• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواب دیکھنے، دِکھانے والا ’مطیع الرحمان‘ (قسط نمبر…2)

علی سفیان آفاقی میں مطیع سے ملاقات کا اشتیاق بیدار ہوا۔ آفاقی کئی فلموں کے کہانی کار اور صحافتی دنیا کا جانا پہچانا نام تھے۔ لیے دیے رہتے تھے، نوائے وقت گروپ کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے رسالے، فیملی میگزین کے وہ مدیرِاعلیٰ تھے، میری بھی اُن سے چند ملاقاتیں ہوچُکی تھیں۔ اُنھی دنوں ’’مُون ڈائجسٹ‘‘ کے سفید سُوٹ اور سفید جوتے پہننے والے پختہ رنگت کے حامل، انوکھے مدیر، ادیب جاودانی صاحب سے بھی میری کئی ملاقاتیں ہوچُکی تھیں، مَیں اُن کے رسالے کے لیے فرضی ناموں اور اپنے اصل نام سے بھی چونکا دینے والی چند تحریریں شوقیہ اور اعزازی طور پر لکھ کر تائب ہوچُکا تھا۔ مطیع نے آفاقی صاحب کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کیں۔ 

جب وہ اُن کے پاس پہنچا تو اُنھیں حیران کردیا۔ وہ اپنے ساتھ آفاقی کے ہاتھ کا خیالی نقشہ بنا کر لے گیا تھا۔ جب آفاقی نے اُس نقشے یا خاکے کا موازنہ اپنے ہاتھ سے کیا تو وہ ہُوبہُو اصل جیسا تھا۔ اُس کی لکیروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ بعد ازاں، انھوں نے اس کا اعتراف اپنی تحریروں میں بھی کیا۔ تارڑ صاحب سے مطیع کا چند مرتبہ تذکرہ ہوا تو وہ بھی اُس کی ہاتھ کی لکیروں سے بیماری جانچ لینے کی صلاحیت کے خاصے قائل نظر آئے۔ جیسے جیسے مطیع کی دست شناسی کی شہرت پھیل رہی تھی، اُسے مختلف دعوتوں اور پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا تھا اور وہ اپنے اصل روزگار یعنی انشورنس کمپنی کی باعزت ایگزیکیٹو جاب سے دُور ہوتا جارہا تھا۔ 

دراصل وہ لگی بندھی زندگی سے دُور بھاگتا تھا۔ چوں کہ وہ ایسا دَورتھاکہ لوگوں میں دست شناسی کے ذریعے مستقبل جاننے کا شوق بڑھ رہا تھا۔ مطیع کے گاہکوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا تھا، آمدنی اتنی تو نہ تھی کہ وہ خوش حال لوگوں کی صف میں آجاتا، مگر بنیادی اسبابِ زندگی کی فراہمی لائق ضرور ہوگئی تھی۔ ایک روز اُس نے میکلورڈ روڈ پر واقع اپنے دفتر سے استعفا دیا اور دست شناسی کی ڈولتی کشتی پر سوار ہوگیا۔

ایک مرتبہ اسٹیشن کی بینچ پربیٹھے ہوئے مَیں نے اُس سے پوچھا کہ اُسے سب سے خُوب صُورت ہاتھ کس کا دیکھنے کا موقع ملا، تو اُس نے بِلا توقف کہا ’’ایک سابق گورنر کی سابقہ بیگم کا۔‘‘یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں وہی چمک آگئی، جو کسی مصوّر کی آنکھوں میں کسی شاہ کار کو یاد کر کے آتی ہے۔ وہ حسبِ عادت میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر، پرُجوش لہجے میں بتانے لگا کہ جب وہ 1990ء میں پہلی مرتبہ اُن سے مِلا تو اُن کا حُسن دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ تب تک اُس نے اُن خاتون کی اپنے سابقہ شوہر پر تحریر کردہ کتاب پڑھ لی تھی۔ اُس کتاب اورسُن گن کی بنیاد پر اُن کے ہاتھ کا خیالی خاکہ بنا کر ساتھ لیتا گیا۔ 

