ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک، لاہور
برِصغیر میں اُردو شاعری کے باقاعدہ آغاز میں سر اٹھا نے اور رُبع صدی تک عوام و خواص حلقوں میں دھوم مچائے رکھنے والی ایہام گوئی کی تحریک کے نمایاں شاعر شاکر ناجی نے دیکھیے شہر حیدر آباد(دکن) کو کس حیلے سے یاد کیا تھا:
محبت میں علی کی دیکھ ناجیؔ
ہوا ہے دل مِرا حیدر آباد
لیکن ہماری اس شہر سے محبت ایک مرزا، یعنی مرزا فرحت اللہ بیگ سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اس دیار کو جامعہ عثمانیہ کی روشنی کے ساتھ آنکھوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے دھیان میں ہے کہ ہمارے اُردو زبان و ادب کی ابتدائی کونپلیں اسی سر زمین سے پھوٹی تھیں۔
اُردو ادب کے شناور یہاں کے بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی ادوار کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟ اُردو غزل کے باوا آدم قلی قطب شاہ کا پچاس ہزار اشعار کا حامل دیوان اور ’’سب رس‘‘ کے ذریعے ناول، افسانے کی ماں یعنی کہانی نویسی کی بنیاد رکھنے والے مُلّا وجہی کو ادب نصیب کہاں بھولے ہوں گے؟
پھر اُردو غزل کی آنکھوں کا تارا، جمال دوست ولی دکنی بھی تو اسی فضا میں پروان چڑھا، جس نے اُردو غزل کو معیار سے اُستوار کر کے اُردو شاعری میں وہی کردار ادا کیا ،جو انگریزی ادب میں جیفری چاسر نے۔
بات ذرا دُور نکل گئی، اصل میں تو ہم اُردو مزاح کے فروغ کے جذبے سے سرشار شخصیات اور رسائل کا ذکر کرنا چاہ رہے تھے، جس کا آغاز لکھنو سے ’فسانۂ آزاد‘ والے رتن ناتھ سرشار کے ’’اودھ اخبار‘‘ سے ہوا۔ پھر یکم جنوری ۱۸۷۷ء کو اسی شہر سے ’حاجی بغلول‘ والے منشی سجاد کی ادارت میں ’’اودھ پنچ‘‘ جاری ہوا، جس کا ’حاصلِ ضرب‘ اکبر الہٰ آبادی ہیں۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی دیکھا دیکھی پورے ہندوستان سے پنچ اخبار برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آئے۔
اس کے علاوہ ریاض خیر آبادی کے ’فتنہ‘اور ’عطرِ فتنہ‘ ، سیالکوٹ کا ’شیخ چِلّی‘ ، میرٹھ کا ’ظریف الہند‘، رام پور کا ’مذاق کا پہلا قدم‘، لاہور سے نکلنے والے تیس مار خاں، جعفر زٹلی، شریر، پاٹے خاں، مُلّا دو پیازہ، ظریف، چراغ حسن حسرت کا ’شیرازہ‘، وحشی مارہروی کا ’چاند‘، محمد دہلوی کا ’قہقہہ‘، ظفراللہ خاں کا ’زعفران‘ اور مشکور حسین یاد کا ’چشمک‘… کراچی سے مجید لاہوری کا ’نمکدان‘، ضیاء الحق قاسمی کا ’ظرافت‘ اور انور علوی کا ’مزاح پلس‘ … ۱۹۸۱ء میں راولپنڈی سے ضمیر جعفری اور کرنل محمد خاں کی ادارت میں نکلنے والا ’اُردو پنچ‘ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
پھرساقی، ماہِ نو، علی گڑھ میگزین، نقوش، آج کل، ہم سخن، لیل و نہار، راوی، خیال و فن، اُردو ڈائجسٹ اور کشتِ نو کے طنز و مزاح نمبر بھی اسی حسین رُخ کا غازہ ہیں۔ اس سارے منظر نامے سے آگاہی کے باوجود ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ برِ صغیر میں مسکراہٹوں کے فروغ، ہنسی کے نکھار اور قہقہوں کے تسلسل کے لیے جس استقامت کا مظاہرہ مصطفیٰ کمال کے ’’شگوفہ‘‘ نے کیا ہے، بلا شبہ وہ بے مثل بھی ہے اور بیش بہا بھی۔
ریاض خیر آبادی کے ’فتنہ‘اور ’عطرِ فتنہ‘ ، نے بھی تاریک ماحول میں تھوڑی بہت جگمگاہٹ پیدا کی۔ پھر سیالکوٹ کا ’شیخ چِلّی‘ ، میرٹھ کا ’ظریف الہند‘، رام پور کا ’مذاق کا پہلا قدم‘ بھی اپنا لطیف وجود منوانے میں کامران ٹھہرے۔ لاہور ہمیشہ سے زندہ دلان کا شہر ہے۔ یہاں سے جاری ہونے والے، تیس مار خاں، جعفر زٹلی، شریر، پاٹے خاں، مُلّا دو پیازہ، ظریف بھی کچھ عرصہ چہکتے، مہکتے، قہقتے رہے۔ اسی لاہور ہی سے چراغ حسن حسرت کے ’شیرازہ‘ کا کوئی اور کمال ہو نہ ہو یہ اعزاز بہرحال اسے حاصل ہے کہ ابنِ انشا جیسا اداس شاعری کا رسیا، اِسی میں شائع ہونے والی چلبلی تحریروں کے مطالعے کے بعد مزاح نگاری کی جانب راغب ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے شگفتہ ادب کا پردھان بن بیٹھا۔
