• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسفے کی اساس سوال اور اخلاقیات کی بنیاد رویہ ہے۔ یہ اخلاقی فلسفے (Moral philosophy) کا موضوع ہے، جہاں اخلاقی اقدار کو مذہبی، معاشرتی، ادبی وثقافتی، کاروباری، قانونی، سیاسی، نفسیاتی اورملکی و غیرملکی نقطۂ نظر سےجانچا/ پرکھا جاتا ہے تاکہ انسان میں سچ، حسن سلوک، دوستی و تعاون، برداشت و رواداری اور نیکی و ہمدری جیسی صفات پیدا ہوں اور وہ جدید بین الاقوامی دنیا میں بڑھتے روابط کو فروغ دے کر عالمی کاروبار، امن و رواداری کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

فلسفہ و اخلاقیات میں کیریئر اور مواقع 

موجودہ معاشرتی و معاشی دنیا کومعیاری، تعلیم یافتہ، ہنرمند اور با اخلاق لوگوں کی ضرورت پڑتی ہےجو سچ اور نیکی سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں وہی کاروبار کام یاب ہے جو بااخلاق ماہرین پر مشتمل ہو۔ لوگوں کو’کام کی اخلاقیات‘(Work Ethics) کا پتہ ہو اور ٹیم ورک کے طور پر قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوں۔ 

یہاں تعلقات افسر عامہ سمیت دنیا بھر کے تمام کاروبار اور سرگرمیوں میں کیریئر سازی اور ملازمت کے لاتعداد مواقع موجود ہیں، جن کی تربیت دنیا بھر کے بزنس اسکولز میں گریجویٹ سے پی ایچ ڈی اسناد تک مہیا کی جاتی ہیں۔ ’کسٹمر سروس‘کی مکمل تربیت اپنے شعبے میں مہارت کے ساتھ’کمیونی کیشن اِسکلز‘ کورس بھی مانگتی ہے۔ اخلاقی فلسفہ ابتدائے تہذیب سے موجودہ ٹیک دور تک14 لباس تبدیل کرچکا ہے۔ اب یہ انتخاب آپ کا ہے کہ آپ اخلاقیات کے کون سے پیمانے کو منتخب کرتے ہیں۔

فلسفہ اخلاقیات( Deontology):  یہ ایک اخلاقی نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ قوانین کے واضح سیٹ کے مطابق اعمال اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ وہ اعمال جو ان اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں، اخلاقی ہوتے ہیں، جبکہ ان اصولوں کے برعکس اعمال اخلاقی نہیں ہوتے۔

انفرادیت(Individualism) : ایک سماجی نظریہ جو اجتماعی یا ریاستی کنٹرول پر افراد کے لیے عمل کی آزادی کا حامی ہے۔ انفرادیت میں فرد ’معاشرتی کاملیت‘ (social totality) پر فوقیت رکھتا ہے، جس کا نعرہ ہے: ’اقدار فرد سے پیدا ہوتی ہے‘۔

شادمان اخلاقیت (Eudemonism): یہ اخلاقیات کا ایک نظام ہے، جو خوشی پیدا کرنے والے اعمال کے امکان پر اخلاقی قدر کی بنیاد رکھتا ہے۔ شادمانی پیدا کرنے والے عمل کو فریضہ اخلاقی قرار دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ’’ عمل کا مقصد خوشی کی تلاش ہے‘‘۔

قنوطیت (Pessimism) : یہ ایک قسم کا مایوس، یاس پسند، نا امید اور منفی سوچ کا حامل رویہ ہے، جس میں کسی مخصوص صورتحال سے ناپسندیدہ نتائج کی توقع کی جاتی ہے۔ یاسیّت پسند عام طور پر زندگی کے منفی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