درحقیقت اُس کتاب کو پڑھ کر ہی اُس کے دل میں خاتون سے ملنے کی خواہش مچل اُٹھی تھی۔ اُس نے ان کے گھر کا فون نمبر حاصل کرکے فون کیا تو اُنھوں نے اگلے چند ہفتوں کی مصروفیت کا کہہ کر ٹال دیا۔ فون بند کرتے ہوئے جب انھوں نے مطیع سے ضمناً ملاقات کی وجہ پوچھی تو مطیع نے اپنے دست شناس ہونے کا بتایا۔ بہت سی خواتین کی طرح اُنھیں بھی دست شناسی سے دل چسپی تھی، انھوں نے مطیع کو فوراً گھر بُلالیا۔ جب ایک حسین اور نوجوان خاتون سے اُس کی ملاقات ہوئی تو اُس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ وہی خاتون ہیں، جو دو شادیاں کرکے چار پانچ بچّے پیدا کرچُکی ہیں۔ بقول اُس کے، اُن کا گھر نوادر سے سجا ایک عجائب خانہ تھا۔ 

نیم تاریک ڈرائنگ روم میں ایک، ڈیڑھ سو سال پرانا منقّش سواتی دروازہ کُھلتا تھا، ہر سُو عجائب و نوادر رکھےتھے۔ رہائشی حصّے کےکشادہ کمرے کی پشتی دیوارشیشے کی تھی، جس سے خُوب صُورت لان نظر آتا تھا، صوفوں پر سوات اور ہزارے کی گُل کاری کے غلاف، چاندی کے ظروف، سواتی پیڑھے، شیلفس میں قدیم دَور کے مٹّی کے برتن اورچند مُورتیاں، جھولا اور ایک ایزل پر نامکمل پینٹنگ رکھی تھی۔ 

مطیع نے بتایا کہ ایک جانب اُس نے خاتون کو اُن کے مزاج کے علاوہ ماضی کے اَن لکھے واقعات کا بتایا، مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کیں اور اُٹھتے ہوئے یہ بھی کہتا آیا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ سابق گورنر کی وجہ سے اُنھیں نہیں جانیں گے بلکہ اُن کی وجہ سے گورنر صاحب کو جانیں گے۔ اُس کی پیش گوئی کتنی درست تھی یہ وقت ثابت کرے گا۔ ویسے مطیع ہمیشہ سے اُمیدوبیان کی گلوری میں میٹھا زیادہ ہی ڈالتا آیا تھا۔

ابتدائی ملاقاتوں میں اُس نے میرے بارے میں بہت سی درست پیش گوئیاں کرکے ایک ایسی پیش گوئی کردی تھی، گویا اُمید میں میٹھا بڑھا دیا تھا۔ چند برس پہلے پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا، کپتان عمران خان شہرت کے عروج پر تھے اور اُن کے مداحین میں کثیر تعدادخواتین کی تھی۔ مطیع نے مجھ سے کہا تھا۔ ’’تمھیں اپنی زندگی ہی میں عمران خان جیسی شہرت حاصل ہوگی اور اُس سے زیادہ لڑکیاں تُم پر مریں گی۔‘‘مَیں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کئی برس تک منتظر رہا تھا۔ 

مَیں نہیں جانتا تھا کہ یہ پیش گوئی کیوں اور کیسے پوری ہوگی، البتہ اُس کے پہلے حصّے سے زیادہ دوسرے حصّے کے پورا ہونے کی خواہش انگڑائی لیتی رہتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ یہ ضرور پوری ہوگی۔ اب دو دہائی سے زیادہ گزر جانے کے بعد مَیں اعتماد سے دعویٰ کر سکتا ہوں کہ وطنِ عزیز میں کسی ادیب پر فقط ادب سے تعلق کی بنیاد پر جس تعداد میں زیادہ سے زیادہ خواتین فدا ہو سکتی ہیں، وہ صفر سے ہرگز زیادہ نہیں۔ جب مَیں نے مطیع الرحمان سے دوستی کا تذکرہ اعزا و اقربا میں کیا، تو چند ایک نے اُس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ 