وحشی مارہروی کا ’چاند‘ اگرچہ مکمل طور پر عوامی مزاج کا حامل پرچہ تھا لیکن اس کا دورانیہ بھی نصف صدی کی حدوں کو چھُوتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ محمد دہلوی کا ’قہقہہ‘، ظفراللہ خاں کا ’زعفران‘ اور مشکور حسین یاد کے ’چشمک‘ کا کریڈٹ بھی لاہور ہی کے کھاتے میں جاتا ہے۔
پاکستان میں پطرس بخاری، سعادت حسن منٹو، عبدالمجید سالک، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، راجا مہدی علی خاں، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق، شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، سید امتیاز علی تاج، ملا رموزی، نسیم حجازی، مشفق خواجہ، سید ضمیر جعفری، سید محمد جعفری، نذیر شیخ، محمود سرحدی، ایم آر کیانی، صدیق سالک، پروفیسر عنایت علی خاں، طفیل احمد جمالی، مجذوب چشتی، انور مسعود، پروفیسر افضل علوی، عطاء الحق قاسمی، وقار انبالوی، پروفیسر سلیم، مظفر بخاری، کندن لاہوری، عاشق جالندھری، مستنصر حسین تارڑ، ضیا ساجد، اعتبار ساجد، کرنل اشفاق حسین، صولت رضا، سرفراز شاہد، اطہر شاہ خاں جیدی، منظر علی خاں منظر، غلام جیلانی اصغر، مشکور حسین یاد، میرزا ریاض، سلمیٰ یاسمین نجمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید،ایس ایم معین قریشی، خالد مسعود، حسین احمد شیرازی، انور علوی، نواز اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے طنز و مزاح کی دنیا میں نئے نئے تجربات کیے اور اس شعبے میں نئے نئے رنگ بکھیرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے اس ادبی سرمائے کو نہایت فخر کے ساتھ دنیائے ظرافت کے مقابل رکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح نئے لوگوں میں راقم (ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک) سمیت، ڈاکٹر یونس بٹ، ڈاکٹر عباس برمانی، ایس ایم معین قریشی، شجاع الدین غوری، حسین مجروح، مسعود احمد چیمہ، نجمہ انوارالحق، نسیمہ بنت سراج، انجم انصار، ماسٹر الطاف، ذوالفقار چیمہ، مسرت چیمہ، ڈاکٹر فوزیہ چودھری، دلشاد انجم، ڈاکٹر تنویر حسین، عطا اللہ عالی، ڈاکٹر محسن مگھیانہ، محمد کبیر خاں، ڈاکٹر وحیدالرحمن خان، اختر حسین شیخ، اعجاز رضوی، زاہد مسعود، ابوالفرح ہمایوں،حسین کاشف، ڈاکٹر سلیمان عبداللہ ڈار، ڈاکٹر جاوید اصغر، گل نوخیز اختر، شعیب ودود، مہزاد سحر، نشاط یاسمین خاں، عارفہ صبح خان، مختار پارس، ڈاکٹر بدر منیر، ڈاکٹر ذوالفقار علی، زاہد فخری، ڈاکٹر عزیز فیصل، ڈاکٹر سعید اقبال سعدی، سید سلمان گیلانی، محمد اسلام، عارف مصطفیٰ، ڈاکٹر طاہر شہیر، مرزا عاصی اختر، ممتاز راشد لاہوری،ناصر محمود ملک، عابد معز، مرلی چوہان، خالد عرفان، ڈاکٹر اکرم سرا، امجد محمود چشتی، ڈاکٹر محمد کلیم، محمد عارف، فاخرہ نورین، ذوالفقار زلفی، شاہد ظہیر سید، علی رضا احمد، عابد محمود عابد اور کرن خان وغیرہ نے اُردو مزاح میں کسی طور سرسراہٹ پیدا کیے رکھی۔ آج مزاح کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اکثر بھارت میں تخلیق ہونے والے مزاح کی بابت پوچھتے ہیں۔
