جانب رجحان بڑھ رہا تھا۔ ان اُمیدگاہوں میں سستا بیوپار ہوتا تھا، کچھ دعاؤں، چند ٹکوں کے عوض آسرے مِل جاتے تھے۔ زندگی ہمّت پاتی، دوگام اور چلنے کا حوصلہ پکڑتی تھی۔ مطیع الرحمان بھی اُن لوگوں میں سے ایک تھا، جو معمولی نقدی کے عوض اُمید اور جینے کا حوصلہ دیتے تھے۔ وہ صاحبِ علم تھا۔ علم دست شناسی کے برحقیقت ہونے پر تو دورائے ہوسکتی ہیں، مگر مطیع کی اس علم پرمہارت ماورائے شک ہے۔ اُس نے 2001ء میں دست شناسی پر ایک وقیع کتاب ’’سب لکیریں ہاتھ کی‘‘ تصنیف کی تھی، جس میں 850 سے زائد ہاتھوں کےخاکے اور ان چھےکلائنٹس کی کہانیاں شامل تھیں، جن کے ہاتھ یا وہ خود اُسے منفرد اور یادگار لگے تھے۔
اُنھی کہانیوں میں ایک کہانی میری اُس سے ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں سے متعلق بھی تھی، جسے اُس نے ’’پچھلا جنم‘‘ کےعنوان سےرقم کیا تھا۔ ’’ہوا یوں کہ ایک دن ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ہاتھ دکھانے آیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ انجینئرنگ کا طالب علم ہے۔ وہ ذرا تیز تیز سے بولتا تھا، میری بات کم سُنتا، اپنی زیادہ سُناتا رہا ۔ اُس کے بولنے کا انداز اتنا اچھا تھا کہ مَیں نے اُسے نہیں ٹوکا۔ اُس کے ہاتھوں کی ساخت بہت خُوب صُورت تھی، جو کسی فن میں اُس کی رسائی کی غمّازی کرتی تھی۔ گفت گُو سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی عُمر سے زیادہ پختہ ذہن رکھتا ہے اور اُس کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔
وہ کہیں دَم لیتا تو مَیں اُسے ایک آدھ بات مزید بتادیتا اور وہ پھر اُس پر تبصرہ شروع کردیتا، لیکن پھر اچانک مَیں نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھ میں بھی پچھلے جنم کی یاد والی علامت موجود ہے۔ میرے چہرے کی سنجیدگی سے یہ بھانپ کر کہ کوئی خاص بات ہے۔ وہ ذرا خاموش ہوگیا اور پھر مشتاق نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ مَیں نے اُسے زیادہ ضبط کرنے کی زحمت نہ دی اور جلد ہی اُسے اُس علامت کے بارے میں بتا دیا۔ بس پھر کیا تھا، گویا دبستان کُھل گیا۔‘‘
مطیع کے تذکرے سے لاہور چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن پر اُس کے ساتھ گزارے لمحات یاد آتے ہیں۔ کئی دل چسپ و رنگین کردار نظروں کے سامنے سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو، سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف،1997ء کی نواز حکومت میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، چال باز عامل، چکر باز پیر، سَچّے اور سُچّے فقیر، ایک مہربان استاد، جاگتے میں خواب دیکھنے والے عزیز، اَن گنت لمحات اور بے شمار باتیں نظروں کے سامنے یوں گزر جاتی ہیں، جس طرح اسٹیشن پر منتظر مسافر کے سامنے سے تیز رو ٹرین کی بوگیاں اور ان بوگیوں کی کھڑکیوں سے جھانکتے اُداس عورتوں، بے قرار مَردوں، تھکے بوڑھوں اور کِھلکھلاتے بچّوں کے چہرے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ٹرین گزر جاتی ہے اور مسافر اسٹیشن پربیٹھا رہ جاتا ہے، تنہا۔