افادیت پسندی (Utilitarianism) : افادیت پسندی ایک اخلاقی نظریہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہترین عمل وہ ہے جو افادیت کو زیادہ سے زیادہ بنائے۔ افادیت کی وضاحت مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ افادیت پسند صحیح طرز عمل کا تعین فائدہ مند نتائج سے بتاتا ہے۔ عمل کے معیار سےسچی خوشی ملتی ہے، لہٰذا مسرت کی تلاش میں افادیت کا اصول مقداری و معیاری ہر دو لحاظ سے ریاضیاتی اعداد و شمار کے مطابق ہونا چاہیے۔ صرف وہ چیز پڑھائی جائے جو مفید اور باعث مسرت و اطمینان ہو ۔

لذتیت(Hedonism): لذتیت کا نظریہ، یہ یقین رکھنا کہ انسانی زندگی کا اوّلین مقصد حصول لذت ہے۔ مسرت و شادمانی کی طرف زیادہ رجحان لذتیت کے زمرے میں آتا ہے۔

تقدیر(Stoicism) : تقدیری اخلاقیات کے تحت انسان کے اعمال کو تقدیر کی قبولیت سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ آدمی صرف چیزوں کے بارے میں اپنے خیال میں مہارت حاصل کرتا ہے ، اپنے نتائج کے حوالےسے چیزیں مقدر کی محتاج ہوتی ہیں،جنھیں منطق،جرأت ،انصاف اور استقلال جیسی خوبیوں سے قسمت کو ہمنوا بناکر حاصل کیا جاسکتا ہے۔

فطری و ناگزیر مسرت پورا کرنے کی اخلاقیات(Epicureanism ): یونانی فلسفی ایپی کیورس کی یہ اخلاقیات صرف قدرتی اور ضروری خوشیوں کو پورا کرنے پر مشتمل ہے۔ Epicureanism اصل میں افلاطونیت کے لیے ایک چیلنج تھا۔ بعد میں اس کا اصل مخالف Stoicism بن گیا۔

نتائج پر مبنی اخلاقیات (Consequentialism): عمل کے صرف نتائج ہی اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونےکا تعین کرتے ہیں، جس کے داعی یونانی فلسفی ڈیموستھیز تھے، میکس ویبر نے فرد کی خودپسندی و خودنمائی پر توجہ دیکر انفرادی اخلاقیات کو اجاگر کیا۔

خشک مزاجی(Cynicism) : اس نظریے نے لوگوں کو بے یقینی کے دور میں خوشی اور مصائب سے آزادی کا امکان پیش کرنے کا دعویٰ کیا۔ اخلاقیات کے خوگر اور تنک مزاج دیکھے ہوں گے جومذاہب، اخلاقیات ،ثقافت و روایات سے بالاتر مکمل مادر پدرآزادی کے متوالےہوتے ہیں۔ یہ لوگ کسی پر آنکھ بند کرکے بھروسا نہیں کرتے، تاہم یہی خوبی انھیں اپنے کام میں باکمال کرکے ہجوم سے منفرد کرتی ہے۔

اخلاقی نسبیت(Ethical Relativism ) : کوئی بھی اخلاقیات عالمگیریت کا دعویٰ نہیں کرسکتی ، ہر ثقافت میںہردو مساوی مناسب اخلاق موجود ہے۔ اس کے بانی یونانی فلسفی پروٹا گورس تھے،جن کا کہنا تھا:’’آدمی سب چیزوں کا پیمانہ ہے‘‘۔

ایثاریت (Altruism): ایثاریت کا اخلاقی فلسفہ افراد کےمابین احترامِ انسانیت، فلاح وبہبود، ایثارو قربانی اور بے غرضی کی صفات پر مبنی ہے کہ وہ ایسے اصول یا قدر اپنائیں جس میں دوسروں کو اپنی جان پر ترجیح دی جائے۔

وجودیت (Existentialism) : اس اخلاقی فلسفے کے تحت انسان اپنی راہ اور اخلاقیات آزادانہ ایجاد کرتا ہے۔ اس ضمن میں سارتر کے وجودی نظریات نے پذیرائی پائی، جس کے اثرات آج عالمی اخلاقیات پر یوں مرتب ہوئے کہ جو اپنے وجود کی قدر نہ جانے اسے دوسرے وجود کی کیا قدر ہوگی۔