میرے ایک عزیز جاگتے میں خواب دیکھنے کے عادی ہیں۔ معصوم آدمی ہیں، محدود ذرائع آمدنی رہے ہیں، مگر کتابیں اور فلمیں بین الاقوامی اسمگلرز، لمحوں میں ارب پتی بن جانے والے امریکی کاروباری بروکرز اور پرائیوٹ جزیروں اور ہوائی جہازوں کے مالک عرب شیوخ کے بارے میں پڑھتے، دیکھتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو ان میں شمار کرتے رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں۔ 

سو، ایک مرتبہ مطیع کا اسلام آباد جانا ہوا تو مَیں نے اُن کی ملاقات طے کروادی۔ چند روز بعد مَیں نے عزیز سے اُس کے بارے میں دریافت کیا، وہ بولے۔ ’’تمھارے دوست کی کئی پیش گوئیاں درست اور چند غلط لگتی ہیں،مگر ایک پیش گوئی پر میرا دل آگیا ہے۔‘‘ ’’وہ کیا؟‘‘مَیں نے پوچھا۔ وہ چند لمحے تذبذب کے بعد بولے ’’وہ کہتا ہے کہ مَیں سینیٹر بنوں گا۔ بات تو وہ سچ کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے، ایک روز، بلکہ جلد ہی مَیں سینیٹر بن جاؤں گا۔‘‘ اُن کا تذبذب دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا’’پھر مسئلہ کیا ہے؟‘‘ 

انھوں نے جواب دیا ’’سینیٹر بننا تو یقینی ہے، مگر مَیں نے آج تک نہ توکوئی سیاسی پارٹی جوائن کی ہے، نہ ہی سیاست میں حصّہ لیا ہے اور نہ ہی مَیں ٹیکنو کریٹ ہوں، سو مجھے تجسّس یہ ہے کہ مَیں کس سیاسی پارٹی کی جانب سے سینیٹر بنوں گا۔‘‘ انھوں نے آج تک الیکشنز میں ووٹ بھی فقط ایک بار ڈالا، وہ بھی کائونسلر کے الیکشن میں۔ جعفری صاحب ایک معروف ومستند ماہرِتعلیم رہے ہیں۔ تعلیمی راہ نمائی کے لیے مَیں اُن کے جوہر ٹاؤن، لاہور میں واقع گھر جاتا رہا ہوں۔ کیا شفیق اور باغ وبہار شخص تھے۔ کئی ماہ باقاعدگی سے اُن کے ہاں جانے کی وجہ سے ایک ایسی بےتکلفی پیدا ہوگئی، جو استاد شاگرد کے رشتے سے ماورا گھر کے دو افراد کے بیچ پیدا ہوجاتی ہے۔

ایک مرتبہ وہ گہری سوچ میں گُم تھے اور تدریس پر توجّہ نہیں دے پارہے تھے۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’میری بیٹی کے لیے دو رشتے آئے ہوئے ہیں۔ دونوں اچھےہیں، استخارے سے فیصلہ نہیں ہو پایا۔ سمجھ نہیں آتا کہ کس رشتے کا انتخاب کریں۔‘‘ مَیں نےچُٹکی بجاتے ہوئےکہا’’سر! یہ کون سا مشکل معاملہ ہے۔ میرا ایک دوست مطیع دست شناس ہے۔ وہ بِٹیا کا ہاتھ دیکھ کر اچھا مشورہ دے سکتاہے۔‘‘ وہ بولے ’’وہی مطیع الرحمان جو ٹی وی پر آتا ہے۔‘‘ مَیں نے اثبات میں سرہلا دیا اور اُن کے گھر کے فون ہی سے مطیع الرحمان سے رابطہ کروا دیا۔ اگلی مرتبہ جب مَیں اُن کے گھر گیا تو وہ باقاعد ہ طور پر اچھے خاصے ناراض تھے۔ 