لاہور چھاؤنی میں اُس کا دفتر عین اُس جگہ واقع تھا، جہاں شیر پاؤ پُل اُترتا ہے۔ ایک شام وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے میری نظر اُس کے دفتر کے بورڈ پر پڑی۔ اُجلے حروف میں اُس کا تعارف ’’مایۂ ناز پامسٹ، مسٹر خان‘‘ لکھا ہوا تھا۔ مَیں اُس کے دفتر میں پہلی مرتبہ داخل ہوا تو اتفاقاً وہاں کوئی اور کلائنٹ موجود نہ تھا۔ مطیع ایک محدّب عدسہ ہاتھ میں تھامے لیمپ کی روشنی میں کسی کتاب پر جُھکاہواتھا۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر مجھے دیکھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ مَیں نے دخل درمعقولات پر معذرت کی تو اُس نے بتایا کہ وہ دفتر بند کرکے اُٹھنے ہی والا تھا۔
مَیں نے ہاتھ دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اُس نے مجھے اپنی دونوں ہتھیلیاں لیمپ کی روشنی تلے کرنے کو کہا اور محدّب عدسہ تھام کر ہاتھ کی لکیروں پر غور کرنے لگا۔ نامعلوم کی جُست جو مجھے دست شناسی کے علم تک لے آئی تھی۔ مَیں نے اس موضوع پر چند کتابیں پڑھ رکھی تھیں اور سُن رکھا تھا کہ دنیا کی سیاحت کے دوران دست شناسی اجنبی لوگوں(بالعموم مردوں، بالخصوص خواتین) سے واقفیت پیدا کرنے کا کارآمد نسخہ ہے۔
طبیعت میں تجسّس کا مادہ تھا اور سَر پر جہاں گردی کا سودا، سو، اِس علم کی شدبد تھی۔ چند احباب اور شناسا ہاتھ دکھانے گھر آچُکے تھے، جن میں میرے گھر کے قریب فورٹریس اسٹیڈیم میں واقع پوٹ پوری اور دیگر دکانوں کے مالکان اور سیلزمین وغیرہ بھی شامل تھے۔ گو بہت سے لوگوں کو اس علم پر سنجیدہ اورمدلّل تحفّظات رہے ہیں۔ لیکن مَیں خوب جانتا تھا کہ انسانی جسم کا کوئی عضو بےکار نہیں، اِن لکیروں کا کوئی مقصد ہے۔
اگرچہ بیش تر ماہرین اِنھیں پیدائش سے لے کربعد کی عُمر تک قدرتی طور پر اُبھر آنے والی ایسی ہی لکیریں سمجھتے ہیں، جیسے ماتھے کی شکنیں یا جسم کے مختلف حصّوں، جیسا کہ گُھٹنوں کے اندر اُبھرنے مِٹنے والی لکیریں یا ایسی لکیریں، جو کسی شے کو مضبوطی سے تھامنے کے عمل میں معاون ہوتی ہیں۔ البتہ ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے اِن میں پیٹرن تلاش کرلیے تھے۔ مَیں پامسٹری کو غیب دانی کا علم نہ سمجھتا تھا، مگر یہ گمان ضرور ہوتا تھا کہ مخصوص پیٹرن یا لکیروں کے امتزاج کے مالک لوگوں کے مزاج، عادات اور زندگی کے پیٹرن معلوم ہو سکتے ہیں۔
