آہ روح کی جو گفتگو ہمیں ابھی کرنا تھی، ہو نہ سکی اور سفر تمام ہوا! جب نیرہ نور سے میری پہلی ملاقات ہوئی، اسے موسیقی کی راہ چھوڑے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا تھا۔ سادہ تو وہ ہمیشہ سے تھی ہی مگر سادگی کی انتہا اختیار کر چکی تھی۔ شادی کی اس تقریب میں، بنی سنوری میں، اس کی سادگی کے سامنے بے رنگ ہوئی جارہی تھی۔ میں ہمیشہ سے اس کی آواز کی مداح تھی۔ تنہائی میں اس آواز کو دیر دیر تک اور بار بار سنا کرتی۔
”اے عشق ہمیں برباد نہ کر“
”وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا“
”اے جذبہ دل“
مگر جب ملاقات ہوئی تو ہماری گفتگو کا موضوع ہی اور تھا!
میں نے شکوہ کیا بھی کہ اتنی خوبصورت آواز سے کیوں محروم کر دیا ہمیں!
کہا ”نفس کو شکست دینے کے لیے“
میں نے رسمی طور پر کہا کہ موسیقی بھی تو روح کی غذا ہے!
کہا ”روح کو جب اصلی غذا میسر ہو تو پھر مصنوعی غذا کیوں لی جائے“
اس کے بعد گفتگو کا رخ ہی مڑ گیا۔
”شہرت سے تیاگ ہی راستے کی دھند ہٹاتا ہے اور منزل واضح کرتا ہے“
”شہرت کی لذت سے نجات ہی نئے سرے سے انسان کو اپنے آپ سے متعارف کرتی ہے“
”فنا اور بقا کیا ہے!“
”جسم و روح کا علیحدہ علیحدہ سفر کیا ہے!“
”دنیا محض نگاہ کا نظارہ ہے اور اصل حقیقت انسان کے اندر موجود ہے“
ایک طویل گفتگو، رات سے جس کے سرے پکڑنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
اس پہلی ملاقات کے اختتام پر اس وعدے کے ساتھ کہ پھر ملیں گے، جب ہم نے ایک دوسرے کو خداحافظ کہا تو سڑک کے کنارے گاڑی کے انتظار میں ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے، نیرہ نے اچانک میرا ہاتھ تھام لیا۔ دھیرے سے بولی ”جو بھی کچھ ہے، فقط حاضر سانس ہے۔ نہ اس کے بعد کچھ ہے اور نہ اس سے پہلے کچھ ہے“
یہ آخری جملہ بہت دنوں تک میرے اندر نیرہ کی آواز میں سرگوشیاں کرتا رہا۔
”جو بھی کچھ ہے، فقط حاضر سانس ہے“پھر ایک طویل عرصے بعد ہماری ملاقات سلطانہ صدیقی کے گھر پر ہوئی۔ ہندوستان سے آئی ایک بڑی فلمی شخصیت نے جو اس دعوت کے مہمان خاص تھے، خاص طور پر نیرہ سے ملنے کی خواہش کی تھی۔ شہرت کے آسمان پر جگمگاتے کئی لوگ تھے، مگر میں اور نیرہ خالی ہوچکے ڈائننگ روم کے ایک گوشے میں دیر تک بیٹھے رہے۔ کہنے لگی، میں کہیں بھی نہیں جاتی۔ بس سلطانہ کی وجہ سے آئی ہوں۔ جن صاحب نے اس سے ملنے کی خواہش کی تھی ان کے ساتھ رسمی گفتگو کرتے ہوئے بھی میں نے اسے نہیں دیکھا۔ کھانے پر الگ تھلگ ہی کھڑی رہی۔
جونہی ڈائننگ روم خالی ہوا ہم دونوں وہیں اک گوشہ عافیت پکڑ کر بیٹھ رہیں۔ اب کی بار نیرہ نے شکوہ کیا کہ تم نے ملنے کا وعدہ کیا تھا، مگر وعدہ وفا نہ کیا! جواب میں شرمندگی کے ساتھ میرے پاس مصروفیات کی ایک طویل فہرست تھی جو جابجا شہرت کے آسیب میں لپٹی ہوئی تھی، دنیا کے گورکھ دھندوں کا جال جو میرے پیروں تلے بچھا تھا، دراز تر کار جہاں کے معاملات اور اک لمحہ فراغت کا انتظار! اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ (ایک چھوٹا سا نرم ہاتھ جو میرا ہاتھ پکڑے رہا)۔ کہا، کام اتنا کرو جتنی ضرورت ہے۔ باقی فقط بھوک ہے جو مٹے گی نہیں۔ بڑھتی چلی جائے گی۔ لکھو وہ جو دوسروں کا دامن بھر دے۔ یوں ہم ایک بار پھر روح کی کیفیات کی طرف لوٹ آئے۔
ڈرائنگ روم سے سنائی دیتے قہقہوں سے لاتعلق، جیسے محفل میں موجود ہوتے ہوئے بھی ہم موجود نہ تھے۔ وہ بھی یہی تو مجھے کہہ رہی تھی کہ دنیا میں رہو، مگر دنیا سے دستبردار ہو کر رہو۔ اس بار تنہائی کی ملاقات میں، اس کے چہرے کا سکون پہلی بار مجھ پر عیاں ہوا۔ مکمل سکون۔ دنیا کے بپھرے سمندر کے دوسرے کنارے پر جا کھڑے ہونے کا سکون۔ میں اس وقت اسی سمندر کی بپھری موجوں پر ڈولتی ناؤ میں بیٹھی اسے حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ میں اس سکون سے محروم تھی! مجھ سے دنیا کا دوسرا کنارا ابھی بہت دور تھا! عجب سحر تھا اس کی ذات میں! وہ میرا ہاتھ تھامے بولتی رہی کہ انسان اگلی سانس کی تیاری کرتا ہے، جس کی خبر ہی نہیں کہ موجود بھی ہے یا نہیں۔
اپنی حاضر سانس سے لاتعلق رہتا ہے جبکہ حاضر سانس میں ہی اصل راز پوشیدہ ہے۔ ایک بار پھر ہم نے اگلی ملاقات کا وعدہ کیا۔ اٹھتے وقت اس وعدے پر اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ ایک گرم جوش محبت بھرے سراپے کا لمس میں نے خود میں سرایت کرتا محسوس کیا اور ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ اس ملاقات کے کچھ برس بعد اسی سال جنوری میں اس سے ملنے کی خواہش پیاس کی طرح ستانے لگی۔ میں نے فون کیا، فون نہیں اٹھایا۔ کوئی دو دن بعد نہ جانے کس وقت اس نے کال کی جو میری نظر سے رات گئے گزری۔
اگلی صبح میں نے پھر کال کی، نہیں اٹھائی۔ میں سمجھ گئی کہ فون کو وہ قریب نہیں رکھتی رات سنا کہ اس نے حاضر سانس کے بعد اگلی سانس کو رد کر دیا! اللہ اس کے درجات بلند کرے۔ اپنے رب کے حضور یقیناً ”وہ ایک پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ روبرو ہوگی۔ شہرت، نام و نمود اور دنیا کے شور و غوغا سے لاتعلق، خواہشات نفس سے آزاد، نفس مطمئن، سانس سانس کا نپا تلا حساب تھامے ہوئے ہماری پیاری نیرہ نور۔ کاش ایک بار، فقط ایک بار میں نے اس کے ماتھے کو بوسہ دیا ہوتا!