مَیں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ بیٹیوں کے رشتوں کے معاملات بہت سنجیدہ اور نازک نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اُن میں مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سُن کر میں واقعتًا پریشان ہو گیا۔ جب مَیں نے ناراضی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو وہ کچھ بھی بتانے پر آمادہ نہ ہوئے۔مَیں نےزیادہ اصرار کیا تو گویاپھٹ پڑے۔ ’’جس آدمی کا تُم نے بتایا تھا، مَیں بیٹی کو اُس کے پاس لے کر گیا تھا۔ بیٹی کا ہاتھ دیکھ کرکہنے لگا ’’تُم پاکستان کی وزیرِاعظم بنوگی‘ غضب خدا کا، میری بیٹی نے آج تک نہ تواخبار پڑھا ہے اور نہ ہی اسے ایک دو کے علاوہ کسی سیاست دان کا نام معلوم ہے۔ کسی کو بےوقوف بھی سلیقے سےبنایا جاتا ہے۔‘‘ جب مَیں نے خُوب معذرت کی تو اُن کا مزاج اعتدال پر آیا۔ اس دوران مطیع لاہور چھاؤنی سے نکل کر پہلے سینٹر پوائنٹ پلازا گلبرگ، بعدازاں اُس دَور کے جدید فیشن ایبل پلازا پیس(PACE) منتقل ہوگیا۔ 

منتقل ہونے سے چند روز پہلے مطیع کو ایک عجب مسئلہ درپیش ہوا تھا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک حسین اور اُداس لڑکی مطیع کو ہاتھ دکھانے آئی۔ اُس لڑکی سے ایک لڑکے نے شادی کا وعدہ کرکے منگنی کہیں اور کرلی تھی۔ وہ لڑکی جاننا چاہتی تھی کہ آیا اُن کا تعلق آگے بڑھے گا، کیا شکل اختیار کرے گا یا ختم ہوجائے گا۔ مطیع نے اُس کی ہتھیلی کا معائنہ کرکے اُسے سمجھایا تھا کہ وہ غیر معمولی طور پر ذہین ہے، اُس کے ہم عُمر لڑکے اُس کی دماغی سطح کو نہیں پہنچ سکتے۔ اُس کے لیے موزوں ترین تعلق کسی پختہ عُمر مردہی سے ہوسکتا ہے۔ مطیع نے اُسے یہ بھی بتایا کہ جلد ہی اُس کی زندگی میں ایک شادی شدہ، مستحکم مزاج کا حامل، ہم درد اور پختہ عُمر مرد آنے والا ہے۔ 

یہ پیش گوئی کر کے مطیع نے اُس کی زندگی میں آنے والے مرد کی وہ تمام علامتیں بیان کردیں، جو خود اُس کے اپنے اندر تھیں۔ اپنا بیان مکمل کرکے مطیع نے اُس لڑکی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر انکشاف کیا کہ وہ شان دار مرد مطیع الرحمان خود ہے۔ یہ کہتے ہوئے یقینا مطیع نے اس کی آنکھوں میں محبّت بھری نظروں سے جھانکابھی ہوگا۔ قصّہ کوتاہ، اُس لڑکی نے وہاں سے سیدھا پلازا کے انتظامی دفتر کا رُخ کیا اور مطیع کی شکایت کی۔ نتیجتاً مطیع کو لینے کے دینے پڑگئے۔ 

بہت مشکل سے یہ معاملہ کسی طور ٹھنڈا پڑا۔ مطیع کے رومانی جذبات اُس کے دماغ میں جنم لے کر وہیں دم توڑ جاتے تھے۔ رنگین مزاجی اُس کی عملی زندگی میں نہ جھلکتی تھی، کچھ جھلکتا تھا تو ایک کُھلے ڈُلے، کھانے پینے کے شوقین، زندگی کے رنگوں سے معمور، گپ باز، یارباش لاہوری کا مزاج۔ اُس کے خاندان کا تعلق لاہور سے نہ تھا، مگر مطیع پکّا لاہوری تھا۔ یہ اُن ابتدائی دِنوں کی بات ہے، جب ہم چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن پر شام سَمے بیٹھا کرتے تھے کہ اُس نے مجھے اپنے خاندان کا احوال سُنایا۔