گویا یہ لکیریں ایسے اشعار تھیں، جو شارح کی منتظر تھیں۔ قدیم ہندو بھگت والمیکی کی پامسٹری پر لکھے567 شعری بندوں پر مشتمل تحریر چین، تبّت، مصر، فارس سے ہوتی ہوئی جب یورپ تک پہنچی تو یہ مختلف مراحل سے گزرتی باقاعدہ ایک علم کی صُورت اختیار کرچُکی تھی، جسے ولیم جان وارنر، المعروف کیرو نے برطانیہ میں مشہور کردیا تھا۔ کیرو ہندوستان سے جب یہ علم سیکھ کرلندن آیا تو اس کے علم کے معترفین میں مارک ٹوئن اور آسکروائلڈ جیسے ثقہ ادیب اور چیمبرلین، پرنس آف ویلزجیسے سیاست دان شامل ہوگئے۔ مارک ٹوئن نے تو کیرو کے بارے میں یہاں تک لکھا تھا ’’اس نے میرے سامنے میرا کردار حیرت انگیز درستی سے کھول کر رکھ دیا۔‘‘ کیرو کے بعد یہ علم کئی مدارج طے کرچُکا ہے۔
ہاتھ کی لکیروں کے حوالے سے گفت گو شروع ہوئی تو مطیع کی آنکھوں میں دل چسپی پیدا ہوگئی۔ ہاتھ دِکھا کر مَیں نے معاوضہ ادا کیا اور اُٹھنے کو تھاکہ مطیع نے میری مصروفیات کا پوچھا۔ مَیں نے فراغت کا بتایا تو اُس نے پیش کش کی کہ وہ اپنا دفتر بند کرنے کو ہے، کیوں نہ کہیں چل کر چائے پی جائے۔ مَیں لڑکپن سے فارغ اوقات میں لاہور چھاؤنی کے نسبتاً کم مصروف ریلوے اسٹیشن کی کسی بینچ پرتنہا بیٹھا پہروں آتی جاتی، رُکتی ٹرینوں، اُن پر سوار ہوتے، اُترتے مسافروں اور دوبارہ ویران ہوجانے والے اسٹیشن کو تکا کرتا تھا۔ مَیں مطیع کو قریب میں واقع اُس اسٹیشن پر لےگیا، ہم نے چائے پی۔
اُسے وہ جگہ بہت پسند آئی تھی۔ میرے بچپن میں میری چھوٹی پھوپھی ساہی وال سے اپنے میکے لاہور کے لیے کینٹ اسٹیشن اُترا کرتی تھیں، وہاں چند ٹرینیں ہی رُکا کرتی تھیں، زیادہ تر مین اسٹیشن کا رُخ کرتی تھیں، مَیں اپنے چچا کے ساتھ اُنھیں لینے جاتا تھا۔ پس، اُس اسٹیشن سے اُنسیت کا رشتہ قائم ہو چُکا تھا۔ بعد میں مطیع کے پامسٹری کے اوقات کے بعد ہم کئی مرتبہ اُس اسٹیشن کے بینچز پر بیٹھے شام کو رات میں بدلتے دیکھتے، فضا میں پرندوں، کوؤں کے شور کو بڑھتے، آتی جاتی ٹرینوں کی سیٹیوں کی آوازوں، پہیوں کی دھمک، گڑگڑاہٹ، دوڑتے بھاگتے چند ایک ہی قُلیوں کے قدموں کی چاپ سُنتے ہوئے باتیں کیا کرتے تھے۔ وہیں مطیع نے مجھے اپنی زندگی کے کئی واقعات سُنائے تھے۔ دن بھر قہقہے لگانے والا، مبالغہ آرائی کا عادی اور شائق، یار باش مطیع شام کو خاموش ہوجایا کرتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اُس کا اپنے گھر جانے کو جی نہیں کرتا۔
مطیع الرحمان کا دست شناسی کا علم کلائنٹس کےذریعے اُس کے اپنے کئی معروف لوگوں سے تعلق کا باعث بنا۔ اُس نے ایک مرتبہ ایک شخص کا ہاتھ دیکھا اور اُسے لاحق بیماریوں کا نہ صرف بتایا بلکہ علاج بھی تجویز کیا۔ وہ شخص حیران رہ گیا۔ اُس نے مطیع کی اس خوبی کا تذکرہ معروف صحافی، مدیر اور ادیب علی سفیان آفاقی سے کیا۔ (جاری ہے)