تو صاحبو سنیے!اُس طرف بھی فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، کرشن چندر، ابراہیم جلیس، خواجہ حسن نظامی، محفوظ علی بدایونی، ابنِ صفی، عظیم بیگ چغتائی، سجاد انصاری، قاضی عبدالغفار، فلک پیما، انجم مانپوری،خواجہ عبدالغفور، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، فرقت کاکوروی، دلیپ سنگھ، بھارت چند کھنہ، احمد جمال پاشا، ڈاکٹر رام آسرا راز، رام لعل نابھوی، محمد ذاکر علی خان، ڈاکٹر صغریٰ مہدی، سلمیٰ صدیقی، محمد برہان حسین، م نسیم، عاصی سعید، اندر جیت لال، اسحاق خضر،معین اعجاز، نعمان ہاشمی، لطافت بریلوی کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش کے معروف بیوروکریٹ جناب نریندرا لوتھر (وفات: ۱۹ جنوری ۲۰۲۱ء) جو زندہ دلانِ حیدرآباد تحریک و تنظیم کے صدر بھی رہے۔ وہ اہلِ حیدر آباد کی زندہ دلی کو تابندہ و توانا رکھنے کا بہت بڑا محرک تھے۔ وہ آخر دم تک اُردو ادب، بالخصوص طنزومزاح کے فروغ نیز ’’شگوفہ‘‘ کی معاونت میں پیش پیش رہے۔ انھوں نے حیدر آباد میں ۱۹۸۵ء میں عالمی طنزو مزاح کانفرنس بھی منعقد کرائی، جس میں چودہ ہندوستانی اور سات بین الاقوامی زبانوں کے مزاح نگار شامل ہوئے۔ پاکستان سے سید ضمیر جعفری اور عطاء الحق قاسمی نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ ہندوستان میں زندہ دلی کے سب سے بڑے ترجمان ’شگوفہ‘ کو تقویت بخشنے اور انھی صفحات سے اعتماد پکڑنے والوں میں تخلص بھوپالی، مختار ٹونکی، پرویز یداللہ مہدی،مسیح انجم، باقر مہدی، نامی انصاری، الیاس شوقی، سلیمان خطیب، منظور وقار، نصرت ظہیر، فیاض احمد فیضی، جاوید نہال ہاشمی، منظور الامین، ڈاکٹر محمد مجتبیٰ احمد، طالب خوندمیری، رؤف خوشتر، ضمیر حسن دہلوی، شیخ رحمن اکولوی، شفیق خاں ملیر کوٹلوی، اسد رضا، زنفر کھوکھر، کے این واصف، محمد رفیع انصاری، ضیا جعفر، عامر مجیبی، ڈاکٹر عباس متقی، اقبال شیدائی، رضوان رضوی، محمد شبیر پٹیل،انور قمر، ڈاکٹر محبوب حسن ، بابو آر کے وغیرہ بھی شامل تھے۔
اسی طرح خواتین مزاح نگاروں میں گویم مشکل، انیس بیس، جو مژگاں اٹھائیے، مجھے کچھ کہنا ہے، کی مصنفہ اورحید’’رآباد کی مزاح نگار خواتین‘‘ کی مولفہ ڈاکٹر حبیب ضیا، شفیقہ فرحت، ڈاکٹر بانو سرتاج، ’ماشاللہ‘ اور ’بہرکیف‘ کی خالق ڈاکٹر حلیمہ فردوس، رفیعہ نوشین، فرزانہ فرح، فریدہ سحر، عذرا نقوی، سعدیہ مشتاق، نسیمہ تراب الحسن، لکشمی دیوی راج، ڈاکٹر حمیرا سعید، ڈاکٹر ثریا شمیم، عمرانہ خانم اور خنسا خاں وغیرہ نے بھی اس لطیف شعبے میں خوب نام پیدا کیا۔
مزاحیہ شاعری میں ہندوستان میں رشید قریشی، برق آشیانوی، غوث خواہ مخواہ، گڑ بڑ حیدربادی، ہنس مُکھ حیدرآبادی، اسرار جامعی، مختار یوسفی، کرشن پرویز، اقبال شانہ، ہنس مکھ حیدر آبادی، نجیب احمد نجیب، ناظر خیامی، شباب للت، پاگل عادل آبادی، احمد علوی، آزاد بھوپالی، شوکت جمال، نٹ کھٹ عظیم آبادی، ڈاکٹر ظفر کمالی، محمد توحید الحق، شکیل سہسرامی، مسرور شاہ جہاں پوری، فیروز راغب، اسماعیل ظریف، بوگس حیدرآبادی، مضطر مجاز، رضا نقوی واہی، پاپولر میرٹھی، اقبال شانہ، علیم خاں فلکی، سگار لکھنوی، بے باک جوگی، تمیز احمد پرواز، شاہد ساگری، اسلم عمادی، سندر مالیگانوی، عظیم احمد نجیب آبادی، چچا پالموری، پھوقل مدراسی، مظلوم بہاری اور فیض رتلامی پیش پیش رہے۔
آخری بات یہ کہ جناب مصطفی کمال جو شگوفہ چھوڑنے اور شگوفہ کھلانے کا فرق بخوبی جانتے ہیں، نے اس کشتِ زعفران کو پھلتا پھولتا دیکھنے اور ترو تازہ رکھنے کے لیے صحیح معنوں میں خونِ جگر جلایا ہے۔ وہ اب زندگی کی نویں دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس وقت انھیں مالی مسائل کے ساتھ، پرنٹ میڈیا پہ زوال، معیاری مزاح نگاری کے فقدان کا بھی سامنا ہے۔