مانسہرہ میں پیدا ہونے والے اُس کے دادا سے وابستہ ایک کرامت معروف تھی۔ اُس کے حکیم دادا ایک نیک، پرہیزگار بزرگ تھے، جو چکّی سے مکئی بھی پیستے تھے۔ ایک رات ان کے ہاں مہمان آگئے۔ گھر میں مہمانوں کے لیے روٹی نہ تھی۔ دادا نے اپنے اوپر چادر لے کر اپنے ہاتھوں سے مکئی پیس کر اُس کا آٹا بنا دیا۔ اُن کی اپنے ہاتھوں سے مکئی کو آٹا کردینے کی کرامت علاقے بھر میں پھیل گئی۔ پہلے لوگ ان کی عزّت ایک متقّی، عبادت گزار انسان کے طور پر کرتے تھے، اِس کرامت کے بعد عقیدت کا سنہرا رنگ بھی شامل ہوگیا۔ لاہور دینی تعلیم اور حکمت کا مرکز تھا۔ مطیع کے والد مانسہرہ کے گاؤں، مراد پُور سے لاہور چلے آئے۔ لاہور میں اُن کاقیام گوال منڈی میں ہوا۔ 

یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کا دَور تھا کہ اُنھوں نے وہاں چیمبرلین روڈ پر ایک جامع مسجدمیں، جو مسجد تاجے شاہ کے نام سے جانی جاتی ہے، قیام کیا۔ وہ اُس مسجد کے امام و خطیب بھی مقرر ہوئے۔ اُس مسجد کے مشرق میں واقع اقامتی حصّے میں مطیع کی پیدائش ہوئی۔ اُس کے والد اسے عربی، فارسی اور دینی تعلیم دلواناچاہتے تھے، جب کہ والدہ دنیوی انگریزی تعلیم کے حق میں تھیں۔ چناں چہ دن کو دنیوی اور شام کو دینی تعلیم مقررکا انتظام کیا گیا۔ کالج تک مطیع کا سر باقاعدگی سے اُسترے سے منڈوایا جاتا رہا۔ گوجرگوالے اُن کے ہم سائے تھے اور بھینسیں عام بندھی رہتی تھیں۔ 

ماحول میں قدامت اور روایت رچَی بسی تھی۔ گردشِ ایام اُنھیں ساندہ لے آئی۔ وہاں جاکر مطیع کی آنکھیں کُھل گئیں کہ اُن کے ہم سائے میں اسمگلر اور بلیکیے رہتے تھے۔ سیاست میں بھی اُنھیں خاصا رسوخ حاصل تھا، تماش بینی مزاج میں تھی اور دولت کی چمک دِکھانا اُن کی عادت تھی۔ مطیع کے ہم سایوں میں سے ایک ہم سائے کے بیٹے نے معروف ہیروئن نادرہ کو قتل کیا تھا۔ اُن کی رنگ محل میں سنار کی پانچ چھے دکانیں تھیں۔ یہ وہ دَور تھا، جب ابھی شہر زیادہ پھیلا نہ تھا۔ مطیع معاشی طور پر ایک نچلےمتوسّط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم سایوں کے سونے کی چمک اُس کی آنکھیں خیرہ کرتی تھی اور دولت کا مقناطیس اس کی توجّہ کھینچتا تھا۔ اُس نے اُن لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا۔ چڑھتی جوانی جب تک پک کر پختہ ہوتی ہے، تب تک اُس پر زمانے کا رنگ چڑھ آتا ہے۔ 

انڈر ورلڈکی چکاچوند، دولت کا گلیمر، راتوں رات غیر متوقع اور غیر معمولی کام یابی کے سینہ بہ سینہ سفر کرتے رنگین قصّے اُس کی ذات کا یوں حصّہ بن گئے، جیسے چاندی کی صراحی پر نقوش ثبت ہوجاتے ہیں۔ قیمتی پتھروں، نوادر اور شکار کے شوق بھی اُس دَور کی پیداوار تھے۔ ابھی وہ نوخیزی کی سیڑھیاں چڑھتا جوانی کے مینار کی جانب بڑھ رہا تھا کہ ایک روز انارکلی کے فٹ پاتھ پر اُس نے دست شناسی کی ایک چھوٹی سی کتاب دیکھی اور خریدلی۔ ابتداً اُس نے سرسری طور پر اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا، جو بعدازاں، شوق کی صُورت اختیار کر گیا۔ اُنھی دنوں اُس کے والد گوال منڈی میں واقع اپنے دوا خانے سے پیدل اپنے گھر ساندہ آیا کرتے تھے۔ گھر میں بیٹھک ایک چوپال کی حیثیت رکھتی تھی طرح طرح کے لوگ جہاں آتے تھے اور محفل جمی رہتی تھی۔ (جاری ہے)